ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھیوں کی فیملی سے غنڈہ گردی اور ریاست کی لاچاری


پاکستان آج سے نہیں شروع سے ہی بے شمار مسائل کا شکار رہا ہے۔ وہ کون سی نعمت ہے جو قدرت نے اس ملک پر نچھاور نہیں کی۔ با ہمت جفا کش لوگ، سونا اُگلنے والی زمین، قدرتی خزانوں جھرنوں اور جھیلوں سے لدے سرسبز پہاڑ، پانیوں سے بھرے دریا، وسیع و بے کراں سمندر، چار وں موسم، بہترین محل وقوع، مگر ان تمام نعمتوں کے باوجود اور اپنے قیام کے ستر سال بعد بھی پاکستان اقوام عالم میں اپنے لیے کوئی معزز مقام حاصل نہیں کر سکا تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟

وجوہات تو بہت ساری ہیں مگر ان وجوہات کی جڑ ایک ہی ہے جس سے اُگی ہوئی خار دار فصل نے اب عام آدمی کا چلنا پھرنا بھی دشوار بنا دیا ہے۔ وہ جڑ ہے دن بہ دن بڑھتی ہوئی لا قانونیت۔ کتاب مین لکھا ہوا قانون کچھ اور ہے اور بر سر زمیں اس سے سو فی صد اُلٹ وہ قانون ہے جو بروئے کار ہے۔ بہت قلیل سی وہ اشرافیہ ہے جس کا تحفظ کتاب والا قانون کرتا ہے۔ باقی ننانوے فی صد وہ عوام ہیں جنہیں یہ قانون تحفظ دینے میں مکمل ناکام ہو چکا ہے۔

میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ تناسب لکھا ہے۔ ہر حال میں محفوظ و مامون جو اشرافیہ ہے وہ ایک فی صد ہی بنتی ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی انسان ہے اگر اس کا معاملہ اپنے سے زیادہ طاقتور سے پڑتا ہے تو قانون کوئی شرم محسوس کیے بغیر طاقتور کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی ریاست میں طلوع ہونے والا ہر سورج ایسے ہزاروں واقعات کا چشم دید گواہ بن کر غروب ہوتا ہے۔ عموماً سمجھا جاتا ہے کہ طاقت کے تین ہی نشان ہیں، جاگیر دار، سرمایہ دار، سول اور وردی والی اعلیٰ درجے کی بیوروکریسی۔

مگر گزشتہ چالیس سالوں سے طاقت کا ایک اور عنصر بھی اس میں شامل ہو چکا ہے جو ان تینوں کو بھی للکار رہا ہے اور وہ ہے منظم مذہبی تنظیموں کے سائے تلے پروان چڑھتی ہوئی بے مہار طاقت۔ یہ وہ طاقت ہے جس نے لا قانونیت کی ایک نئی تاریخ مرتب کی ہے۔ اس کھُلی ننگی اور بے رحم طاقت نے نہ صرف ریاست کے وجود پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں بلکہ دہشت اور خوف کا وہ ماحول تخلیق کر دیا ہے جس کے سامنے کمزور تو کمزور اچھا خاصا مضبوط شہری بھی بے بس ہو چکا ہے۔

اب ہر شہری کے دماغ میں سوالات اُٹھ رہے ہیں جس کے جوابات ریاست کے ذمے ہیں۔ ان سوالات سے پہلو تہی معاملات کو مزید پے چیدہ بنا رہی ہے۔ لیجیے شب و روز رونما ہونے والے واقعات میں سے ایک واقعہ سن لیجیے پھر ہم وہ سوالات اُٹھائیں گے نہیں بلکہ دوہرائیں گے۔ محترم عمار کاظمی ایک اخبار نویس ہیں پینٹر ہیں سوشل میڈیا اکٹوسٹ ہیں، مجھ جیسے اخبار نویس اُن کے لکھے ہوئے لفظوں سے سیکھتے ہیں۔ اُن کی بیگم جو پاکستان آرمی کے ہیرو برگیڈیر ٹی ایم کی سگی بھانجی ہیں اور جوہر ٹاون لاہور کی ایک اعلیٰ درجے کی اکیڈمی میں پڑھاتی ہیں، اس اکیڈمی جس کا نام وژن اکیڈمی ہے ان کا چھوٹا بیٹا بھی وہاں ہی پڑھتا ہے۔

عمار کاظمی صاحب کی روزنامہ مشرق میں شائع شدہ تحریر بعنوان “وزیر اعلی، وزیر اعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف سے سوال” کے مطابق 29 مارچ 2019 کی سہ پہر پانچ بجے کے قریب اُن کی بیگم کو اکیڈمی سے گھبرائے ہوئے لہجے میں ایک فون آتا ہے۔ آپ کے بچے سے پانی کی بوتل ایک بچی کو لگی ہے اور وہ بچی طاہر القادری صاحب کے اسسٹنٹ جواد صاحب کی بیٹی ہے۔ وہ اکیڈمی میں گارڈز کے ساتھ آتی ہے اور وہ کہہ کر گئی ہے کہ میں تم لوگوں کو دیکھ لوں گی، ممکن ہے اُن کے گارڈ آپ کے بچے کو کوئی نقصان پہنچائیں اس لیے جلدی سے آ کر آپ ایک معافی نامہ لکھ کر دے دیں۔

عمار صاحب جلدی سے اپنے بڑے بیٹے اور بیگم کے ساتھ وہاں پہنچتے ہیں۔ راستے میں وہ اپنی بیگم سے کہتے ہیں کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں آپ کوئی بات چیت کیے بغیر سیدھے سبھاؤ معافی مانگ لینا اگر وہ کہیں لکھ کر تو لکھ کر دے دینا۔ معاملہ چونکہ بچی کا ہے اس لیے میں باہر گاڑی میں ہی موجود رہوں گا اندر نہیں جاؤں گا کہ یہ تاثر نہ جائے کہ مرد آئے ہیں۔ اُن کی بیگم اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ ابھی اندر داخل ہی ہوئیں تھیں کہ باہر دو پک اپ گاڑیاں آ کر رکیں

بچی اس کے والد جواد صاحب ان کے بیٹے بیگم اور دس سے زیادہ پولیس اور سول گارڈ بڑے جارحانہ انداز مین اندر کو لپکے۔ یہ دیکھ کر عمار صاحب بھی فکر مند ہو کر اندر داخل ہوئے۔ معلوم ہوا کہ بچے ایک دوسرے کی طرف پانی کی چھوٹی بوتل اُچھال رہے تھے اتنے میں یہ بچی سامنے آ گئی اور بوتل اسے جا ٹکرائی۔ جب بچی کے باپ نے پوچھا کہ کیا اس نے جان بوجھ کر بوتل تمہیں ماری ہے تو اس نے کہا نہیں اس نے جان بوجھ کر نہیں ماری۔

جس پر عمار صاحب اور اُن کی بیگم نے کہا کہ ہم اپنے بچے کے اس فعل پر آپ سے معافی طلب کرتے ہیں، جواب میں جواد صاحب کے بیٹے نے کہا کہ ہم تمہیں معافی دینے نہیں بلکہ تمہیں سبق سکھانے آئے ہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے محافظوں سمیت ان پر حملہ کر دیا۔ دو چھوٹے بچوں، ایک عورت اور ایک باپ کو بے رحم طریقے سے یوں سبق سکھایا گیا۔ اسی دوران عمار صاحب کی بیگم اپنے بچوں کو کسی طرح بچا کر ایک کمرے میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گئیں تو منہاج القران کے گارڈز دروازوں کو ٹھڈے مار کر انہیں توڑتے کی کوشش کرتے رہے۔

جب وہ تسلی کر کے وہانں سے رخصت ہوئے تو یہ خاندان جیسے تیسے کر کے تھانے پہنچا کہ عام شہری جائے بھی تو جائے کہاں؟ اب نئے پاکستان کی پولیس کی سنیے انہوں نے کوئی ایف آ ئی آر درج نہیں کی اُلٹا وقت ضائع کرتے رہے اور پھر کہا کہ ڈی ایس پی صاحب خود موقع پر پہنچ کر حالات کا جائزہ لیں گے۔ اسی دوران حملہ آور خاندان بھی نہایت ڈھٹائی کے ساتھ وہاں آن پہنچا جیسا کہ اُن کے ساتھ کوئی ظلم ہو گیا ہو۔ پولیس کے ڈی ایس پی نے ایف آئی آر درج کیے بغیر اُلٹا متاثرہ خاندان پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا، کہ آپ پرچہ درج کروائیں گے تو پھر یہ لوگ بھی پرچہ درج کروائیں گے، اس صورت میں آپ کے بچوں کا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔ یوں اس متاثرہ خاندان کی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔

آپ نے عمار کاظمی صاحب کا تحریر کردہ واقعہ پڑھا ہے۔ اس پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ اس شریف آدمی کی ڈاکٹر طاہر القادری صاحب سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے اور ہماری نظر سے ابھی تک منہاج القرآن یا جواد کی طرف سے کوئی تردید نہیں گزری ہے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب سے سوال یہ ہے کہ آپ کے ادارے میں اور دوسرے طالبانی قسم کے جنگجو اداروں میں فرق کیا ہے؟ کیا منہاج القرآن کی یہی تعلیم و تربیت ہے جس کا مظاہرہ آپ کے اسسٹنٹ جواد نے کیا ہے؟ جب یہ ثابت ہو گیا کہ بوتل جان بوجھ کر نہیں اُچھالی گئی تھی اس کے باوجود ان شریف شہریوں نے معافی طلب کی تو انہیں معاف کیوں نہیں کیا گیا؟ آپ اور آپ کے ادارے کے قول و فعل میں اتنا تضاد کیوں ہے؟

آپ تو امن و آشتی عفو و در گزر کا درس دینے والوں میں سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہی ہے وہ عفو و درگزر؟ آپ سادات پرست ہونے کا دعویٰ بھی تو کرتے ہیں، جب وہ سید زادی ہاتھ جوڑ جوڑ کر آپ کے مسلح ڈشکروں کے سامنے معافی مانگ رہی تھی تو اسے سید زادی سمجھ کر ہی معاف کیوں نہ کیا گیا؟ یہی ہے آپ کا عشق رسولﷺ اور اولاد رسول ﷺ سے محبت کا اصلی چہرہ؟ اور رہی بات ریاست کی تو جانتے ہوئے بھی کہ یہاں سوال اٹھانا سر پھوڑنے جیسا ہی ہے مگر کریں بھی تو کیا کریں جائیں بھی تو جائیں کہاں؟

کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ایک ادارے کے سربراہ کے اسسٹنٹ کو چھ چھ پولیس گارڈز دینے کا کون سا قانون اجازت دیتا ہے؟ جب ایک شہری اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی شکایت درج کروانے تھانے جاتا ہے تو پولیس کے اعلیٰ افسر دوسری طرف کا اثر و رسوخ دیکھ کر ایک مصلح کا روپ کیوں دھار لیتے ہیں؟ اس حالیہ واقعہ میں جب کہ اسے پرنٹ میڈیا میں شائع کیا جا رہا ہے، ریاست کے کانوں پر کوئی جوں رینگے گی اور اس کا کوئی نوٹس لیا جائے گا؟

اس پولیس افسر سے اتنا پوچھنے کی زحمت گوارا کی جائے گی کہ دوسری طرف سے وہ جس پرچے کی دھمکی دے رہا تھا وہ پرچہ کون سی بنیاد پر درج ہو سکتا تھا؟ اگر ہو سکتا تھا تو اس نے درج کیوں نہ کیا؟ اور مسلح محافظوں کے ساتھ ایک اکیڈمی میں جاکر غنڈہ گردی کر کے دہشت پھیلانے کے جرم پر اُس نے ایف آئی درج کیوں نہ کی؟ کیا ریاست پاکستان ایسے واقعات پر چپ سادھ کر عوام کویہی پیغام نہیں دے رہی کہ کوئی طاقتور تم پر ظلم کرے تو خاموشی ہی تمہارے حق میں بہتر ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).