نفرتوں کا سفرنامہ


جب سے ہوش سنبھالا، یہی سنتےآئے ہیں کہ بھارت پاکستان کا دشمن ہے۔ مطلب ایسا سمجھ لیں کہ اسلام کی شرط اگر کلمہ شہادت ہے توحب الوطنی کا لازمہ بھارت دشمنی۔ اور ایسے ہی جذبات بھارت میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یعنی آپ یہ سمجھ لیں، کہ پاکستان میں بائیس کروڑ آبادی اور بھارت کی تقریبا ایک ارب بتیس کروڑ کی آبادی اس خطے میں ہر روز نفرتوں کے بیج بوتی ہے۔ نشونما پانے والے کچے دماغ اس بات کو آرام سے تسلیم بھی کر لیتے ہیں اور پوری زندگی بھارت مخالف سوچ میں گزار دیتے ہیں۔ صاحبان مطالعہ اور اہل فکر و نظر اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہیں کس طرح انہیں بچپن سے بےوقوف بنایا جاتا ہے مگر افسوس۔ ایسے خداوندان بصیرت کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہوتے ہیں۔ چلیں نفرت تو چھوٹا لفظ ہے، یہاں اگر ان دونوں میں سے کسی ملک کا فرد، اپنے ملک کی تلخ حقیقت کو بیان کردے تو وہ غدار قرار پاتا ہے۔

سادہ لوح عوام جو مکمل حقیقتوں سے واقف نہیں، لاعلمی میں وہ اپنے فیس بک اور ٹوئٹر اکاونٹ پر محب وطن ہونے کی لفظی گولہ باری کرکے تسکین حاصل کر لیتے ہیں۔ اس خطے میں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر سیاستدانو ں میں اگر کسی نے حق گوئی اور صداقت کا مظاہرہ کیا تو ایوان کے اعلی تعلیم یافتہ نمائندگان ذاتی مفاد میں اپنے آقاوں کو خوش کرنے کے لیے غداری کی ڈگریاں بانٹنے سے باز نہیں رہتے۔ اسمبلیوں میں قراردادوں میں غداری کا ٹھپہ لگانے کی ہر ممکن کوشش کے بعد بھی دل کو تسلی نا ملے تو عدالتوں میں ان کے خلاف غداری کا مرتکب ٹھہرائے جانے کی درخواستیں جمع کرائی جاتی ہیں۔ یہی موقف جب ان کے پرستاروں تک پہنچتا ہے، تو وہ بھی آنکھ بند کرکے اُسی لائن میں لگ جاتے ہیں اور یوں یہ سوچ معاشرے میں مزید پروان چڑھتی ہے۔ اس خطے میں الیکشن جیتنے کے لیے سیاستدان پوری پوری قوموں کا مستقبل داؤ پر لگا دیتے ہیں، جیسے مودی جی آج کل اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اور یہ جذبات عوام کے بچپن والے موقف کو مزید تقویت بختشتے ہیں۔

پاک بھارت حالیہ کشیدگی کو ہی دیکھ لیں، سرحدوں کی جنگ تو باقاعدہ شروع نہیں ہوئی تھی۔ ہاں سوشل میڈیا پر تو سمجھ لیں کہ پاکستا ن اور بھارت میں بھیانک جنگ چل رہی تھی۔ پاک فضائیہ نے بھارت کے دو جہاز گرائے، ایک کے پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کیا تو قوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ پاک فضائیہ کی اس کامیابی پر ہمیں فخر ہوا، لیکن یہاں بات فخر سے بہت آگے بھی بڑھتی ہوئی نظر آئی۔

ہر پاکستانی اپنے آپکو پاک فضائیہ کے بہادر جوان حسن صدیقی اور نعمان علی خان سمجھنے لگا، سوشل میڈیا پر بڑے بڑے دعوے کئے گئے جیسے وہ خود سرحدوں پر جا کر بھارت کا منٹوں میں کام تمام کردیں گے۔ دونوں ممالک میں ایک طبقہ وہ بھی دیکھا گیا جس نے ایک دوسرے کو بڑی بڑی مغلظات سے نوازا۔ بھارت کا میڈیا اور عوام اپنے غصے کو تسکین پہنچانے کے لیے ہر حد پار کر گئے تو پاکستانی عوام اپنے جیت پر مونچھوں کو تاو دیتے رہے۔ جب کہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بڑے صاف لفظوں میں کہا کہ ہم نے کامیابی حاصل ضرور کی ہے، لیکن ہم جنگ نہیں چاہتے۔

ہماری سول اور عسکری قیادت اتنی سنجیدگی سے یہ مسلہ حل کرتی ہوئی نظر آئی اور ہمارے عوام اس مسئلے کو اتنا آسان سمجھنے لگے کہ ایک آن لائن ٹیکسی سروس نے اپنی مارکیٹنگ کے لیے بھارتی ونگ کمانڈر ابھی نندن کی تصاویر کو بل بورڈز کا حصہ بنا لیا۔ اس ساری صورتحال میں ان لوگوں کی آوازیں بھی سنائیں دیں جو اپنے اپنے ممالک پر تنقید بھی کرتے ہوئے نظر آئے۔ بھارت میں بہت سے صحافیوں نے اپنے میڈیا کے خلاف آواز اٹھائی، بھارتی سیاستدان بھی مودی سرکار پر تنقید کرتے نظر آئے۔ بھارتی ججز، سینئر ایکسپرٹس بھی بھارت کی پالیسی پر نکتہ چینی کرتے رہے، اور بھارتی حکومت نے ان کے موقف کو دشمن کا موقف قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔

آج کل کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کی باتیں چل رہی ہیں تو حکومت کو بلاول بھٹو کا موقف ملک دشمن لگ رہا ہے۔ انہیں بھی غدار قرار دینے کی کوششیں جاری ہیں۔

یہ گرماگرمی کا ماحول پہلی بار تو نہیں ہوا، بلکہ یہ تو ایک جھلک تھی، 1947، 1965 اور 1971 کی تین باقاعدہ جنگوں کی صورتحال تو اس سے بھی زیادہ بھیانک تھی، اس دور میں سوشل میڈیا ہوتا تو تیسری جنگ عظیم کا گمان ہوتا۔ ظاہر ہے کہ سوشل میڈیا کی موجودگی میں پلنے والی نسل نے جنگیں تو نہیں دیکھیں، اور بڑی تعداد میں لوگوں نے تو شاید اُن جنگوں کا مطالعہ بھی نا کیا ہو، لیکن سوشل میڈیا پر ان کے رائے میں وہ خود کو بڑا فلاسفر سمجھتے ہیں۔ یہاں بات صرف دو ممالک کی نہیں ہے ، یہاں مسلہ ہماری سوچ کا بھی ہے۔ ہمارے بچے انگریزی الفاظ استعمال کریں تو اس کو ہم فخر سمجھتے ہیں، ہندی زبان کا کوئی لفظ استعمال کرنا توہین سمجھی جاتی ہے، ایسا کیوں ہے؟ کسی بھی زبان کا سیکھنا تو کوئی بری بات نہیں۔ لیکن یہاں بھی ہم سیاست کو گھسیٹ لاتے ہیں۔ اپنے ملک سے محبت کریں۔ ضرور کریں، لیکن انسانیت سے محبت سب سے زیادہ ضروری ہے۔ نفرتوں کے اس بیوپار میں ہم نے انسانیت کھو دی ہے۔

سحرش منصور
Latest posts by سحرش منصور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سحرش منصور

سحرش منصور اے آر وائی نیوز چینل پر نیوز اینکر کی حیثیت سے اپنے صحافتی فرائض ادا کر رہی ہیں۔

sehrish-mansoor has 2 posts and counting.See all posts by sehrish-mansoor