کیا مقبول ترین عمران خان کو ہٹا کر متبادل حکمران لانا ممکن ہے؟


آج کل مارکیٹ میں خبر گرم ہے کہ عمران خان کا بوریا گول کیا جا رہا ہے۔ مختلف امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً پارلیمنٹ میں سے ہی کوئی ان کا متبادل بن کر ابھرے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی اپنی پارٹی کا ہو، ہو سکتا ہے کہ ان کا کوئی اتحادی ہو یا پھر ان کا مخالف۔ کبھِی شاہ محمود قریشی کا نام لیا جاتا ہے، کبھی گجرات کے چوہدریوں کا نام آتا ہے تو کبھی شہباز شریف سے ڈیل کی خبر گرم ہوتی ہے۔ لیکن کسی مقبول حکمران کو ہٹانا آسان تو نہیں ہوتا۔

حکومت آنے کے پانچ ماہ بعد جنوری میں آنے والے گیلپ کے دیسی پول تو عمران خان کی عوامی مقبولیت محض 51 فیصد بتا رہے تھے لیکن 14 مارچ کو آنے والے امریکی ادارے انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ کے پول تو عمران خان کی مقبولیت اس سے بھی بڑھا کر 57 فیصد بتاتے ہیں۔ جبکہ الیکشن میں انہیں کل ڈالے جانے ووٹوں کا محض 32 فیصد ملا تھا۔ طبعاً سیدھا سادہ ہونے کی وجہ سے اگر ہم ان پولز پر اعتبار کریں تو عمران خان کی مقبولیت انتخابات کے بعد دگنی ہو چکی ہے۔ پھر کیا نادیدہ قوتیں عمران خان کو ہٹا پائیں گی؟

ہٹانے کی خبر دینے والے کبھِی بتاتے ہیں کہ معیشت دیکھ کر لانے والے مایوس ہو رہے ہیں۔ کبھی بتایا جاتا ہے کہ نہیں، یہ محض افواہ ہے۔ لیکن جس طرح تواتر سے یہ خبریں چل رہی ہیں اس سے یہ تو ظاہر ہو رہا ہے کہ پس پردہ کچھ نہ کچھ کھیل ہو رہا ہے۔ دو امکانات ہیں۔ پہلا یہ کہ واقعی متبادل دیکھے جا رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ عمران خان پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے تاکہ وہ قومی مفادات کے متعلق فیصلے کرنے میں لیت و لعل سے کام نہ لیں۔ خاص طور پر یہ مفادات والے فیصلے بجٹ کے متعلق ہوں گے۔

احتساب کے غبارے سے تو ہوا نکلتی دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت کو کچھ ریلیف نریندر مودی کے فضائی حملے نے فراہم کر دی ہے۔ مگر گیس بل کے ستائے عوام اب گرمیوں میں بجلی کے بل کا کرنٹ کھائیں گے۔ پیٹرول کی قیمت میں اضافے پر تو تحریک انصاف والے بھی بینر پکڑے احتجاج کرتے دکھائی دیے ہیں۔ ملک کی معاشی صورت حال دیکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ جون میں بجٹ آئے گا تو عوام کے پیٹ پر بڑا پتھر باندھا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کے جانے کے اشاریے واقعی واضح ہو رہے ہیں یا یہ محض بے بنیاد پروپیگنڈا ہے۔

پاکستان میں حکومت ہٹانے کی روایت دلچسپ ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت کے متعلق یہ بتایا جاتا ہے کہ چینی کی قیمت میں معمولی سے اضافے کے نتیجے میں طاقتور ایوب خان کے خلاف ایک تحریک چل پڑی تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف انتخابی مہم میں کتیا استعمال کرنے والے ایوب خان کو کتے کے نعروں نے ہی جانے پر مجبور کیا۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد جب بھٹو حکمران بنے تو ان کی مقبولیت آج کے عمران خان کی مقبولیت سے بہت زیادہ تھی۔ لیکن ان کی مقبول ترین حکومت کے خلاف ”تحریک نظام مصطفی“ چلائی گئی۔ نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ آج انہیں افسوس ہے کہ وہ استعمال ہو گئے تھے۔ اس تحریک میں سرخے بھِی شامل ہوئے اور مذہبی مجاہد بھی۔ بھٹو کی رخصتی کے ساتھ ہی نظام مصطفی کی تحریک بھی ختم ہو گئی۔ بھٹو جیسا مقبول شخص بھی اس مذہبی تحریک کے آگے لاچار ہوا اور جنرل ضیا نے اقتدار سنبھال لیا۔

یعنی جب ہٹانے والوں کا موڈ ہو تو وہ چینی سے لے کر مذہبی جذبات تک کسی شے کو بھی بنیاد بنا کر مقبول لیڈر کو غیر مقبول بنا دیتے ہیں۔ عمران خان کے تو حقیقی مسائل بھی ہیں۔ 57 فیصد مقبولیت بتانے والے امریکی سروے کے مطابق 39 فیصد افراد کی رائے میں ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، دوسرے نمبر پر 18 فیصد کی رائے میں غربت سب سے بڑا مسئلہ ہے، اور تیسرے نمبر پر 15 فیصد کی رائے میں یہ مسئلہ بیروزگاری ہے۔ یعنی ان سب کو روزی روٹی کا مسئلہ سب سے زیادہ پریشان کر رہا ہے۔

اب معیشت کا پہیہ تو جام ہے۔ احتساب کی خواہش نے سرمایہ مارکیٹ سے غائب کر دیا ہے۔ گیس کے بلوں نے عمران خان کی مضبوط بیس مڈل کلاس کی، اسد عمر کے الفاظ میں چیخیں نکلوا دی ہیں۔ بیروزگاری اور مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ آج ہونے والے پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے یہ مزید بڑھے گی۔ ڈالر مزید مہنگا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہم نے صرف قرضوں پر سود ہی نہیں دینا ہوتا بلکہ ہماری معیشت بھی ڈالر سے ہونے والی امپورٹ سے چلتی ہے۔ ڈالر کے مہنگا ہونے نے معیشت کا مزید بیڑہ غرق کرنا ہے۔ گرمی آ رہی ہے تو بجلی کا بحران بھِی ہو گا اور اس کی قیمت میں اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔ ان سب مسائل سے نمٹنے کے لئے بجٹ میں سختی ہو گی اور اس کے بعد عوام کو مزید اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس دوران اگر ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ آ گئی تو اس کے معاشی جھٹکے سے حکومت کا بالکل ہی جنازہ نکل جائے گا۔

اس صورت میں مقبول ترین عمران خان کے خلاف عوام کو مشتعل کرنا مشکل نہیں ہو گا۔ یہ تو اب ارضی کارکنان قضا و قدر کے ہاتھ میں ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ چلتے ہیں یا پھر عزیز ہم وطنو کو نیا حکمران نصیب ہو جائے گا۔ لیکن جو بھی نیا حکمران آئے گا، اس کے لئے معیشت اور اداروں کو سنبھالنا مشکل ہو گا۔ اسد عمر اور عمران خان تو تیل نکلنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اس کے نکلتے ہی مشکلات آسان ہو جائیں گی۔ اگر یہ تیل دریافت بھی ہو گیا تو اس کی پیداوار شروع ہوتے ہوتے پانچ سات برس بیت جائیں گے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ اس دوران حکمران کیا کرے گا، سوال یہ ہے کہ اس دوران عوام اپنے حکمران کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar