لائن آف کنٹرول پر بسنے والوں کے شب و روز


میرا تعلق سیکٹر نکیال کے گاؤں منڈھیتر سے ہے جو کہ خونی لکیر (ایل۔ او۔ سی) سے تقریباً دس کلومیٹر کی دوری پر موجود ہے۔ میرے گاؤں میں پچھلے سال بھارتی دراندازی کی وجہ سے کافی شیلنگ ہوئی تھی لیکن حال ہی میں ہونے والی پاک بھارت ٹینشن میں میرا گاؤں اس شرپسندی سے محفوظ رہا۔ اس کہ برعکس نکیال سیکٹر ہی کے دوسرے دیہات جیسے موہڑہ، پیر کلنجر، جندروٹ وغیرہ میں لوگوں کو بہت مُشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ضلع کوٹلی سے ملحقہ جتنے بھی علاقے ایل او سی کے قریب ہیں اُن میں سب سے زیادہ نُقصان نکیال سیکٹر میں ہوا ہے جہاں چار لوگ پاک بھارت ٹینشن کا نشانہ بنے اور اپنی زندگیوں سے محروم ہو گئے۔

جیسے ہی بھارتی زیرِانتظام کشمیر کے شہر پُلوامہ میں دہشت گرد حملے سے بھارتی فوجیوں کی ہلاکت ہوئی اُسی دن سے ایل او سی پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان نوک جھوک کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایل او سی پر بسنے والے لوگ تقریباً سارا سال ہی انڈیا اور پاکستان کی ان آگ اُگلنے والی مشینوں کے خوف میں مُبتلا رہتے ہیں۔ وہ اس ڈر کے سائے میں اپنے شب و روز گُزارتے ہیں کے پتہ نہیں کب کوئی مشین ایسا نشانہ داغ دے جو ان کے جسم کے آرپار ہو جائے۔

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جب بھی حالات کشیدہ ہوتے ہیں اس کا براہ راست اثر بالعموم دونوں اطراف بسنے والے کشمیریوں جبکہ بالخصوص ایل او سی پر بسنے والے لوگوں پر ہوتا ہے۔ اب تک تقریباً ایک لاکھ سے زائد کشمیری پاکستان اور ہندوستان کی لڑائی میں اپنی جانیں گنوا چُکے ہیں۔ کوئی بھی کشمیریوں کی داد رسی کے لیے تیار نہیں ہے لیکن جب وسائل کی بات آتی ہے تو دونوں ممالک جی بھر کر ان وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں حصہ لیتے ہیں۔ دونوں ممالک نے اقوام متحدہ میں جو وعدے کیے تھے اُن پر عمل پیرا ہونے سے گریزاں ہیں اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ کوئی بھی مُلک اس دولت سے مالامال خطّے سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتا چاہے اس کی قیمت کشمیریوں کے خون سے ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔

14 فروری کی رات سے جب فائرنگ شروع ہوئی تو لوگوں کو ایسا لگا یہ معمول کی نوک جھونک ہے لیکن جیسے جیسے دن گُزرے ایل۔ او۔ سی پر بسنے والے ہر وقت شیلنگ کی ذد میں رہنے لگے۔ بھارتی فوج نے پاکستان زیرِ انتظام کشمیر میں موجود سول آبادی کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ لوگوں کے گھر، مال مویشی، گاڑیاں کچھ بھی محفوظ نہیں تھا۔ اور پاکستانی میڈیا ہمیشہ کی طرح چُپ سادھے ہوے تھا۔

وہاں پر موجود کُچھ رپورٹر جو کے وہاں کے لوکل ٹیلیویژن یا سوشل میڈیا پر رپورٹ کر رہے تھے اُس کے علاوہ کوئی بھی نیوز ایجنسی اس دراندازی کو رپورٹ نہیں کر رہی تھی۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں نکیال سیکٹر کے گاؤں موہڑہ میں ایک ہی خاندان کے تین لوگ بھارتی دہشت گردی کا نشانہ بنے جن میں ایک کی عُمر نو سال جب کے ایک کی عمر پندرہ سال بتائی گئی ہے۔ جو لوگ مالی لحاظ سے طاقت ور تھے وہ تو اپنے بل بوتے پر نقل مقانی کر گئے جبکہ باقی لوگ اپنی قسمت کو روتے اپنے گھروں میں مقیم موت کا انتظار کرتے رہے۔ اس دفعہ صورت حال اس قدر کشیدہ تھی کہ انٹرنیٹ سروس تو تا حال معطل ہے جبکہ موبائیل سروس بھی وقفے وقفے سے بند کر دی جاتی تھی۔

پاکستان زیرِ انتظام کشمیر میں موجود حکومت صرف بیان بازی اور مذمت سے ہی کام چلاتی رہی۔ جبکہ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر برطانیہ کے دورے سے لُطف اندوز ہوتے رہے۔ حکومت کی طرف سے کسی قسم کی بھی مالی معاونت نہیں کی گئی اور نہ ہی لوگوں کو بنکر بنا کر دیے گئے۔ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے لیے کُچھ محفوظ پناگاہیں بنائی جو کہ زیادہ محفوظ نہیں ہیں۔ نکیال سیکٹر میں مزدوری کی غرض سے گئے ہوے ضلع نیلم کا ایک مزدور شہید ہوا اور عوام علاقہ نے چندہ اکٹھا کر کے اُس کی میّت اُس کے آبائی گاؤں پہنچائی۔ یہ حکومت کی نا اہلی اور بے حسی کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔

ایل او سی کے دونوں اطراف لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں رہتے ہیں کیونکہ وہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان ہیں جنہیں بس اپنی مصنوعی برتری قائم رکھنی ہے جس کے لیے وہ کبھی بھی خون کی ہولی شروع کر سکتے ہیں۔ کشمیر کا بچہ بچہ اس کرب اور دہشت سے گُزرتا ہے جو ان دونوں ممالک نے بارڈر بارڈر کے کھیل میں ان کے دلوں میں ڈالا ہے۔ میں جب اس قوم کے مستقبل کی طرف دیکھتا ہوں تو سب کُچھ دھندلا سا دکھائی دیتا ہے۔ کیا میں ایک ایسی قوم میں پیدا ہونے کا سنگین گُناہ کر بیٹھا ہوں جس کی قسمت میں بس جبر اور دہشت ہی ہے؟ کیا یہ خطہ انھی سرمایہ داروں کی ہوس پوری کرنے لیے استعمال ہوتا رہے گا یا اس ریاست کے باسی کبھی آزادی کا سورج بھی دیکھ سکیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).