ہندو لڑکیاں، ہری لال کے اچھوت جوتے اور کرشن چندر کی کھڑکی


سندھ کے ضلع گھوٹکی کی تحصیل دہڑکی کی دو ہندو بہنیں رینا اور روینا کے مذہب تبدیلی کے معاملے پر ہر ذی شعور سراپا احتجاج نظر آ رہا ہے کہ کیسے کم عمر لڑکیاں مذہب تبدیل کر کے شادی کر سکتی ہیں اور کیوں اس معاملے کو مذہبی رنگ دے کر بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ سندھ سمیت ملک بھر میں شادی اور مذہب تبدیلی کے واقعات ہوتے رہے ہیں اور ان واقعات پر احتجاج، انصاف کی اپیلوں کے بعدیہ معاملے ایک دم خاموشی اختیار کر جاتے ہیں۔ اکثر یہ مذہب تبدیلی والی شادیاں ناکام نظر آئی ہیں کہیں پر ان کے پکے سچے مسلمان ہونے پر شک کیا جاتا ہے تو کہیں ان کے بیٹوں کو رشتہ دینے سے انکار کیا جاتا ہے کہ وہ ایک ہندو کا بیٹا ہے۔

ایک طرف رینا اور روینا ایک ویڈیو بیان میں کہہ چکی ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کر کے شادی کے رشتے میں بندھ چکی ہیں دوسری طرف ان اس معاملے کو جبری مذہب کی تبدیلی اور اغوا کا نام دیا جا رہا ہے۔

رینا اور روینا جیسی درجنوں کم عمر ہندو لڑکیوں کی مذہب تبدیلی کے واقعات رو پزیر ہو چکے ہیں مگر اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح سے لے کر مذہبی سطح پر بھی کوئی گفت و شنید یا قانونی سازی کرنے میں ناکامی نظر آئی ہے۔ اکثر ہمارے معاشرے میں کم عمری کی شادی یا کم عمری میں کیے ہوئے فیصلے نہیں مانے جاتے مگر دوسری طرف ہندو لڑکیوں کی کم عمری میں مذہب تبدیلی اور شادی کو مذہبی حلقے سمیت عدالتی فیصلوں کا تحفظ فراہم کیا جاتا رہا ہے۔

ملک کی اقلیتیں کم عمری میں مذہب تبدیلی اور شادی کو جبر کا نام دیتے ہیں کہ ان لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر اغوا کیا جاتا ہے اور بعد میں ان کو ڈرا دھمکا کے مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی حلقے اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر قانونی سازی سمیت اس طرح کے واقعات پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ جب مسلمان اپنے بچوں کی کم عمری کی شادی اور مذہب تبدیلی کے معاملے کو کبھی قبول نہیں کر سکتے ہیں تو پھر کیوں ہم اقلیتوں پر کم عمری کے فیصلے لاگو کرنے کو حق سمجھتے ہیں۔

اگر رینا اور روینا اسلام سے متاثر ہوکر مذہب تبدیل کر کے شادی کر رہی ہیں تو پھر ان مسلمان لڑکوں کا تو دور دور تک دین کے  مطابق زندگی گزارنے سے لینا دینا ہی نہیں۔ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ ہندو لڑکیوں کے مذہب تبدیل کرنے کے لیے کیا ان سے شادی کرنا ہی ضروری ہے کیوں ابھی تک مذہب تبدیلی کے بعد کسی نے ہندؤ لڑکی کو بہن یا بیٹی بنانے کی مثالیں قائم نہیں کیں؟

مسلمانوں میں اگر کوئی لڑکی بھاگ جائے تو اسے غیرت کا نام دے کر قتل کیا جاتا ہے یا پھر اس کے گھر والوں کو بے غیرتی کا طعنہ دے کر جیتے جی ہی مار ڈالا جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح ہندوؤں کے ساتھ بھی ہوتا ہوگا ہم کیوں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کیا مذہب تبدیل کروانے والے پیر صاحبان اپنے بچیوں کی کم عمری کے فیصلوں کو بھی رینا اور روینا کی طرح ہی دیکھیں گے یا ان کو زندہ ہی زمین میں گاڑ دیا جائے گا تاکہ لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنایا جا سکے۔

رینا اور روینا کے باپ ہری لال کے آگے آگ ہے تو پیچھے پانی۔ اگر وہ مسلمانوں کی اس مذہبی آگ سے بچ جائے تو ہندوؤں کی گنگا میں ڈبکی لگا کر ڈوب جائے گا کیوں کہ ہری کو پتہ ہے کہ یہ معاشرہ اس کی سات پیڑھیوں سے بھی رشتہ کرنے سے کتراتا رہے گا کیوں کہ وہ رینا اور روینا کا خاندان ہے اور رینا اور روینا جنت میں رہ کر بھی دوزخ کی آگ میں جلتی رہیں گی کیوں کہ وہ ایک ہندو کی بیٹیاں ہیں اور ماضی کبھی بھی کسی کا پیچھا نہیں چھوڑتا کہاوت ہے ( بھری بیڑی میں واں یوں گورو) اگر کشتی میں وزن زیادہ ہو جائے تو پھینکا ہندو کو ہی جاتا ہے۔

ہری لال انصاف کی لیے اپنے آپ کو تھانے میں جلانے کی کوشش کر رہا تھا کہ شاید اس کی اس بے بسی پر کسی کو رحم آ جائے مگر اس بے حس معاشرے میں تو تماشا دیکھنے والوں کی کمی نہیں ہے ہری لال انصاف کے حصول کے لیے اقلیتی ممبران پارلیمنٹ پر تکیہ کیے بے بس ننگے پاؤں بیٹھ تو گیا مگر اس خوف کے ساتھ کہ کہیں سینیٹر کرشنا کماری کولھی کے کمرے کی ٹائلیں اس کے گندے جوتوں سے میلی نہ ہو جائیں۔

اس معاشرے میں کسی کے گھر سے جب کوئی لڑکی بھاگ جاتی ہے تو اس کی مثال کرشن چندر کے مانند ہو جاتی ہے کہ کرشن چندر اپنے گھر کی کھڑکی کو کبھی بھی بند کرنے نہیں دیتا تھا کہ اس کو وہاں سے راحت ملتی ہے مگر جب اس کی بیٹی گھر سے بھاگ گئی تو کرشن چندر نے یہ کہہ کر کھڑی بند کر دی تھی کہ اس کو اب ایسا لگتا ہے کہ اس کھڑی سے راحت کے بجائے زمانے کی تھو تھو کی آوازیں آ رہی ہیں۔ لحاظہ ہمیں رینا اور روینا کے معاملے کو مذہبی رنگ دینے کے بجائے اپنے گھر کا معاملہ سمجھنا چاہیے اور قانون سازی سمیت بین المذاہب بات چیت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے معاملات کو ہونے سے روکا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).