آپ اذان سن کر کیا کرتے ہیں؟


ہم خوش قسمتی سے ایک ایسی جامعہ میں پڑھاتے ہیں جس کے ایک طرف الجامعتہ الاسلامیہ العالمیہ ہے۔ دوسری جانب عظیم معلمہ فرحت ہاشمی کا الہدی ہے۔ عقب میں جامعہ حفصہ کی نئی عمارت تعمیر ہو رہی ہے اور عین سامنے قبرستان ہے۔ پولیس لائینز اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا دفتر بھی آس پاس پاس ہے۔

اس حسن ہمسائیگی سے ہماری طبعیت پر جو اثرات رونما ہوئے ہیں ان کے بیان کو تو ایک الگ دفتر درکار ہے۔ پر ہمارے اردگرد جو لوگ ہیں ان کی عادات اور معمولات میں بھی بہت سی روح پرور تبدیلیوں کا مشاہدہ روز ہوتا رہتا ہے۔

پہلے نماز جمعہ کا اہتمام قریبی مسجد میں ہوتا تھا پھر جامعہ کے لان میں ہونے لگا۔ ایک فیکلٹی کے رکن کے ذمے خطبہ اور امامت سپرد کر دی گئی جن کا تعلق کمپیوٹر سائنسز سے تھا۔ ان کے ایک یادگار خطبے کے چند ارشادات ایسے تھے کہ دوبارہ کان دھرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ باقی باتیں تو خوف فساد خلق سے رہنے دیتے ہیں پر ایک حکم جو انہوں نے دیا وہ آپ کی نذر ہے اور انہی کے الفاظ میں ہے۔

”ہم گناہ گار لوگ ہیں۔ روزانہ کتنے ہی غلط کام کرتے ہیں۔ اس دنیا کی طلب میں ہم سے بہت سے ایسے افعال سرزد ہوتے ہیں جو خدا کی بارگاہ میں ناپسندیدہ ٹھہرتے ہیں۔ آپ سب میں سے بہت سارے دوست شادی شدہ ہیں۔ ان کو مزید احتیاط کرنی چاہیے۔ ان میں سے کئی کام ایسے ہیں، کئی باتیں ایسی ہیں جو آپ کر جاتے ہیں اور جانتے ہیں اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ گناہ تو اپنی جگہ پر آپ کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے۔ آپ جتنی بھی احتیاط کریں پر یہ ممکن ہے کہ آپ جانے انجانے میں اپنا نکاح فسخ کر بیٹھیں اور پھر گناہ کی زندگی گزاریں۔ اس لیے میری آپ سے درخواست ہے اور بڑے ادب سے درخواست ہے کہ مہینے میں کم ازکم ایک دفعہ کسی اچھے عالم کے ہاتھ تجدید نکاح کروا لیا کیجیے“

ہمیں اپنی تین بٹا چار سے جو محبت ہے اس کے صدقے اس دن سے ہم نے کوشش یہی رکھی کہ خطبہ جمعہ کے اوقات میں ہم کہیں ایسی جگہ پناہ گزین رہیں جہاں ان کی دل نشین نصیحتیں ہم تک نہ پہنچیں۔ بیوی کو ماہانہ تجدید نکاح کی منطق کون سمجھائے گا۔ کوئی اور شک دل میں آ گیا تو ہماری جان کی ضمانت کون دے گا۔ بھیا، ہم نکاحے ہی بھلے۔

ایک ہمارے اور دوست ہیں یا تھے جو اب بیرون ملک ہیں اور ان کی نائٹ کلب، پب اور کچھ اور مقامات آہ وفغاں کی تصاویر اور قصے ہم تک پہنچتے رہتے ہیں۔ ایک دفعہ کہیں وہ ایک ایسی محفل میں وارد ہو گئے جہاں ہم کیرن آرم سٹرانگ کی ہسٹری آف گاڈ پر بحث کر رہے تھے۔ خیر، وہاں تو انہوں نے کچھ دبی دبی باتیں کی لیکن باہر نکل کر ہمارے خلاف ایک محاذ کھول لیا گیا۔ ساتھ کچھ اور ناصحین کو لے کر ہمیں سمجھانے آئے کہ دین کی اساس کیا ہے، کون سی کتابیں پڑھنے سے انسان کا ایمان ضائع ہو جاتا ہے اور کون سی باتیں کرنے سے دھرم کے سب تار و پود بھرشٹ ہو جاتے ہیں۔

شنید ہے کہ ان ناصحانہ سیشنز میں سے اکثر میں وہ ایک آدھ چسکی لگا کر تشریف لاتے تھے اس لیے صرف بولتے تھے اور سننے سے پرہیز کرتے تھے۔ ایک دن تنگ آ کر ہم نے پوچھ لیا کہ بھائی، آخری دفعہ نماز کب پڑھی تھی یا روزہ کب رکھا تھا تو باقاعدہ ناراض ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد شہر میں ایک میلہ ہوا جس میں ایک ڈاگ شو بھی تھا جس کی نظامت ان کے سپرد تھی۔ اس دوران انہوں نے ایک مشہور ڈائلاگ کا سٹیکر چھپوا کر اپنے دفتر کے باہر لگا دیا جس پر لکھا تھا
”who let the dogs out“

ہم نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو باز رکھا کہ چونکہ وہ اکثر کمرے میں نہیں ہوتے اس لیے یہ سٹیکر کچھ ستم ظریف سا ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد موصوف کو ایک افئیر میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باعث استعفی دینا پڑا تو یہ سٹیکر بھی اتار دیا گیا۔

انہی دنوں ان کے برادر کلاں نے اسی شہر میں اوپر تلے دو کھڑکی توڑ سیمینار کروائے۔ ایک کا موضوع تھا ”ہالووین اور شیطان کی تاریخ“ اور دوسرے کا ”جنات اور کالا جادو“۔ ڈر کے مارے ہم دونوں سے غیر حاضر رہے۔

ایک اور دوست جو ہمارے زمانہ طالب علمی کے شناسا ہیں۔ کاروبار کی اعلی تعلیم ہمارے ساتھ ہی مکمل کی۔ اب شرعی داڑھی رکھے ہوئے ہیں اور ہمارے ہم جماعتوں کے واٹس ایپ گروپ میں ہمارے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ فی زمانہ وہ صرف دو طرح کے پیغامات گروپ میں بھیجنے کے قائل ہیں۔ یا تو وہ پیغام ایک نیا نویلا باتصویر کثیفہ ہو گا یا پھر کوئی حدیث جس میں دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کے ڈراوے ہوں گے۔ کبھی کبھی تو دونوں پیغام اوپر تلے آ جاتے ہیں جس میں سے ایک ہم ہمیشہ اس ڈر سے ڈیلیٹ کر دیتے ہیں کہ فون اگر اولاد کے ہاتھ لگ گیا تو وہ کیا سوچیں گے۔ آخری دفعہ ان سے بحث میں کچھ حوالے دینے کی جرأت کی تو جواب آیا

”زیادہ مطالعہ انسان کا ایمان تباہ کر دیتا ہے۔ آپ نے پڑھنا ہی ہے تو دینی کتابیں پڑھیں“
یاد رہے کہ ہمارے یہ دوست پاکستان کے اعلی ترین تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں۔

یہ قصہ تو آج کا ہے۔ گھر سے نکلے کہ کچھ خریداری کر لی جائے۔ ایک بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور پہنچے۔ خریداری کے بعد کاؤنٹر پر پہنچ کر سودا دھرا۔ کیشئیر نے ایک نگاہ ہم پر ڈالی جو نگاہ التفات سے کہیں کم تھی اور اپنے آگے دھری سکرین کو گھورنے میں مصروف ہو گئے۔ ایک لحظہ توقف کے بعد جب ان کے استغراق میں تبدیلی نہ آئی تو ہم نے کہا

”بھیا۔ ذرا بل کر دیجیے“
اب ان کی نگاہ میں ایسا قہر تھا کہ پتھر پانی ہو جائے۔ پہلے تو ہمیں اوپر سے نیچے تک دیکھا پھر ارشاد ہوا
”اذان ختم ہونے کا انتظار کریں“

ہم نے کان لگائے تو ساتھ والی مسجد سے مغرب کی اذان کی آواز آ رہی تھی۔ ادھر ادھر دیکھا تو ہر کاؤنٹر پر کام جامد تھا۔ بات چیت البتہ جاری تھی۔ پیکنگ کرنے والے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کیشئیر اور مینیجر آپس میں ملکی معاملات پر تبادلہ خیال کر رہے تھے تاہم گاہکوں سے مکمل بے اعتنائی تھی۔ ہماری طرح اور بھی گاہک پہلو بدلتے تھے پر خاموش تھے۔ ہم نے سوچا کہ کاؤنٹر بند کرنے اور اذان کے باہمی تعلق پر سوال اٹھائیں مگر سر یاد آیا اور چپکے رہے۔ اذان ختم ہوئی تو کاؤنٹر کھول دیے گئے۔ بل بھگتا کر ہم ایک دبے ہوئے استفسار کی تسکین کے لیے کچھ ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ دس منٹ بعد اندازہ ہوا کہ سٹاف میں سے کسی کو نماز ادا کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ سب کام یوں ہی چل رہا تھا جیسے اذان سے پہلے۔ تجسس کو تسکین ملی تو ہم سٹور سے باہر نکل آئے۔

اس قصے سے ہمیں اپنے کیفے کا سابقہ مینیجر یاد آ گیا۔ کئی روز ایسا ہوا کہ ہم کیفے گھستے تو نظام صوت پر عربی نغمے لگے ہوتے۔ ہم اندر مینیجر کے کمرے میں جاتے اور کمپیوٹر پر انگریزی یا اردو گانے لگا دیتے۔ ایک دن پہنچے تو وہی عربی نغمے۔ اندر پہنچ کر کمپیوٹر پر دیکھا تو یو ٹیوب پر کوئی لبنانی عفیفہ نغمہ سرا تھیں اور گانے کی ویڈیو اور بول دونوں ہی کافی ہوش ربا تھے۔ جلدی جلدی کچھ شریفانہ انگریزی گانے ڈھونڈے اور سوچنے لگے کہ عربی نغمے لگانے کی آخر وجہ کیا ہے۔ نہ کیفے کے پروٹوکول میں ایسی کوئی بات نہ کوئی عرب سفارت خانہ ہمارا گاہک۔ جب سوچ سوچ کر کوئی وجہ سمجھ نہ آئی تو مینیجر کو طلب کیا۔

”کیوں صاحب، یہ جب میں آتا ہوں، عربی گانے کیوں لگے ہوتے ہیں“
جواب ملاحظہ فرمائیے

”سر، وہ اذان کے وقت ہم عربی گانے لگا دیتے ہیں۔ اور بعد میں اسے بدلنا یاد نہیں رہتا“

مینیجر کے ساتھ کیا سلوک ہوا وہ ایک الگ داستان ہے۔
سوچتا ہوں آج کے لیے اتنے ہی قصے کافی ہیں۔ ویسے پوچھنا تھا کہ آپ خطبات، دوستوں کے وعظ اور اذان کی آواز سننے کے بعد کیا کرتے ہیں؟

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad