منظور پشتین کی تحریک پر محمود خان اچکزئی کی سیاست کے لہراتے سائے


بلوچستان میں آج کل سب ہی تیرا غم میرا غم الیکشن کا گیت گا رہے ہیں۔ جو دو ہزار اٹھارہ میں جیتے ہیں، انہیں دو ہزار تیرہ میں جیتنے والے کہہ رہے کہ دھاندلی سے جیتے ہو۔ آگے سے وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم دھاندلی سے جیتے تو تم کون سا فری اینڈ فئیر الیکشن میں جیتے تھے۔ سیاستدانوں کا آپسی مذاق تو چل رہا ہے۔ محمود خان اچکزئی سے الیکشن کی ہار برداشت نہیں ہوئی۔ وہ سرگرم ہو چکے ہیں۔

آج کل لندن میں موجود بتائے جاتے ہیں۔ پہلے کابل جا کر بیٹھ گئے تھے۔ سابق افغان صدر صبغت اللہ مجددی کی وفات پر تعزیت کرنے گئے تھے۔ اور ایسے گئے کہ وہیں بیٹھے رہے۔ محمود خان اچکزئی کو ان کے چاہنے والے گران مشر بھی کہتے ہیں۔ ہمارے گران مشر کابل میں قومی خدمت کرنے میں مصروف تھے۔
قسمے بتا تو دوں کہ کیا کر رہے تھے لیکن یہ بالکل معلوم نہیں کہ بتانا بھی ہے کہ نہیں۔

چلیں آپ ایسا کریں کہ پی کے میپ کا کوئی کارکن دیکھیں اس کے سامنے پختون ملی مشر اشرف غنی بولیں۔ اگر وہ آپ کو پڑ گیا تو اس کا مطلب ہو گا اسے بھی پتہ ہے۔ اگر اس نے چپ کر کے سن لیا اور اگلے دن لال گالوں کے ساتھ پھر رہا ہوا۔ تو سمجھ جائیں کہ یہ کہہ کر اپنی پارٹی کے کسی سمجھدار لیڈر سے لال کرا بیٹھا ہے۔

فاٹا کے بہت سارے حقیقی مسائل لے کر منظور پشتین اٹھا۔ پی ٹی ایم بنی اس کو ہر پختون علاقے میں پذیرائی ملی۔ سب سے زیادہ غیر متوقع سپورٹ اسے بلوچستان کی پشتون بیلٹ سے ملی۔ پی کے میپ کے کارکنان نے پی ٹی ایم کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔

ویسے کہتے ہیں کہ محمود خان اچکزئی سے براہ راست ملاقاتوں میں پی ٹی ایم والے کچھ مایوس ہی ہوئے تھے۔ ان کا خیال اس وقت یہ تھا انہیں پی کے میپ کی قیادت اپنے لیے سیاسی خطرہ سمجھ رہی ہے۔

اب منظور کی تحریک پر پی کے میپ کا اثر بہت بڑھ چکا ہے۔ ہم اپنے گران مشر کو جب کابل میں طویل قیام کرتے دیکھتے ہیں تو پی ٹی ایم پر پی کے میپ کے اثر کی سمجھ آتی ہے۔ یہ اثر یا بظاہر دکھائی دینے والی سپورٹ کابل میں فائدہ مند ہے۔ تو گران مشر وہاں فائدہ کس کو پہنچانے گئے۔

فائدے کی بات سے کچھ اور نہ سوچیں افغانستان میں بھی صدارتی الیکشن ہونے والے ہیں۔ اشرف غنی بھی امیدوار ہیں۔ کوئی ہمارا بھی پیارا ہو گا، ہو سکتا ہے امیدوار بنے ہو سکتا ہے دوحہ مذاکرات میں ہی کام آ جائے اور رہ جائے۔

پی ٹی ایم کے لیے کابل میں بہت ہمدردی پائی جاتی ہے۔ اس پر پی کے میپ کا اثر ہے۔ گران مشر کابل میں۔ کچھ اچھا ہی کر رہے ہوں گے ۔

بعض لاہوری میڈیا مجاہدین کا دل چاہے تو یہی وقت ہے محمود خان پر غداری کے پرانے الزامات کو تازہ کریں۔ اونچی لے میں غدار غدار گائیں۔ شاید کسی کو کوئی شٹ اپ بولے تو ہمارے دل کو ہی ٹھنڈ پڑے۔

میرے خیال میں محمود خان کی ان کی پی کی میپ کی تعریف زیادہ ہی ہو گئی۔ جو اپن کر بھی نہیں رہا تھا تو پی ٹی ایم پر واپس آتے ہیں۔
فاٹا کے مسائل حقیقی تھے۔ چیک پوسٹوں پر تلاشی کا مسئلہ واقعی تھا۔ بارودی سرنگوں کا مسئلہ واقعی ہے۔ آئی ڈی پیز کو ادائگیوں کا مسئلہ واقعی برقرار ہے۔ مکانوں دکانوں کی پیمنٹ نہیں ہوئی۔ لوگوں میں اضطراب تھا۔

یہ باتیں کرتا منظور پشتین اٹھا تھا۔ پس منظر اس کا قبائلی تھا۔ جہاں سیدھی بات کی جاتی ہے۔ اسی سے کی جاتی ہے جس کرنی ہو۔ کوئی اور درمیان میں کودے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ ”تہ سوک اے“، اخے تم کون ہو، اپنا کام کرو۔

فاٹا میں آپریشن فوج نے کیا تھا۔ منظور پشتین نے مطالبات بھی اسی سے کیے۔ پہلے نہیں سنا گیا جب اس نے۔ جنرل کرنل والا گیت سٹارٹ کیا تو توجہ کی گئی۔ فاٹا والوں کی سوچ کا اپنا انداز ہے۔ وہ فوری سمجھ گئے کہ کیا کہنا ہے کسے کہنا ہے۔ کسے چھیڑنا ہے کون درد کی دوا دے گا۔ کیوں دے گا، جب تک نہیں دے گا تب تک پھر کون سا گیت گانا ہے۔

پی ٹی ایم کے ساتھ ڈیل کرتے اداروں نے بلکہ چھوڑیں نام ہی لکھتے ہیں فوج نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا۔ کمال برداشت سے پی ٹی ایم کو سنا گیا۔ انتظامی حربے استعمال ہوئے لیکن قابل برداشت ہی رہے۔

پشاور میں کل پی ٹی ایم کا جلسہ ہوا۔ پہلی بار بے موقع بے تکی سیاسی تقریریں سننے میں آئیں۔ منظور پشتین کی اپنی تقریر بھی ہٹ کر تھی۔ ہمیں مارو گے ہم ماریں گے قسم کی باتیں بھی کہہ دی گئیں۔ اب بندہ کیا کہے گران مشر کے چاہنے والوں سے کہ اپنے لیے عدم تشدد اور فاٹا والوں کے لیے مارو گے تو ماریں گے کے مشورے۔ یہ اور کتنا ماریں اور کیوں مریں، ابھی کوئی کسر باقی ہے کیا؟

پی ٹی ایم پر پی کے میپ کا اثر بڑھ گیا۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے پی کے میپ ہماری پاکستان کی اپنی پارٹی ہے۔ اس کا جتنا زور ہے لگائے جہاں تک جا سکتی جائے۔ پورے پاکستان سے جیت جائے۔ جو اس کے نعرے ہیں وہ ان نعروں کے ساتھ جنوبی پشتون خواہ کی پارٹی ہی رہے گی۔

یہ نعرے جب پی ٹی ایم والے لگائیں گے تو گران مشر محمود خان کے سیاسی اثر میں تو اضافہ ہو گا۔ کابل میں اس کا ہمیں فائدہ بھی ہو جائے گا۔ پر فاٹا وہیں کا وہیں کھڑا رہ جائے گا اور بدقسمتی سے ویسے کا ویسا ہی۔

مسائل موجود تھے اصلی تھے تو تحریک اٹھی۔ پی ٹی ایم ختم ہو گئی راستہ چھوڑ گئی مسائل موجود رہے تو زیادہ بڑی تحریک اٹھے گی۔ منظور پشتین نہیں ہو گا کوئی اور ہو گا۔ سر جی مسائل کو ایڈریس کریں یہ لر اور بر تو چلتا رہے گا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi