یقین کیجئے! مرغی گندے انڈوں پر بیٹھی ہے


میرے دیس کے غریب ہم وطنوں کو ”چوالیسواں“ حکومتی وزیراور ”حکومت عمرانی“ کو سولہواں ”مشرفی وزیر“ مبارک ہو۔ موجودہ حکومت کا ہر قدم ماضی میں دکھائے گئے ”خوابوں“ کے برعکس ہے۔ چور چور اور تبدیلی کے نعروں کو جب مدنظر رکھتا ہوں توکہیں کہیں تبدیلی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر ماضی میں ”چالیس چور“ ہوا کرتے تھے اور اب تبدیلی چالیس کے ہندسے میں ضرور آئی ہے۔ ماضی میں قاضی انصاف کرتے تھے پھر تبدیلی کا شکار ”قاضی“ ڈیم بنانے لگ پڑے۔

ایک وقت تھا جب ایم ایم عالم ہیرو تھا پر تبدیلی زدہ حکومت میں جانباز پائیلٹ پر ”بلی“ سبقت لے گئی۔ ایک وہ زمانہ جب ایدھی مرحوم جیسی شخصیات کو قومی اعزاز دیے جاتے تھے اور ایک یہ زمانہ۔ وہ ”موٹے انکل“۔ اس تقسیم اعزازات کی تقریب کے بعدکسی چینل پر خبر چل رہی تھی کہ امتیاز نامی لوگ اپنا نام تبدیل کرنے کا سوچ رہے ہیں کیونکہ امتیاز ان کی چھیڑ بن گئی ہے۔ (خیر سانو کی)

گزرے وقتوں میں ”کوتوال“ کبھی کبھار ”چوروں“ کی سرزنش کرتا دکھائی دیتا تھا پر اب دونوں جمہوریت کے ”ایک صفحے“ پر ہیں ویسے بھی جمہوریت کا فروغ ”بند کمروں“ اور رات کے ”پچھلے پہر“ ہو رہا ہوتا ہے جب غریب عوام بالخصوص میرے جیسے معصوم لوگ گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہے ہوتے ہیں۔ (محاورے کی حد تک لیا جائے کیونکہ ملک خداداد میں گدھا بھی اب ایک مقام رکھتا ہے ) ۔

”تبدیلی زدہ“ وزراء ’وزیر کم اور لکی ایرانی سرکس کے فنکار زیادہ لگتے ہیں کوئی موٹر سائیکل پر گلیوں میں گھومتا نظر آتا ہے تو کوئی بلٹ پروف جیکٹ پہن کر تماشا کرتے ہوے۔ (اس وقت اردو ادب میں لکھی ہوئی ایک خوبصورت کہانی ”بہروپیا“ ذہن میں آ رہی ہے ) ۔

لاہور کی ایک ”سٹیج اداکارہ“ اور موجودہ حکومت ایک ہی مشن پر گامزن ہیں اس کا مشن ”بڈھے“ مکا دیو اور ”تبدیلی زدہ“ حکومت کا مشن ”غریب“ مکا دیو۔ (موجودہ حکومت مجھے کچھ کچھ ”سٹیج اداکارہ“ کے coactor کی طرح لگ رہی ہے آپ لوگوں کو میری اس لائن پر اختلاف بھی ہو سکتا ہے ) کیونکہ غریب مرے گا تو ترقی ہو گی نا۔ غریب مرے گا تو مہنگائی ختم ہو گی نا۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ جمہوریت کی خاطر الیکشن مہم میں مرے گا کون؟ جمہوریت کی خاطرووٹ کون دے گا؟ (میں گھنٹوں بیٹھا یہ سوچتا رہا بلکہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو گیاپر کوئی حل نہ دکھائی دیا۔ اس لیے یہ جمہوریت کے ”آئن سٹائینوں“ پر چھوڑتا ہوں۔ )

میں بھی نا اب یاد آیا بات شروع ہوئی تھی کہ مرغی ”گندے انڈوں“ پہ بیٹھی ہے۔ اب جو لوگ تو میری طرح pet lover ہیں وہ تو سمجھ گئے ہوں گئے پر جن لوگوں نے ایسا کوئی شوق پال نہیں رکھا ان کہ لیے کچھ سطور لکھ رہا ہوں۔

کوشش کی جاتی ہے کہ کہ اچھے اور تازہ Fertile انڈے لیے جائیں پھر ایک اچھی نسل کی کرک مرغی (Broody Henانگلش میڈیمز کے لیے ) تلاش کی جاتی ہے۔ پھر قدرے شام کے وقت مطلب ”اندھیرے“ میں انڈوں کو بہت ”سلیقے“ سے رکھ کر مرغی کو اس پر بٹھادیا جاتا ہے۔ (اس پر زیادہ غور فرمائیں ”بٹھا دیا جاتا ہے“ )

لیں جناب اگلے دن سے مرغی کی آؤ بھگت شروع ہو جاتی ہے ساری کھانے پینے کی چیزیں اس کے آس پاس رکھی جاتی ہیں تا کہ مرغی کو تکلیف نہ ہو ’کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ مرغی پورے جاہ و جلال کے ساتھ انڈوں پر بیٹھی رہتی ہے میرے جیسے شوخے pictures بنا کرWhatsapp status بھی لگاتے ہیں۔ کچھ ہی دنوں بعد مرغی کو احساس ہو جاتا ہے کہ انڈے گندے ہو گئے یا چوزے کی ”Development“ شروع ہو گئی پر مرغی بہت ”چالاک“ ہوتی ہے وہ اس بارے کسی کو خبر نہیں ہونے دیتی۔ اور پورے اکیس دن گندے انڈوں پر ویسے ہی بیٹھی رہتی ہے جیسے انڈوں میں سے چوزے نکلنے ہوں۔ پورے جوش کے ساتھ دن میں دو بار اٹھ کر کٹ کٹ کٹاک کرتے ہوئے دانہ پانی چگتی (غور طلب لفظ ”چگتی ہے“ ) ہے۔ اور بے چارے کسان کو بائیسویں روز پتہ چلتا ہے کہ مرغی تو ”گندے انڈوں“ پر بیٹھی تھی۔

یقین کیجئے! مرغی گندے انڈوں پر بیٹھی ہے۔

(نوٹ:جن لوگوں کو ابھی بھی سمجھ نہیں آئی کہ مرغی ”گندے انڈوں“ پر بیٹھی ہے وہ کوئی اچھا سا کارٹون چینل آن کریں یا پانچ مرغیاں ایک شناختی کارڈ پرلینے چلے جائیں یا پھر ایک نجی چینل کے دو عدد ”صابر و شاکر“ اینکر پرسنز کو ڈنر پر مدعو کریں۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).