سائبر کرائم بل اور لبرل نقطہ نظر


\"zeeshanسائبر کرائم بل کی حمایت میں کچھ دلائل سامنے آئے ہیں۔ ان دلائل میں جو جواز دیا گیا ہے وہ شخصی تحفظ کا ہے کہ یہ قانون دراصل تحفظ فراہم کرے گا ان تمام مسائل سے جس کا ایک عام فرد سامنا کرتا ہے۔ یہاں بہت سارے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں جیسا کہ کیا فرد نے اپنی آن لائن سرگرمیوں میں ریاست سے تحفظ مانگا ہے؟ کیا فیس بک، ٹویٹر، اور دوسرے سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے سیکورٹی اور پرائیویسی کے لئے جو اقدامات کئے ہیں کیا وہ نامکمل ہیں؟ جہاں تک قانون کا معاملہ ہے اس سے متعلق چند گزارشات ہیں جو سائبر کرائم بل اور قانون کی بحث میں ہماری مددگار ہو سکتی ہیں۔

کوئی بھی چیز ایک ریاست میں قانون کا درجہ پا کر متبرک نہیں ہو جاتی۔ سوال زندہ رہتا ہے کہ کیا واقعی اس قانون میں شہریوں کی فلاح ہے؟ ان کے حقوق کا تحفظ ہے؟ ان کی آزادی، آزادی و مواقع میں مساوات، اور انصاف محفوظ ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہیں جو قانون کو ایک مستحکم جواز مہیا کرتے ہیں۔ ورنہ تو قانون بادشاہ بھی بناتے تھے اور آج بھی مطلق العنان ریاستیں بناتی ہیں۔ قانون تو فاشسٹ ریاستوں جیسے اٹلی و جرمنی نے بھی بنائے تھے- قانون تو داعش کا بھی ہے۔ کوئی بھی ریاستی ارادہ و منصوبہ اگر قانون کے بھیس میں سامنے آتا ہے تو شہریوں کو حق پہنچتا ہے کہ اس پر سوال اٹھائیں اور اس بات کا تجزیہ بھی کریں کہ آیا قانون واقعی ان کی فلاح کے لئے ہے یا ان کو مجبور و پابند کرنے کے لئے تاکہ ریاست ان پر حاوی ہو سکے-

شہریوں کی نجی زندگی کے تنازعات میں قانون کا دائرہ کار اس وقت شروع ہوتا ہے جب دو فریق یا ان میں سے ایک فریق خود قانون کے حضور مدعی بنیں یا انسانی حقوق کے معاملات میں ریاست خود مدعی بنے۔ اس کے بعد عدالتی کارروائی کا ایک طریقہ کار ہے جس میں فری ٹرائل کا حق ہر فرد کے لئے محفوظ ہے جس کا درجہ بنیادی انسانی حقوق کا ہے اور کوئی بھی ریاست یا پارلیمان فری ٹرائل کے حق کو منسوخ نہیں کر سکتی۔ قانون اپنے کردار کو خود قیاس کر کے شخصی آزادیوں کے تنازعات میں فریق نہیں بن سکتا۔ مثال کے طور پر گھریلو تشدد ایک سنگین جرم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تحفظ کے نام پر ریاست ایسی قانون سازی کر سکتی ہے کہ ہر گھر میں ایک بیوروکریٹ یا سیکورٹی آفیسر بٹھا دیا جائے جو گھر کے تمام افراد کی سرگرمیوں کی نگرانی کرے اور ان کا تحفظ یقینی بنائے؟

اسی طرح فری ایسوسی ایشن بھی ایک بنیادی انسانی حق ہے اس سے ریاست یا پارلیمان شہریوں کو محروم نہیں کر سکتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریاست یہ قانون سازی کر سکتی ہے کہ جہاں بھی دو یا دو سے زیادہ افراد اکٹھے ہوں وہاں ایک بیوروکریٹ یا سیکورٹی آفیسر ضروری ہے\"aacchhkk\" جو ان کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ جھگڑوں کا خطرہ ہوتا ہے؟ جب جواب ناں میں ہے تو یہی اصول انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ آخر ہماری نجی محفلوں (جو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ہماری فری ایسوسی ایشنز سے وجود میں آتی ہیں) میں بیوروکریسی کا کیا کام ہے؟ جب ہم میں سے کوئی فرد اس میڈیا سے منفی طور پر متاثر ہو گا تو اول اس ایسی ایشن سے باہر ہو جائے گا یا خود ہی قانون سے رجوع کر لے گا نہ کہ قانون خود کو محافظ قیاس کر کے ہماری نگرانی کرے۔ قانون نجی زندگی اور سماجی تعلقات کے تحفظ کا نام ہے نہ کہ اس پر قبضہ کا نام ہے۔

قانون جاسوسی نہیں کر سکتا۔ جاسوسی بذات خود ظلم و فساد کی ایک صورت ہے۔

قانون بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا نام ہے، جن میں آزادی اظہار رائے، حق اجتماع، نجی زندگی کی پرائیویسی (خلوت) کا حق، فری ٹرائل (منصفانہ سماعت) کا حق، اور سماجی زندگی میں فری ایسوسی ایشن کا حق نہایت اہم ہیں۔ سائبر کرائم بل کسی بھی صورت میں ان حقوق کو معطل نہیں کر سکتا چاہے دونوں ایوان متفقہ طور پر یہ بل پاس کر لیں کیونکہ بنیادی انسانی حقوق دونوں پارلیمان پر بھی سپریم ہیں (خود پارلیمان سیاسی آزادی کے جس جواز پر قائم ہوتی ہیں وہ جواز یہی بنیادی انسانی حقوق ہی مہیا کرتے ہیں جیسے گورنمنٹ کے انتخاب کا حق)۔ خفیہ نگرانی کی ثقافت میں آزادی اظہار رائے، حق اجتماع، نجی زندگی کی پرائیویسی کا حق، فری ٹرائل کا حق، اور سماجی زندگی میں فری ایسوسی ایشن کا حق نہیں پنپ سکتے۔

حب الوطنی، قومی مفاد اور خلاف اسلام و اخلاقیات مواد یہ غیر متعین اصطلاحات ہیں۔ عموما ان کے معانی میں ریاست اور شہریوں کے درمیان اختلاف آتا ہے۔ شہری جسے حب الوطنی اور قومی مفاد سمجھتے ہوں ممکن ہے ریاست اسے غداری سمجھے۔ یہ معاملہ ہم نے قوم پرست سندھی بلوچ پختوں اور سرائیکی تحریکوں میں دیکھا ہے کہ ریاست جسے غداری سمجھتی ہے اسے یہ تحریکیں حقوق کی جدوجہد قرار دیتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں قانون کا ہتھوڑا شہریوں کے سر پر ہی برسا ہے جب کہ ریاست کی تشدد پسندی نے ان غیر متعین اصطلاحات کو ہی جواز کے طور پر استعمال کیا ہے۔ پچیس جولائی کو دی نیوز نے بلوچستان سے متعلق رپورٹ کیا کہ گزشتہ چھ سال میں ایک ہزار سے زائد مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں، اس سب کچھ کے لئے ہیئت مقتدرہ نے قومی مفاد کے مفروضہ مقاصد کو آڑ بنایا ہے۔ واحد بلوچ کو اس کا شناختی کارڈ دیکھ کر پوری بس سے اتار لیا جاتا ہے اور قومی مفاد کی مفروضہ تشریح کے پاسبان نامعلوم افراد اسے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیتے ہیں۔ یہاں قومی مفاد کے مفروضہ تصور نے تشدد اور ریاستی آمریت کی کاسہ لیسی کی ہے۔

قانون پر عملدرآمد عدالتی طریقہ کار یعنی فری ٹرائل کے بعد ہوتا ہے۔ یہ عمل انتہائی قابل مذمت ہے کہ ریاستی اختیارات سے لیس بیوروکریٹ خود کو مفتی و جج سمجھ کر کسی مواد کو اسلام، پاکستان کے دفاع، سیکورٹی، خود مختاری، حب الوطنی، عدالتی نظام، اخلاقیات اور سیاسی نظام کے خلاف سمجھ کر بلاک کر دیں اور پھر آپ سے کہیں کہ آئیں عدالت میں رٹ کریں، وکیل کی خدمات حاصل کریں، اور ثابت کریں کہ آپ نے جو لکھا وہ \” اسلام، دفاع، سیکورٹی، خود مختاری، حب الوطنی، عدالتی نظام، اخلاقیات اور سیاسی نظام\” کے خلاف نہیں۔ یہ تو بادشاہت سے بھی بدتر صورتحال ہوئی۔

قانون کی آڑ میں ریاستی و نظریاتی آمریت کو جواز نہیں مہیا کیا جا سکتا۔ ریاست، قانون، اور اداروں کا اپنا اپنا مقام اور دائرہ کار ہے۔ یہ فرد اور سوسائٹی کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں نہ کہ انہیں دباتے اور ان پر جبر مسلط کرنے کا نام ہے۔ قانون ایک مخصوص طریقہ کار کا پابند ہے۔ قانون ریاستی آمریت کی کاسہ لیسی کا نام نہیں۔ قانون شہریت کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے نہ کہ ریاست کے مفادات کا۔ سائبر کرائم بل بذات خود انسانی حقوق پر مبنی قانون کی روح سے انحراف کرتا ہے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments