اللہ ماہی ۔ شاگردوں کی قطار میں میرا استاد


لیکچر کے لیے استاد کلاس کے سامنے کھڑا ہوا۔ یہ کلاس کے سامنے کھڑے ہونا بھی دریا کے سامنے کھڑے ہونا ہے، ٹھہرامنظر اور پھر آہستہ سے بدلتا منظر، دھیمی سی تبدیلی۔ دھیرے سے بہتا پانی جس کے ایک کونے سے ایک آبی پرندہ ابھرتا ہے، اوپر کو دیکھا اور پھر پانی کے اندر غائب۔ ایک لمحہ ہی سب تبدیلی چھپائے ہے، پکڑ لو تو جھولی بھر دے، نکل گیا تو ہاتھ خالی۔ دیکھنے کی آنکھ ہو تو بدلتا منظر نظر آتا ہے، ورنہ سب کچھ سپاٹ ہے۔ سپاٹ سی دیوار اور اس پر ٹنگی ساکت تصویریں۔ دیکھنے کی آنکھ ہو تو تصاویر سرگوشی کرتی ہیں، کہانیاں سناتی، منظر دکھاتی۔ محسوس ہو تو غیر محسوس بھی چھب دکھلاتا ہے۔

استاد کلاس میں کھڑا ہو تو سامنے طالبعلموں کے چہرے ہیں، سپاٹ چہرے اور کہانیاں سناتے چہرے۔ بے زار، جمائیاں لیتے، سر کھجاتے، لیکچر کی بے وقعت قید گذارتے چہرے۔ لیکچر میں دلچسی لیتے، چمکتی آنکھوں سے استاد پر نظر رکھتے، ہاتھ سے کاپی پر تیز تیز نوٹس بناتے چہرے۔ اور بھری کلاس سے علیحدہ کچھ چہرے۔ جماعت کے ایک کونے میں بیٹھی طالبہ اور اس کے ساتھ ہمیشہ بیٹھتا وہ طالبعلم۔ ہتھیلیوں پر چہرہ دھرے وہ لیکچر کی طرف متوجہ ہونے کا گمان دیتی ہے، مگر دونوں کی توجہ ایک دوسرے کی جانب ہے۔ لیکچر کے دوران ایک لمحے کو دونوں دیکھتے ہیں اور ایک ہلکی سے مسکراہٹ یکایک ابھرتی ہے اور کلاس کو بھرتے ہوئے اگلے لمحے کہیں غائب ہو جاتی ہے۔ استاد جانتا ہے، محسوس ہو تو غیر محسوس بھی چھب دکھلاتا ہے۔

استاد سب دیکھتا ہے، ایک غیر محسوس مسکراہٹ اس کے چہرے پر بھی ہے۔

مگر اُس سال جب نئے سمسڑ کا پہلا لیکچر لینے میں کلاس میں پہنچا تو درمیانی قطار میں بیٹھے پختہ عمر کے بارے میں کنفیوز تھا کہ یہ کون ہے؟ یہ انڈر گریجویٹ کلاس تھی، ایف ایس سی کر کے آئے ہوئے کم عمر لڑکے، لڑکیاں اور وہ اُن میں بالکل فرق نظر آرہا تھا۔ وزن بھاری، بال کم، سادہ سے اطوار، شیو کیا گول بھرا بھرا سا چہرہ، مونچھوں کے بال ترشے ہوئے جیسے مشین پھیری گئی ہو۔ شاید یونیورسٹی کا کوئی ملازم ہے جو ویسے ہی کلاس میں بیٹھ گیا ہے۔

لیکچر کے دوران میں اُسے دیکھتا رہا۔ وہ توجہ دینے کی کوشش کر رہا تھا، مگر چہرے کے تاثرات سے لگتا تھا کہ بہت سمجھ نہیں آرہی۔ استاد کو عموماً سب نظر آتا ہے، کسے سمجھ آرہی ہے، کون بس وقت گزار رہا ہے، کون دلچسپی لے رہا ہے، کون بے زار ہے۔ جماعت کے سامنے کھڑے ہوں تو چہرے بولتے ہیں، اونچی آواز میں، ہاتھ کھڑے کیے، مسلسل بولتے ہیں، چہرے کے خدوخال بولتے ہیں، آنکھوں کی چمک بولتی ہے، جسم کی بیزاری بولتی ہے، جھکا ہوا سر بولتا ہے، ہاتھوں کا بے اختیار کھجانا بولتا ہے، بکھرے بال بولتے ہیں، ٰڈیسک پر رکھے گئے بازوں کا انداز بولتا ہے، زبان چپ ہے مگر ایک ایک عضو بولتا ہے۔ استاد سن سکتا ہو تو ایک ایک بے آواز طالبعلم باآوازِ بلند بولتا ہے۔

مگر یہ کون ہے؟ سالہا سال پڑھاتے ہوگئے مگر ایسا فرد کبھی جماعت میں نہ دیکھا تھا۔ پوچھنا چاہتا تھا مگر پوچھ نہیں سکتا تھا۔ استاد کو بھی اپنے سوالوں میں احتیاط لازم ہے کہ کسی طالبعلم کی جگ ہنسائی کا سبب نہ بن جائے۔ لیکچر کے بعد حاضری کے لیے نام بولے تو علم ہوا کہ یہ تو طالبعلم ہے، اور نام ہے اللہ ماہی۔ صرف خود ہی فرق نہ تھا، نام بھی فرق تھا۔

وہ عام نہ تھا فرق تھا۔ اس کے بارے میں جاننا چاہتا تھا، تجسس تھا، بات کرنی تھی مگر موقع کا انتظار تھا۔ اور موقع سمسڑ کے چوتھے ہفتے آیا جب لیکچر کے بعد وہ میرے پاس ایک سوال سمجھنے آیا۔ سوال کا جواب سمجھانے کے بعد میں نے پوچھا کہ کیا اس کا اسلام آباد یا پنڈی سے تعلق ہے کہ یہاں پڑھ رہا ہے۔ کہنے لگا، نہیں بلکہ بہاولپور کے قریب ایک گاؤں ہے، وہاں سے تعلق ہے، پڑھنے ادھر آیا ہوں۔ ٹنچ بھاٹہ میں ایک کرائے کے مکان میں کچھ چھڑے چھانٹ رہتے ہیں ان کے ساتھ رہتا ہوں، روٹی پانی خود کرتے ہیں یا کسی قریبی ہوٹل سے دال سبزی لے لیتے ہیں۔ پوچھا کہ اتنا دور کیوں آگئے۔ کہنے لگا کہانی فرق ہے۔ یہ تو نظر آرہا تھا کہ کہانی فرق ہے۔

اللہ ماہی منڈی یزمان اور بہاولپور کے درمیان واقع جس گاؤں میں پیدا ہوا تھا، وہاں تعلیم کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ بڑا تیر مارا جاتا تو لڑکے رُلتے کھلتے میٹرک کر لیتے تھے۔ گاؤں میں سکول تو تھا مگر استاد نہ تھے اور جو استاد تھے وہ مقامی تھے، سکول طالبعلم بیگار کی صورت ان کے کام آتے تھے۔ انگریزی کا استاد عرصے سے سکول میں نہ تھا سو میٹرک کے انگریزی کے پرچے میں تقریباً ساری کلاس ہی فیل ہوتی تھی۔ پھر گاؤں سے نوجوان لیبر کے طور پر خلیجی ممالک جانے لگے۔

سعوی عرب، دبئی وہ کس برے حال میں رہتے کوئی نہ جانتا تھا مگر اُن کے گھروں میں اب ریال آنے لگے۔ ایک دوڑ شروع ہوگئی۔ ایجنٹوں نے آگے گاؤں میں اپنے ایجنٹ رکھ لیے۔ پیسے ادا کرو، ویزہ خریدو۔ مزدور، راج، سستی لیبر منڈی یزمان سے عرب ممالک کی ریت میں محنت کش ہو گئی۔ اللہ ماہی کا چچا زاد، خالہ زاد سب باہر مزدور تھے۔ اللہ ماہی کے لیے بھی یہی منزل تھی، صرف ایک فرق یہ آیا کہ پہلے گئے مزدوروں نے رہنمائی کی کہ وہ اگر الیکڑیشن کا ڈپلوما کر آئے تو مشقت کم ہوگی اور آمدنی زیادہ۔ اللہ ماہی نے بہاولپور جاکر ٹیکنیکل کالج سے الیکڑیشن کا ڈپلومہ کر لیا۔ ایجنٹ کو پیسے دیے اور دبئی جاکر محنت کشوں کی صف میں جاکھڑا ہوا۔

منڈی یزمان کے گاؤں کی ہیئت بدلتی جاتی تھی۔ مکان پکے اور دو منزلہ بنتے جاتے تھے، مگر گھر خالی تھے۔ گاؤں میں بوڑھے تھے یا پردیس مشقت کرتے مزدوروں کی بیویاں یا سال دو سال بعد کی چھٹی کے صلے میں پیدا ہوئے بچے۔ بچے اور مائیں ہمیشہ انتظار میں رہتے تھے ؛ خط، ریال، باپ اور میاں کے انتظار میں۔ اللہ ماہی کی بھی شادی ہوگئی۔ اس کی بیوی گاؤں میں اور ماہی دبئی کے ایک ہوٹل میں الیکٹریشن تھا۔ تینوں وقت کا کھانا مفت۔ سب ملازمین ہی موٹے تھے، جو پتلا دبلا آیا وہ بھی کچھ ماہ میں ہوٹل کا بچا ہوا بوفے کھا کھا کر وزنی ہو جاتا تھا۔ وقت گزرتا گیا، سال بعد چھٹی آنا اور پھر واپس۔ کافی کوشش کے بعد اس نے دبئی کا ڈرائیونگ لائسنس بھی حاصل کر لیا تھا کہ جس سے اس کی نوکری میں بھی مالی فائدہ ہونے لگا۔

زندگی لگی بندھی ڈگر پر چل رہی تھی۔ مگر اللہ ماہی اب اپنے تین بچوں کے بعد سوچتا تھا کہ کیا یہ زندگی ایسے ہی گزرے گی، اپنے خاندان سے دور، سال کے بعد ایک ماہ کی چھٹی۔ ہر سال بچوں کو دیکھنا کہ وہ پچھلے سال سے قد میں کتنا بڑھ گئے ہیں۔ بعد میں اُن کی حرکتیں یاد کرنا، آتے ہوئے بیوی کی آنکھوں میں رک جانے کی توقع اور آس۔ مگر ایک الیکٹریشن کیا کرے، تنخواہ کم تھی، دبئی میں خرچے بھی زیادہ ہیں اور قانون بھی خاندان کو نہیں لانے دیتا۔ کیا کرے؟ کیا یہ یہ زندگی ایسے ہی گزرے گی؟

کیا یہ زندگی ایسے ہی گزرے گی؟ کتنا ہی عرصہ اس کا اس سوچ میں گزر گیا۔ زندگی ایک ڈگر پر تھی، ٹھیک ہی تھی۔ اچھی یا بری کا سوال بعد میں آتا ہے۔ ایک رقم ماہانہ آ رہی تھی، دبئی کا نام ساتھ لگا تھا، گاؤں میں عزت تھی، باپ خوش تھا، اللہ ماہی کماؤ پوت تھا۔

اورزندگی کی ڈگر بدلنا کوئی آسان نہیں۔ اس کے لیے جرات چاہیے، ہمت کہ ایک غیر یقینی راہ پر قدم رکھا جائے، ایک دیوانگی چاہیے، ایک نعرہِ مستانہ اور زندگی کے سمندر میں چھلانگ لگانے کا حوصلہ۔ مگر صرف یہی نہیں۔ داؤ پر اتنا کچھ ہے کہ دیوانگی کے ساتھ ساتھ ایک فرزانگی بھی چاہیے۔ سوچ ساتھ ہو، ہر قدم نپا تلا رکھنا ہے۔ تین بچے اوربیوی سب اس کی ذمہ داری تھی۔ ایک طرف دل دیوانہ تھا، کہتا تھا کہ جہاں آج تو الیکٹریشن ہے، وہیں کل انجینیئر کے طور پر کام کرے۔ بیوی بچے اس دبئی شہر میں ساتھ ہوں، شام کو ان کو کسی شاپنگ مال میں ساتھ لے جا کر آئس کریم کھلائے۔ انہیں منڈی یزمان کے ساکت گاؤں سے دبئی کی تیز دنیا میں لے کر آ۔ دماغ کہتا تھا، کیسے ہوگا؟ اپنے آپ کو دیکھ، غور سے دیکھ اور جو چاہتا ہے اس کو بھی دیکھ۔ خواب دیکھنا اچھا ہے، مگر آنکھیں کھول، آس پاس اردگرد دیکھ، غور سے دیکھ، کیسے ہوگا؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عاطف ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 73 posts and counting.See all posts by atif-mansoor