مجھے جانتے نہیں؟


ایک پرانا قصہ لاہور میں بزرگوں سے سنا، بظاہر کوئی خاص نہیں لیکن جب بھی کسی کوسناتے محظوظ ہوئے بغیرنہ رہتا۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے، ہمارے ایک جاننے والی انٹیلی جنس پولیس میں تھے، جسے آج کے دورمیں خفیہ والے کہاجاتا ہے، وہ ململ کاکرتہ اور تہبند پہنے اندرون شہرکی گلیوں میں گشت کررہے تھے، وہاں کچھ رش تھا، ایک دوسے ٹاکراہوا، کسی کاکندھا لگاتو غصے سے بولے تم مجھے جانتے نہیں، کیسے مجھ سے ٹکرائے، اس نے حیرت سے دیکھا، پہلے پریشان ہوا، پھر پوچھ لیا، جناب مجھے نہیں معلوم آپ کون ہیں، جواب میں موصوف نے کرتہ اٹھایا، تہبند میں ڈیوٹی پسٹل لگارکھاتھا، بولے ایہہ ویکھ تیری مامی لگی اے (جانتے نہیں یہ کیاہے ) ۔ اب وہ شخص پھر بھی نہ جان سکا، اسے اتنا ہی گمان ہوا کہ کوئی بدمعاش ہوگاجو دھمکی دے گیا۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ آج کی بات نہیں، اختیار، اتھارٹی، کرسی، وردی، اور نہ جانے بغیروجہ کارعب ودبدبہ جیسے مزاج کاحصہ بن چکا ہے، ہم نے کبھی دوسروں کا کھلے دل سے تسلیم کیا اور نہ ہی عزت وتکریم سے نوازا۔ اتنا ضرور ہے جب ذرابھر بھی اختیار ملا، اس کا بھرپوراندازسے اظہارکرڈالا۔

ایسا ہی واقعہ ایک گارڈ کے ساتھ ہوا، گیٹ پر کھڑاتھا، لوگ گزر رہے تھے، اس کے ذمے سب کی چیکنگ تھا، وہ کچھ نہیں کرپارہاتھا، ایک سادہ لوح نے پوچھ لیا، جناب کیامیں اندرجاسکتاہوں،

گارڈ نے جواب میں کہا، جی نہیں، اس شخص نے استفسارکیا، باقی سب تو جارہے ہیں، میرے ساتھ ایسا کیوں؟

گارڈ برجستہ بولا، انہوں نے مجھ سے اجازت نہیں لی۔
بس اتنی سی بات ہے۔ ہمیں ذمے داری ملتی ہے اور پھر ہم اس کے ساتھ کیسے انصاف کرتے ہیں۔

ایسا ہی ایک تاریخی واقعہ پاکستان کے ابتدائی دور میں ایک صدر بنے انہوں نے پوچھا میرے اختیارات کیاہیں، جب انہیں بتایاگیا کہ آپ اسمبلی بھی توڑسکتے ہیں، انہوں نے کہاپھر میں اسمبلی توڑتاہوں۔

کوئی صدر، وزیراعظم ہو، کمشنر ڈی سی ہو، آئی جی، کانسٹیبل ہو، سیکرٹری یا کلرک ہو، اس نے اپنا فرض کیسے نبھاناہے۔ اس کا زیادہ کبھی خیال نہیں رکھاگیا۔ توجہ اس بات پر رکھی گئی، جو بھی اختیار ملا اسے کیسے بڑھ کراستعمال کیاجائے۔

ملک میں قانون بنے قواعد طے پائے مگر ان پر عمل کہیں کہیں ہوا، اور ماننے والے بھی وہ رہے جنہیں مجبور، محکوم، مظلوم کاٹائٹل ملا، باقی سب قانون سے بالاتر ہونے کے چکر میں رہے۔

اب ہوا یہ کہ با اختیار کو دیکھتے ہوئے بے اختیار کابھی دل کرآیاکہ وہ کچھ ایسا ہی کرے۔ نتیجے میں طاقتور کے ساتھ کمزور نے بھی اپنے پردکھائے اور قانون سے گریز کی روش اختیارکرلی۔ اگر موقع ملاتو گدھاگاڑی والے نے بھی اپنا غصہ گدھے پر نکال دیا۔ اب جس پر بس چلا، اسی پر چلادیا۔ اڑی کرنے پر کہہ دیاتم مجھے جانتے نہیں۔ میں بڑابُراپیش آتاہوں۔

ہم میں سے بہت کم نے ایسا کہا جی میں غلطی پر ہوں، مجھ سے غلطی سرزد ہوئی، میں معذرت چاہتاہوں۔ میں آئندہ کوشش کروں گا ایسی غلطی نہ ہو۔ ہم نے طے کرلیاہوتاہے دوسراغلطی پرہے، ہم درست راستے پرہیں۔

جس سے بھی بات کرلیں وہ اصولی باتیں کرتا دوسرے کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتا ملے گا۔ کبھی ایسی گفتگوسننے میں نہیں آئی ہوگی اور نہ ہم نے کی ہوگی، جس میں خامیوں، کوتاہیوں، غلطیوں کے اعتراف کیے ہوں، یہ انسانی نفسیات کابھی المیہ ہے۔ انسان نے دوسرے انسان کے ساتھ مل کر زندہ رہنا ہے، اس میں کچھ قواعد وضوابط ازل سے طے شدہ ہیں۔ اگر انہیں فراموش کردیں تو مشکل بڑھ جاتی ہے۔ معاملات پیچیدگی کی جانب بڑھ جاتے ہیں۔

معاملہ کراچی کے سابق ایڈمنسٹریٹر فہیم زمان کا نہیں، یہ معمولی واقعہ ہے، ایسا آئے روز ہوتا ہے، یہ ایک سوچ ہے، اوپر سے نیچے تک ہمارے مزاج میں شامل ہے۔ غصے کی نوعیت دوسرے کی سماجی وسرکاری حیثیت کے مطابق ہوتی ہے۔ فہیم زمان کابھی معاملہ ایسا ہی تھا۔ میڈیا میں بات آنے اورکہہ لیں بات بگڑ جانے پرانہیں احساس ہوگیا، اور معذرت کرلی۔ یہ اچھا عمل تھا۔ لیکن معذرت بھی حالات کنٹرول سے نکلنے پر کیوں کی جاتی ہے، محض غلطی کا احساس ہونے پر کیوں نہیں؟

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar