احتساب، نقطہء آغاز


کون کہتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں احتساب کا عمل سست ہے۔ یہ بھی ایک غلط فہمی ہے کہ ہم جوابدہی پر یقین نہیں رکھتے۔ ارے! کیا آپ حیران ہورہے ہیں؟ اس میں حیرت کی تو کوئی بات نہیں۔ لگتا آپ نے کبھی پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر نہیں کیا۔ روز پانچ دس روپے پر جھگڑے ہوتے ہیں کہ کہ حکومت کا کرایہ تو اتنا اور آپ زیادہ لے رہے ہیں۔ مجھے کرایہ نامہ دکھائیں۔

یہی صورتحال ریڑھی یا ٹھیلے سے خریداری کے موقع پر پیش آتی ہے جتنا وقت اور دماغ ہم ایک کلو ٹماٹر خریدنے پر لگاتے ہیں اتنا تو ہم ممبر قومی اسمبلی چننے پر نہیں لگاتے۔ خود سوچیں کے ٹماٹر لیتے وقت ٹماٹر کی باقاعدہ چھان بین کرتے ہیں کہ کہیں یہ داغدار تو نہیں۔ مگر ممبر قومی اسمبلی یا دیگر قانون ساز اور قانون نافذ کرنے والوں کو چننے میں ان پر لگے داغ پر بہت کم دھیان دیتے ہیں اور بیشتر تو نظر انداز ہی کردیتے ہیں۔

بڑے بڑے شاپنگ مالز میں شاپنگ کرتے وقت ہم زیادہ قیمتوں کا برا نہیں مناتے مگر ایک پھیری والے سے رومال خریدتے وقت یہ ضرور سوچتے ہیں کہ کہیں وہ ناجائز منافع نہ کمالے۔

یہی حال ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہے۔ اگر کوئی آدمی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کرے تو اس کا چالان بلکہ حسب منشاء ریمانڈ بھی موقع پر کردیتے ہیں۔ جب کہ وہی جرم ایک اثر و رسوخ والا شخص کرے تو اسے ”آئندہ دھیان رکھئے گا سر“ کی نصیحت کرکے چھوڑ دیتے ہیں۔

ایک ٹیکسی والا اگر پچاس روپے زیادہ مانگ لے تو اسے پرانے وعدے اور سفری تاریخ (ٹریول ہسٹری) بتاتے ہیں یعنی ”بھائی میں پہلے بار سفر نہیں کررہا/رہی“ پھر یہ بھی معلومات فراہم کرتے ہیں کہ ”میرا روز کا آنا جانا ہے“۔ جب کہ اس پیک فیکٹر (Peak Factor) کی گھناؤنی حرکت کا بالکل بھی برا نہیں مناتے جس راستے کا ایک عام ٹیکسی والا پانچ سو لے اس کا پندرہ سو دے کر کہتے ہیں شکر ہے گاڑی مل گئی آج تو پیک فیکٹر بھی تھا۔

محترم کبھی پوچھئے تو کہ یہ پیک فیکٹر کس کھاتے میں ہم خدانخواستہ کسی حالت جنگ میں تو نہیں کہ چیزیں تین گنا مہنگی کر دی جائیں مگر ہم بخوشی وہ پیسے ان بین الاقوامی کمپنیوں کو دے دیتے ہیں بجائے ٹیکسی ڈرائیور کو جن میں سے زیادہ تر کی صرف اتنی غرض ہے کہ مالک کو پیسے دے کر گھر کے راشن اور گھر والوں کی صحت اور تعلیم کا خرچہ نکل آئے۔

جی ہاں میں بالواسطہ یہی کہہ رہی ہوں کہ جہاں ممکن ہو لوکل ٹیکسی استعمال کریں جو منافع بڑی کمپنیوں کا جارہا ہے کسی مزدور کو دینے میں کیا حرج ہے۔ مگر دراصل ہمیں پروٹوکول کا نشہ کہیں یا اپنی احساس کمتری نے مار ڈالا ہے۔ بس باہر جاکر بجائے دو تین ٹیکسی والوں سے ریٹ لینے کی تکلیف کرنے کی بجائے ہمیں آرڈر دینا اور ڈرائیور کا ہمیں دروازے پر آکر پک کرنا پسند ہے۔ اس سے ہم سودا کرنے کے اسلامی طریقے سے بھی دور ہورہے ہیں اور معاشی طور پر ایک غیر ذمہ دار گاہک بن رہے ہیں۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ احتساب ایمانداری سے شروع کرنا ہے تو خود احتسابی سے شروع کیجئے۔ خود شیطان کے شر سے پناہ مانگنے کے بعد اپنے خاندان اور پیاروں کو اپنے شر سے محفوظ رکھیں۔ ہر سطح پر میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ جو کام بھی کریں اس کے میرٹ پر پورے اترتے ہوں۔ چھوٹی کوتاہیوں، غلطیوں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا غصہ تھوڑا سنبھال کررکھیں بلکہ اسی غصہ کا اظہار آپ مناسب وقت پر بلکہ موقع ملتے ہی پالیسی اور قانون سازوں کے سامنے کریں۔

احتساب کے عمل کے لئے انتہائی ضروری ہے کے آپ دائرہ اختیار میں جہاں تک ہے میرٹ کی بنیاد پر کام کریں اور کروائیں۔

جہاں کہیں زیادتی ہوتی دیکھیں کم از کم آواز ضرور اٹھائیں۔ کوشش کریں کہ آواز اتنی بلند ضرور ہو کہ فیصلہ سازوں تک پہنچے۔ ایسی نہ ہو کہ ایک دوسرے سے غیبت کرتے دل کی تسلی بھی ہوجائے، گناہ بھی، جب کہ نظام جوں کا توں رہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔ اگر آپ تبدیلی پر اختیار نہ بھی رکھتے ہوں تو کم از کم آواز ضرور اٹھائیں اور اس یقین کے ساتھ کہ بہتری ضرور لانی ہے۔ یہی نقطہء آغاز ہے کہ اپنے سے شروع کرکے معاشرے میں ہر سطح پر تبدیلی لانے کی کوشش کریں چاہے وہ روز مرہ کے معاملات، دینی فرائض یا ملک مفاد کی کی ترجیحات ہوں۔ کوشش کریں کہ وہ تبدیلی آج اور ابھی آئے تاکہ ہم اپنے بچوں کے لئے بہتر معاشرے کے ساتھ ساتھ بہتر کردار بھی چھوڑ کر جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).