سفاک مرد، مظلوم عورتیں اور آپا نور الہدی شاہ کا مشورہ
سنگدل ٹھٹھا اڑاتے ہیں اور نرم دلوں سے سہا نہیں جاتا۔ کبھی اگر تحریر لکھنے میں تاخیر ہو تو برادرم وجاہت مسعود بڑے دھیمے لہجے میں کہتے ہیں، خواجہ صاحب کوئی تحریرنہیں آئی؟ لکھوں کیا؟سوچتا ہوں شاید بے حس ہوجانا ہی حل ہے ورنہ دماغ پھٹ جانے کا احتمال ہے۔ جیسنڈرا آرڈرن کو صوفی اور ظلمت کو ضیا کہنے سے انکار کی، ’مجرم‘ شفیق آپا نورالہدی شاہ کا مشورہ ہے ایسے حالات میں لکھتے رہنا چاہئے، احتیاط سے، بچ بچا کر، بچاؤ لیکن کس سے؟ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی، لیکن نام لیتے ہوئے “آبلے پڑ گئے زباں پہ کیا” جیسی کیفیت ہوتی ہے۔
بہاولپور میں پروفیسر خالد حمید کے قتل نے اس قدر رنجیدہ کیا کہ اب بھی ذہن اس واقعے کی طرف جاتا ہے تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوجاتی ہے۔ ایک ہفتے سے زائد گزرگیا، تفتیشی افسر، سی پی او،ڈی پی او یاآر پی او میں سے کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ پروفیسر خالد حمید کے قتل سے دو دن پہلے کالج کی دیواروں پر ڈپٹی کمشنر کے نام پمفلٹ کس نے چسپاں کروائے؟ کیا یہ بھی کوئی راکٹ سائنس ہے یا جنات کی کرامت؟ حیران کن انکشافات ہیں، عقل کو دنگ کرنے والے۔ آپا نور الہدیٰ، فرمائیے کیا لکھوں؟
لاہور کی اسماءعزیز جانے کن حالات میں اپنے نام نہاد خاوند کے پلے باندھی گئی اورچار برس سے ظلم کے اس اندھے کنوئیں میں گھٹ گھٹ کر مر رہی تھی۔ پولیس نہ صرف اس پر تشدد کرنے والے درندے کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے انکاری تھی بلکہ اس سے بھتہ طلب کیاجاتا رہا، اس کی تذلیل کرتے ہوئے اس کا ٹھٹھا بھی اڑایا گیا۔ کچھ لوگ اب بھی دبی زبان میں فرماتے ہیں کہ کچھ خرابی تو ہو گی اس میں۔ کچھ خدا کا نام لو بھائی۔ خرابی کس انسان میں نہیں؟ اس معاشرے کے ہر گھر کی ایک الگ کہانی ہے۔ نبھا نہیں ہورہا تو انسانوں کی طرح الگ ہو جاؤ۔ نہیں! کہانی مگر یہ نہیں۔ اس نام نہاد مرد کو غصہ اس بات کا تھا کہ اس کی باندی اس کے دوستوں کے سامنے رقص کیوں نہیں کرتی؟ اب اسماء کیا جانے کہ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔
اس سے بڑا درد کیا ہوسکتا ہے؟ ایک انسان جس نے خدا کے نام پر ایک عورت کو اپنی ذمہ داری تسلیم کیا، جس کی حفاظت اور سلامتی، کھانے پینے اور ضروریات زندگی کا ذمہ اٹھایا، جو اس کے بچوں کی ماں ہوگی، جو اس بدبخت اور اس کے بچوں کے لئے صبح شا م کھانا بناتی ہوگی۔ اسی بدبخت نے ملازموں کے سامنے اس کی عزت نفس سے کھلواڑ کیا۔ کس معاشرے میں زندہ ہیں ہم؟ آپا نور الہدیٰ، فرمائیے کیا لکھوں؟
ستائیس مارچ کو اسلام آباد کے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں اسحاق، جمیل اور اسماعیل نامی تین ملزموں کو پیش کیا گیا۔ جانتے ہیں ان پر الزام کیا ہے؟ اپنی ماں جائی سے جنسی زیادتی، جی ہاں سگی بہن سے زیادتی۔ واقعہ سن کر وہ عدالتی اہلکار بھی آبدیدہ ہو گئے جو غریب مسکین سائلوں کے چھوٹے چھوٹے کاموں کے عوض ان کی ہڈیوں سے گودہ بھی نچوڑ لیتے ہیں۔ مر کیوں نہ گئے ہم یہ خبر سننے سے پہلے؟ آپا نور الہدیٰ، فرمائیے کیا لکھوں؟
صحافت چھوڑ کر واشنگٹن ڈی سی میں بسیر ا کرنے والی بشری احمد اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ان والدین کو بددعائیں دے رہی ہیں جو بچوں کو گلی محلے کی دکان پر اکیلا بھیج دیتے ہیں۔ خدیجہ نام کی ایک بچی گھر سے پیسے لے کر محلے کی دکان سے کچھ خریدنے گئی تھی، شائد اپنے لئے کوئی ٹافی چاکلیٹ یا ہنڈیا میں ڈالنے کا نمک۔ راستے سے اغوا ہوئی اور باپ کو اس کا لاشہ ملا، معلوم ہوا معصوم بچی کو قتل سے پہلے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ آپا نور الہدیٰ، فرمائیے کیا لکھوں؟
ڈان اخبار کے مطابق ساہیوال کی گلی شیرانوالی کے ایک شیر نے اپنے بچوں کی ماں کو زنجیروں سے باندھ کر کمرے میں قید کررکھاتھا۔ اس کے شیر خوار بچے کو ان چھاتیوں سے بھی دور کر دیاگیا جہاں سے اس کے لئے زندگی کے سوتے پھوٹتے تھے۔ زندگی بخشنے والے اس سینے پر جانے کتنے گھاؤ ہیں۔ آپا نور الہدیٰ، فرمائیے کیا لکھوں؟
نصف شب بیت چکی ہے اور خبر سنانے والے بتا رہے ہیں کہ شہر قائد میں اپنے حقوق کے لئے پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے والے اساتذہ پر سندھ پولیس کے شیر جوان ٹوٹ پڑے ہیں۔ آنسو گیس سے پہلے ان کو اندھا کیا گیا اور پھر لاٹھیوں برساکران کے چہرے رنگین کئے گئے کہ جاؤ اب اپنی ماؤں بیٹیوں اور بہنوں سے اپنے زخموں پر پھاہے رکھواؤ۔ سنا ہے بلاول بھٹو زرداری ٹرین مارچ میں مصروف ہیں لیکن بختاور اور آصفہ تو کراچی میں ہی ہوں گی۔ ان کی بھی کوئی ٹویٹ سامنے نہیں آئی۔
لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے بھی کالجوں کے اساتذہ اپنے حقوق کے لئے دھرنا دئیے بیٹھے ہیں۔ سنا ہے ایک سو چھبیس دن دھرنا دینے والوں نے اساتذہ کو دھمکی دی ہے کہ خاموشی سے گھروں کو چلے جاؤ ورنہ نوکریوں سے برطرف کر دیئے جاؤ گے۔ قوم کے بچوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے والوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی زبانوں پر تالے لگا لو ورنہ روزگار چھین کر تمہاری زندگیاں اندھیر کر دی جائیں گی۔ آپا نور الہدیٰ، فرمائیے کیا لکھوں؟
سنا ہے پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے دو نہ چار پولیس کے پورے چھتیس ڈی ایس پیز معطل کئے جن کو اگلے دن عدالت عالیہ نے بحال کر دیا۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ ان پروموٹیوں کی ایک اور ترقی سر پر تھی جس کے بعد ان کو ایس پی بننا تھا اور کچھ لوگوں کو یہ گوارا نہ تھا کہ وہ ان کے ہم سر ہوں۔
وزیراعلیٰ نے لاہور کے ایک ہسپتال میں دوائیں میسر نہ ہونے پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر طاہر خلیل اور دوائیں بہم پہنچانے کے ذمہ دار افسر چیف کیمسٹ ارشاد حسین کو بھی معطل کیا ہے۔ واقف حال نے اطلاع یہ دی ہے کہ صوبے بھر کے ہسپتالوں کو دوائیں خریدنے کے لئے بروقت بجٹ ہی نہیں دیا گیا۔ پیسہ نہ ہو تو دوائیں کہاں سے آئیں گی؟ ہو سکتا ہے اسی بات کو جواز بنا کر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ بھی کل کلاں عدالت سے بحال ہوجائیں۔
اب عدالتوں کی بھی سن لیجئے۔ تین بار اس ملک کے وزیراعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف فرماتے ہیں میں تو وکیلوں کی فیسیں دے دے کر تنگ آگیا ہوں۔ مجھے وزیراعظم ہوتے ہوئے معلوم ہوتا کہ انصاف اتنا مہنگا ہے تو میں اس کے لئے کچھ کرتا۔
مریم بی بی کے بابل کو خدا صحت سے سرفراز کرے لیکن وہ یہ حقیقت جان لیں کہ اس ملک میں انصاف کا بھاؤ کیا ہے۔ کل کلاں اگر وہ خود مملکت خداداد کی وزیراعظم بنیں تو انہیں یہ تو علم ہو کہ اس ملک کے باسیوں کو اپنی تنخواہوں میں سے حصول انصاف کی مد میں بھی کچھ بجٹ مختص کرنا ہوگا۔ اور کچھ نہیں تو ان کی تنخواہیں ہی اتنی ہوں کہ حصول انصاف ان پر بار نہ ہو۔
- جیوے پنجاب، جیوے پنجابی - 24/02/2021
- بڑی ملاقاتوں کی اندرونی کہانیاں اور نامعلوم ٹانگ - 02/01/2021
- خدا حافظ ابو جی - 27/12/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).