شیڈز آف شیڈو ڈی این اے


لاول یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایسی مائیں جو حاملہ ہونے سے پہلے گیسٹرک بائی پاس سرجری (weight loss surgery) کے عمل سے گزرتی ہیں ان کے پیدا ہونے والے بچّوں میں موٹاپے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ ان بچوں کا جنیٹک کوڈ تو اپنی ماؤں جیسا ہی ہے پر اس جنیٹک کوڈ میں موجود مارکرز مختلف ہیں۔ اس سرجری کے عمل کے نتیجے میں نہ صرف ماؤں کے ڈی این اے کے مارکرز تبدیل ہوئے بلکہ کچھ سال بعد پیدا ہونے والے ان کے بچوں کے مارکرز بھی تبدیل ہو گئے۔

اس تحقیقی مطالعے کا تعلق epigenetic inheritance کے ساتھ ہے۔ یعنی خصوصیات والدین سے بچوں میں ان کے جینیٹک کوڈ (ڈی این اے ) کو چھوئے اور اسے تبدیل کیے بغیر کیسے منتقل ہو سکتی ہیں۔

ایپی جینیٹکس وراثیات کی ایک ایسی صورت کو کہا جاتا ہے کہ جو ڈی این اے میں کوئی بگاڑ یا تبدیلی پیدا کیے بغیر بھی جینز کے افعال (expression) کو متاثر یا تبدیل کر دیتی ہے، یعنی ڈی این اے کے نیوکلوٹائیڈذ کی کی بجائے ان نیوکلوٹائیڈذ کے درمیان پائے جانے والے میتھائل مارکرز تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے جسم کا آر این اے جینیٹک کوڈ کو پڑھ کے مطلوبہ پروٹین تیار کرتا ہے۔ لیکن ان مارکرز کے تبدیل ہونے سے آر این اے جینیٹک کوڈ کو مختلف انداز میں پڑھ پاتا ہے اور پھر اس کے مطابق متعلقہ پروٹین تیار کرتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ کسی بیرونی محرک کے رد عمل کے نتیجے میں یہ مارکرز تخلیق یا فنا کیے جا سکتے ہیں یا ان میں تحریف بھی کی جا سکتی ہے۔ کچھ ڈرگز ان مارکرز کو تخلیق اور فنا کر سکتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ زندگی میں پیش آنے والے کچھ واقعات بھی ان مارکرز کی تخلیق اور فنا کا باعث بنتے ہیں۔ یہ مارکرز والدین سے بچوں میں ڈی این اے کے ساتھ ہی منتقل ہوتے ہیں۔ ہماری زندگی میں ہونے والے واقعات ہمارے بائیولوجیکل میک اپ پر دور رس اثرات مرتب کرتے ہیں، جو نہ صرف ہماری بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کی زندگیاں کو بھی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔

ہمارے میتھائل مارکرز ہماری نسبی یاداشت کا کام بھی کرتے ہیں اور ان تجربات، واقعات اور حادثات کی ہمارے اندر encoding کر دیتے ہیں جن کا تعلق ایک عرصہ حیات سے لے کر صدیوں پہلے سے بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے جنیٹک کوڈ میں موجود یہ مارکرز ایک کمنٹری کا کام کرتے ہیں۔ US National Library Of Medicine کے مطابق محض چوہوں کی مختلف خوراک ان کی ایپی جینٹکس کو تبدیل کر سکتی ہے۔ Nature Neuroscience میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق لیب میں افزائش کیے گئے چوہوں میں اگر کسی خاص قسم کی بو کا خوف پیدا کردیا جائے تو یہ خوف ان کی نسلوں میں بھی منتقل ہو جاتا ہے۔

اگر چوہوں کے بچوں کو پیدا ہوتے ہیں ان کے والدین سے الگ کردیا جائے اور ان میں کوئی behavioural contact نہ بھی ہو تو بھی یہ خوف بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔ اگرچہ ان بچوں کو اس خوف کی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ چوہوں کو کسی خاص بو سے خوف زدہ کرنے کے لیے مخصوص بو والی خوراک کو کسی ایسے چیمبر میں رکھا جا سکتا ہے جس میں ہلکا سا کرنٹ ہو۔ تحقیق کے دوران انسانوں میں بھی یہی رویہ سامنے آیا۔ والدین اگر کسی بھی قسم کے حادثے سے گزریں تو اس کے اثرات بچوں میں بھی منتقل ہوتے ہیں۔

