چپلی کباب کی محبت: اسلام آباد سے طورخم کا سفر


پشاور

باب خیبر

اگر میں آپ کو یہ بتاؤں کہ چند روز قبل میں بغیر کسی حکام کی اجازت، بغیر کسی تیاری منہ اٹھا کر درہ خیبر کی جانب چل دیا اور کسی بھی قسم کی رکاوٹ اور سکیورٹی چیکنگ کے بغیر طورخم پر موجود پاک افغان بارڈر کراسنگ پر جا کر دم لیا، تو کیا آپ میری بات پر یقین کر لیں گے؟

اور اگر میں یہ بھی بتاؤں کہ پشاور سے ہوتے ہوئے خیبر ایجنسی، لنڈی کوتل اور وہ تمام علاقے جسے گذشتہ سال تک ‘علاقہ غیر’ کہا جاتا تھا، وہاں پر میں جس گاڑی میں سفر کر رہا تھا، وہ ایک لڑکی چلا رہی تھی، تو کیا آپ کو میری داستان پر یقین آئے گا؟

میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ اگر کسی اور نے مجھے ایسی بات کہی ہوتی تو میں اگر اسے سراسر جھوٹ نہ گردانتا تو کم از کم اس بات کی سچائی کے حوالے سے اپنے شکوک کا اظہار ضرورت کرتا۔

لیکن حقیقت یہی ہے کہ گذشتہ اتوار کو اپنے دو دوستوں کے ہمراہ میں نے پشاور کے باب خیبر جانے کا فیصلہ کیا لیکن قسمت نے ہماری یاوری کی اور ہم تین افراد نہایت آسانی کے ساتھ تاریخی خیبر پاس سے گزر کر پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر موجود طورخم بارڈر کراسنگ جا پہنچے اور وہاں ‘نو مینز لینڈ’ پر کھڑے ہو کر تصاویر بھی بنائیں اور چٹکیاں لے کر خود کو یقین دلاتے رہے کہ ہم نے یہ سفر واقعی میں مکمل کر لیا ہے۔

جب میرے دوست نے کچھ روز قبل مجھے پانچ ناموں پر مشتمل فہرست بھیجی اور سوال کیا کہ ہم ‘روڈ ٹرپ’ کرنے کہاں جائیں تو ہم نے مشترکہ فیصلہ کیا کہ اس بار سفر ‘خیبر پاس’ کی جانب کیا جائے۔ میں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کروں گا کہ اس نتیجے پر بغیر کسی بحث کے پہنچ جانے کی اصل وجہ ہماری چپلی کباب سے محبت تھی۔

پشاور

اتوار 24 مارچ کی صبح تقریباً نو بجے اپنے دوست منیب اور ان کی اہلیہ ردا کے ہمرا اسلام آباد سے نکل کر ہم نے موٹروے کے بجائے گرینڈ ٹرنک روڈ کا راستہ لیا اور اکوڑہ خٹک میں موجود مدرسہ حقانیہ سے ہوتے ہوئے گزرے۔

ہمارا پہلا پڑاؤ تارو جبہ کے مقام پر پیر باچہ سپیشل کباب سینٹر تھا جہاں ہم نے دوپہر کے کھانے کے لیے انتہائی مزیدار چبلی کباب نوش کیے۔

پشاور

ہم تینوں افراد گذشتہ چند سالوں میں پشاور متعدد بار جا چکے تھے لیکن آج تک ہم میں سے کسی نے دس روپے کے نوٹ پر بنے ہوئے بابِ خیبر کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا اور ارادہ تھا کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم یہی خواہش پوری کر لیں۔

عظیم یونانی فاتح سکندر اعظم کی فوجوں سے استعمال میں رہنے والے درہ خیبر کے بارے میں چرچے کس کو نہیں معلوم۔ کوہ سلیمان کے عظیم الشان پہاڑی سلسلے میں بنا ہوا یہ تاریخی پاس اور شاہراہ ریشم کا اہم ترین جزو، ہزاروں سال سے عام عوام، تاجران اور فوجی لشکروں کے استعمال میں رہا ہے۔

پشاور

پشاور سے درہ خیبر تک جانے کے لیے داخلی راستہ

پاکستان کے قیام کے بعد فوجی آمر ایوب خان کے دور میں ماضی میں خیبر ایجنسی کہلائے جانے والے علاقے کا دورہ کرنے پر پشاور ڈویژن کے کمشنر جی اے مدنی نے مقامی انتظامیہ کو جمرود قلعے کے ساتھ ایک ‘باب’ بنانے کا مشورہ دیا اور وہ منصوبہ چار ماہ میں مکمل ہونے کے بعد باب خیبر کی شکل میں سامنے آیا۔

پشاور

باب خیبر کا افتتاح 1963 میں ہوا تھا

مگر جب اسلام آباد سے تقریباً دو سو کلومیٹر کا سفر طے کر کے ہم باب خیبر پہنچے تو میرے چہرے پر مایوسی عیاں تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ میں خود سے سوال کروں کہ میں نے اپنی اتوار کی نیند کس لیے قربان کی؟

شکر ہے کہ دن بہت خوبصورت تھا اور آسمان پر ہلکے ہلکے بادل روئی کے گالوں کی طرح بکھرے ہوئے تھے تو ہم نے سوچا کہ اب وہاں پہنچ ہی گئے ہیں کچھ تصاویر بنا لیں۔

پشاور

پاکستانی دس روپے کے نوٹ پر بھی خیبر پاس کی تصویر ہے

اس کے بعد اُدھر موجود لیویز حکام سے معلوم کیا کہ آیا ہمیں باب خیبر کے ساتھ موجود 19ویں صدی میں تعمیر کیے گئے جمرود قلعہ کو دیکھنے کی اجازت ہوگی یا نہیں۔ ایک اہلکار ہمیں قلعے تک لے گیا لیکن ساتھ میں کہا کہ وہاں تعینات فوجی سے خود بات کر لیں اور آگے کیا ہوگا، اس کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔

اس اہلکار نے چند سوالات کیے کہ یہاں آنے کی وجہ کیا ہے، کسی سے پہلے سے بات کی ہے یا کسی کو جانتے ہو یا کسی نے بلایا ہے۔

پشاور

باب خیبر کے ساتھ ایک ’ہسٹری وال‘ بھی تعمیر کی گئی ہے

شاید اتوار کا روز تھا اور وہاں موجود فوجی اہلکار کا موڈ اچھا تھا، یا بس ہماری قسمت اچھی تھی۔ ہر جواب نفی میں ملنے کے باوجود اس نے فون پر کسی سے بات کی اور دس منٹ بعد ہماری گاڑی کے لیے قلعے کے دروازے کھول دیے!

جمرود قلعے میں موجود فوجی حوالدار نے ہمارا استقبال کیا اور اگلے پون گھنٹے ہمیں پورے قلعے کا دورہ کرایا اور وہاں کی تاریخ سے روشناس کیا۔ ہم نے وہ کمرہ بھی دیکھا جہاں سکھ جنرل سردار ہری سنگھ نالوا کی وفات ہوئی تھی۔

پشاور

جمرود قلعے کے چھت سے درہ خیبر کا منظر

اس کے بعد قلعے کی چھت پر بھی گئے جہاں جنوب کی طرف پشاور شہر کا پورا منظر نظر آتا ہے جبکہ شمال کی جانب سے خیبر ایجنسی اور خیبر پاس تک جانے والی، بل کھاتی سڑک نظر آتی ہے۔

قلعے کے دورے کے بعد ہم نے حوالدار سے معلوم کیا کہ ہم اس سڑک پر کتنا آگے تک جا سکتے ہیں۔ جواب میں انھوں نے بتایا کہ ویسے تو یہ سڑک کابل تک جاتی ہے، لیکن آپ لوگ طورخم بارڈر کراسنگ تک جا سکتے ہیں۔

‘حالات اب بہت بہتر ہیں اور سڑک بھی ٹھیک ہے۔ آگے راستے میں ایک، دو چیک پوسٹ آئیں گی۔ اگر آپ کو وہاں نہ روکا گیا، تو بغیر کسی دقّت آپ کراسنگ تک جا سکتے ہیں۔’

پشاور

اس تصویر میں انگریزوں کے زمانے سے قائم ٹرین پٹڑیوں کے لیے تعمیر کی گئی سرنگیں نظر آتی ہیں

یہ سنتے ہیں آناً فاناً ہم نے ان سے اجازت لی اور اپنی گاڑی کی طرف لپکے کہ ایسا موقع روز روز نہیں ملتا اور اگر قسمت ہم پر دروازے کھول ہی رہی تو اس کا فائدہ نہ اٹھانا بہت ہی بدقسمتی کی بات ہوگی۔

جمرود قلعے سے اگلے تقریباً اگلے ایک گھنٹے کی طوالت پر مبنی اس سفر میں ہم نے تقریباً 40 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔

خیبر کی سنگلاخ پہاڑیوں اور چٹانوں کے بیچ سے ہوتی ہوئی بل کھاتی ہوئی سڑک پر ہم نے مختلف مقامات پر چھوٹے چھوٹے قلعے دیکھے۔ کئی جگہ پر ہم نے انگریزوں کے وقت سے تعمیر کی گئی ہوئی ٹرینوں کی سرنگیں دیکھیں جو بعد میں خیبر سفاری کے نام سے چلنے والی ٹرین کے زیر انتظام رہی تھیں۔

حالیہ دنوں میں چند خبروں کے مطابق اب حکومت شاید ایک بار پھر اس سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے والی ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ نہایت ہی شاندار فیصلہ ہوگا۔

پشاور

راستے میں ایک سٹوپا بھی نظر آیا

جیسا کہ ہمیں فوجی حوالدار نے بتایا تھا، ہم تینوں بلا خوف و خطر اور بغیر کسی رکاوٹ اس سڑک پر چلتے رہے اور گاڑی اس وقت روکی جب طورخم پر کسٹمز اور امیگریشن حکام کے دفاتر کی حدود کا آغاز ہو گیا۔

وہاں سے ہمیں یہ نظر تو آ رہا تھا کہ افغانستان کی طرف جانے والا راستہ کونسا ہے لیکن یہ علم نہیں تھا کہ ہم اب اور آگے کتنا جا سکتے ہیں۔ ہم گاڑی میں آپس میں گفتگو کر ہی رہے کہ آگے کیا کرنا تو لیویز کا ایک اہلکار ہمارے پاس پہنچا۔

ایک بار پھر ہم نے اپنا تعارف کرایا اور وہی بولا جو جمرود قلعے پر کہا تھا۔ اور ایک بار پھر قسمت نے ہمارا ساتھ دیا اور اس بار بھی لیویز کے اہلکار نے ہمیں ایک راستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہاں چلے جاؤ اور وہاں بنے پُل سے افغانستان نظر آتا ہے۔

میں یہ لکھنے سے قاصر ہوں کہ ہم تینوں کس قدر حیران و پریشان تھے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے، اور اسلام آباد میں رہائش پذیر ہم تینوں نے اپنے خواب و گمان میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ہمیں اس طرح، اتنی آسانی سے طورخم بارڈر دیکھنے کا موقع ملے گا۔

ایک ایسا علاقہ جو کئی دہائیوں سے جنگ کا میدان بنا ہوا ہے، جہاں موجود ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازع کی بڑی وجہ بنا ہوا ہے، جس علاقے کو محض ‘قبائلی علاقے’ اور ‘علاقہ غیر’ کہا جاتا ہے، اور ملک کے شہری علاقوں میں اس خطے کے بارے میں ایک مخصوص سوچ رکھی جاتی ہے جو شاید ہم میں بھی تھی۔

ہم توقع نہیں کر سکتے تھے کہ محض چار، پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد ہم خود وہاں اتنے سکون سے موجود تھے جیسے ہم طورخم نہیں، واہگہ بارڈر پر موجود ہیں۔

کسٹمز اور امیگریشن سے گزر کر مسافر ایک باڑ لگے ہوئے راستے سے افغانستان کی طرف جاتے ہیں جبکہ ہم اسی راستے کے اوپر بنے برج پر کھڑے تھے جہاں سے ان مسافروں کو جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور سامنے افغانستان کی سرحد نظر آتی ہے اور دائیں اور بائیں دونوں جانب پہاڑ پر لگی باڑیں واضح نظر آتی ہیں جو ڈیورنڈ لائن کی یاد دلاتی ہیں۔

پشاور

پشاور کے کارخانو مارکیٹ کی دکانوں میں ہر نوعیت کا سامان ملتا ہے

وہاں پر کچھ وقت گزارنے اور چند تصاویر لینے کے بعد ہم نے واپسی کا راستہ اختیار کیا اور پورا سفر ہماری گفتگو اسی حوالے سے تھی کہ ہم کیا سوچ کر، کیا توقع کر کے آئے تھے اور ہمیں کیا مل گیا۔

پشاور

واپسی میں ہم نے پہلے کچھ دیر وقت پشاور کے مشہور کارخانو مارکیٹ میں صرف کیا اور ظاہر ہے، اگر اتنا طویل سفر کر کے بندہ پشاور جائے اور جلیل کے چپلی کباب نہ کھائے تو سفر ہی کیوں کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp