مطالعہ کی اہمیت اور کتاب دوستی


ایک لکھاری کے لیے کتابیں آکسیجن کا کام کرتی ہیں اور میں بھی اکثر وبیشترکتابوں کا بغور مطالعہ نہ سہی, البتہ ورق گردانی ضرورکرتا رہتا ہوں۔ جب بھی کوئی مجھے کتاب دیتا ہے تومیں اس کتاب کو پڑھنے کے ساتھ کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ میری نظر میں اس کے دو بنیادی مقصد ہیں‘ ایک تو اس سے مصنف کی حوصلہ افزائی ہوجاتی ہے اوردوسرا کتاب میں موجود کمی کوتاہی یا املا کی غلطیوں کی نشاندہی ہوجاتی ہے جو مسقبل میں مصنف کے کام آتی ہے۔

میری اسی عادت کی وجہ سے گزشتہ دس سالوں میں مجھے بہت سے نئے لکھنے والے نوعمر لکھاریوں کی بیسیوں کتابیں پڑھنے اور ان پر تبصرہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ نوجوان یقینی طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت فضول کاموں اور لہوولعب میں ضائع کرنے کے بجائے ایک مثبت کام میں لگایا ہے۔ ایسی ہی ایک نوعمر لکھاری قرۃ العین خالد ہیں۔

آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے ایک پروگرام میں محترمہ قرۃ العین خالد سے میری پہلی ملاقات ہوئی جہاں ان کی پراعتماد لہجے میں گفتگو نے مجھے یہ باور کرایا کہ وہ شعبہ صحافت اور خاص کر الیکٹرانک میڈیا میں بہت آگے جائیں گی۔ حیرانی اس وقت ہوئی جب مجھے ان کی شاعری ، آرٹیکل اور کالم پڑھنے کا موقع ملا اور مجھے پتا چلا کہ یہ اچھا بولنے کے ساتھ ساتھ بہت اچھا لکھتی بھی ہیں۔ ان کے شعری کلام کی بات کریں تو وہ زیادہ تر‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تقریباً سارا ہی رومانویت اور عشق کے جذبات سے لبریز ہے ، جبکہ ان کے کالم زیادہ تر معاشرتی موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل قرۃ العین نے اپنی کتاب ”تیرے عشق میں“ کا ڈرافٹ اس استدعا کے ساتھ مجھے ارسال کیاکہ میں اس پر کچھ تبصرہ لکھوں۔ چنانچہ محترمہ کی خواہش پر راقم الحروف نے کتاب اور صاحب کتاب کے حوالے سے چند جملے لکھے جنہیں نظرثانی کے بعد نذر قارئین کر رہا ہوں :

قرۃ العین خالد بے شمار خداداد صلاحیتوں کے ساتھ ایک اچھے اخلاق کی مالک بھی ہیں۔ ان کے ساتھ رہنے والے بتاتے ہیں کہ قرۃالعین کی سب سے اچھی خوبی ہے کہ وہ انتہائی ذمہ دار اور دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے والی ہے اور اس کی یہ خوبی اسے بہت آگے لے کر جا سکتی ہے۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نہایت خیال رکھنے والی ہیں اورایسے لوگ آج کے زمانے میں بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں جن کو دوسروں کے دکھ درد اور تکلیف اپنی تکلیف جیسے لگتی ہو۔

ان ذاتی اوصاف کے ساتھ قرۃ العین کا شمار ان باصلاحیت نوجوانوں میں ہوتا ہے جن میں کچھ نہ کچھ ”ایکسٹرا“ کرنے کا جذبہ ہر وقت موجزن رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے تعلیمی کیریئر میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی انہوں نے خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تقریری مقابلوں میں اپنی آواز کا جادو جگاتے ہوئے کئی تعریفی اسنادحاصل کیں، کالج پروگرام میں اداکاری کے جوہر دکھا کر اپنے کلاس فیلوز کو حیرانی میں مبتلا کر دیا اور پھر مختلف کھیلوں میں بھی انہوں نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے۔

بچپن سے ہی قلم کے ساتھ ان کی پکی دوستی ہوگئی۔ ڈائری سے انہوں نے لکھنے کا آغاز کیا اور پھر اپنے ذوق کے مطابق شاعری کی طرف مائل ہوگئیں اور ان کا شعری مجموعہ ”تیرے عشق میں“ آج میرے سامنے ہے۔ ان کی شاعری کتاب کے عنوان کی طرح عشق ومحبت سے لبریز ہے اور ان کے اشعار جذبات اور احساسات کا ایسا مجموعہ ہیں جو اپنے پڑھنے والوں کو سحر زدہ کردیتا ہے۔ ان کے اشعار میں ایک خوبی میں نے یہ محسوس کی کہ پڑھنے والا نہ تو بوریت محسوس کرتا ہے اور نہ ہی اکتاتا ہے۔

ان کی شاعری خوبصورت اور نیک جذبوں سے پھر پور ہے اور یہ وہ جذبے ہیں جن سے کوئی بھی ذی روح ناواقف نہیں۔ گویا ان کی کتاب ”تیرے عشق میں“ پڑھے جانے کے ساتھ ساتھ سراہنے جانے کے قابل ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ شعری ذوق اور ادب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک خوبصورت اضافہ ہے! البتہ کتاب میں موجود بعض اشعار نظرثانی کے متقاضی ہیں کیونکہ ان میں اوزان برابر معلوم نہیں ہوتے۔ امید ہے کہ کتاب کے اگلے ایڈیشن میں وہ اشعار صحیح کر کے شامل کیے جائیں گے۔

شاعری کے ساتھ قرۃالعین نے ناول، آرٹیکل اور کالم لکھنے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ ”ماں کی ممتا“ پر لکھے گئے ان کے آرٹیکل نے تو کئی پڑھنے والوں کی آنکھوں کو نم کردیا۔ زیرنظر کتاب میں ان کے ناول کے چند صفحات‘ کالم اور آرٹیکل بطورِ نمونہ دیے گئے ہیں اور ان شاء اللہ جلد ان کا مکمل ناول آپ کے ہاتھ میں ہوگا۔ قرۃ العین تسلسل سے معاشرتی مسائل کو اُجاگر کرنے کے لیے کالم لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں جو اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ وہ بہت درد دل رکھنے والی ہیں اور لوگوں کو تکالیف کو اپنی تکلیف شمارکرتے ہوئے اس کے مداوے کے لیے اپنے تئیں ضرور کوشش کرتی ہیں۔

شاعری اور نثر نگاری پر ہی انہوں نے فل سٹاپ نہیں لگایا بلکہ ”عشق کے امتحاں اور بھی ہیں“ کے مصداق اب قرۃ العین الیکٹرانک میڈیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے ٹی وی پروجیکٹ کا نہ صرف حصہ ہیں بلکہ وہاں ہونے والے ٹاک شوز میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لے رہی ہیں اور عنقریب ایک بڑے میڈیا ہاؤس کو بھی جوائن کررہی ہیں۔

الغرض ، تقریری مقابلوں‘ اداکاری ، شاعری‘ نثر نگاری ، ٹاک شوز اور پروڈکشنز میں اپنا مقام بنانے والی قرۃ العین اَن گنت صلاحیتوں کی مالک ہے۔ ان تمام صلاحیتوں پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو وہ مستقبل کا ایک چمکتا ہوا ستارہ نظر آتی ہیں اور جہاں محنت اور نیک نیتی کا عنصر ہو تو بلاشبہ اللہ رب العزت کی طرف سے پھل ملنا لازم ہوتا ہے۔ دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ شوخ اور چنچل سی قرۃ العین کو لکھنے میں استقامت عطا فرمائے‘ ان کے تمام خواب جلد شرمندہ تعبیر ہوکر حقیقت کا روپ دھاریں اور وہ کامیابیوں کے فلک کو چھولیں۔ میری طرف سے ان کے لیے نیک خواہشات اور ڈھیر ساری دعائیں کہ زندگی کے ہر موڑ پر کامیابی ان کے قدم چومے۔ آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).