اگرچہ ان بچوں کو پیدا ہوتے ہی والدین سے الگ کیوں نہ کر دیا جائے۔ والدین جس سٹریس سے گزرتے ہیں وہ ایپی جینٹکس مارکرز کی صورت میں بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔ مثلاً PTSD سے متاثرہ افراد کے بچوں میں سٹریس رسپانس ہارمون کا لیول بہت کم ہوتا ہے۔ انسانی ایپی جینوم کو rewrite کیا جا سکتا ہے۔ میتھائل مارکرز کو ختم کرنے کے لیے فرماسیوٹیکلز کا استعمال بھی ممکن ہے۔ یاد رہے کہ chemical castration اس سے ایک علیحدہ عمل ہے۔

یہاں یہ بتانا بہت اہم ہوگا کہ کچھ میتھائل مارکرز مستقل نوعیت کے ہوتے ہیں جن سے نجات حاصل کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ مثلاً محرم رشتوں کی حرمت کو پامال کرنے جیسا گھناؤنا جرم کرنا۔ چاہے چھوٹے بچے بچیاں ہوں یا نوجوان اور ادھیڑ عمر خواتین، ریپ کے کیس میں مظلوم زیادہ تر ان لوگوں کا نشانہ بنتے ہیں جو ان کے قریبی اور محرم رشتہ دار ہوتے ہیں۔ اس صورت میں نہ تو مظلوم اپنے ساتھ گزرنے والے اس حادثے کے اثرات سے باہر آ پاتے ہیں اور نہ ہی مجرم اپنے غلیظ میتھائل مارکرز سے نجات حاصل کر پاتے ہیں۔

اور یہ مارکز ان کی نسل میں منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں اور نسل در نسل فیملی ریپ کا یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے۔ ایسے لوگ سپلٹ آئیڈینٹیٹی ڈس آرڈر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مسل میموری کے ڈویلپ اور ہارڈ وائر ہونے کے بعد یہ collective unconsciousness کی صورت میں ایک وبا کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ہر پریڈیٹر پہلے سے یا تو وکٹم رہ چکا ہوتا ہے یا پھر وہ یہ میتھائل مارکرز اپنے آباؤ اجداد سے حاصل کرتا ہے۔ مثلاً زینب قتل کیس کے مجرم عمران کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی جنسی استحصال کا نشانہ بنتا رہا ہے۔

معروف تجزیہ کار بابر ستار نے لکھا۔

”I wonder if those who inflict abuse on others were born rotten or if they were nurtured in an environment where they internalized the abuse they received۔ “

میتھائل مارکرز انسانوں کی تمام مثبت اور منفی خصلتوں کو ایکسپریس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کوئی شخص اپنے اندر پائی جانے والی نفرت، حقارت، غرور، تکبر، تعصب، جہالت، جھوٹ، حسد، بدعنوانی، لالچ، ہوس، بد تہذیبی، ظلم، نیچ پن، کمینگی، ذلالت، منافقت، خود غرضی، دھوکہ دہی، حرام خوری غرض کہ ہر برائی کے میتھائل مارکرز اپنے آباؤاجداد سے ورثے میں حاصل کر سکتا ہے۔ اور اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل بھی کرسکتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی شخص اپنی خوبیاں جیسے ملنساری، خوش اخلاقی، تہذیب، عاجزی، انکساری، تواضح اور مساوات اپنے آباء و اجداد سے ورثہ میں پا کر اپنی نسل کو منتقل کرسکتا ہے۔ دوسرے انسانوں کو اور خاص کر مسلمانوں کو اپنے سے حقیر سمجھنے والے یہی خباثت اپنا فرض سمجھ کر اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کرتے چلے جاتے ہیں۔

بانو قدسیہ کا ناول ’راجہ گدھ‘ رزق حلال اور حرام کے انسانی نفسیات پہ اثرات کے حوالے سے کہیں نہ کہیں ضرور زیر بحث آتا ہے۔

سب سے زیادہ اختلاف حرام مال کے ڈی این اے پر اثرات کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ کیا حلال اور حرام رزق انسان کے ڈی این اے پہ اثر انداز ہوتا ہے؟ کچھ لوگ اسے غیر سائنسی سمجھ کے بالکل رد کر دیتے ہیں اور کچھ لوگ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے باربرا مکلنٹوک کی جمپنگ جینز والی تھیوری، جس پر باربرا کو نوبل انعام ملا، کا سہارا لیتے ہیں۔ اگر اس کو epigenetic inheritance کی روشنی میں دیکھا جائے تو بات بالکل واضح ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).