حسیناؤں کا شہر – مکمل کالم


جس جہاز میں ہم مسقط سے میڈرڈ کے لیے روانہ ہوئے وہ ترک ہوائی کمپنی پیگاسس کا تھا، یہ ایک سستی ائر لائن ہے جو استنبول کے صبیحہ گوکچن ائر پورٹ سے ہوتی ہوئی مختلف ممالک میں جاتی ہے۔ سستی یوں ہے کہ اس میں آپ کو سامان کے اضافی پیسے دینے پڑتے ہیں اور دوران پرواز کھانا بھی خرید کر کھانا پڑتا ہے حتیٰ کہ پانی کا ایک گلاس بھی دو یورو میں دیا جاتا ہے۔ جہاز کی نشستیں ایسی ہیں کہ بندہ انہیں پیچھے بھی نہیں کر سکتا، ہمیں خوش قسمتی سے ’لیگ سپیس‘ والی نشست مل گئی تو کچھ کام چل گیا ورنہ اگلے دو دن کمر سیدھی کرنے میں لگ جاتے۔ میڈرڈ کے ہوائی اڈے کی بھول بھلیاں بہت ہیں، ایک ٹرمینل سے دوسرے ٹرمینل تک جانے کے لیے باہر نکل کر بس میں بیٹھنا پڑتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے بندہ کسی دوسرے ہوائی اڈے میں جا رہا ہو۔

میڈرڈ سے ہم نے ایبیزا کی پرواز پکڑنی تھی جو ہمیں پچاس منٹ میں ایبیزا لے گئی۔ یہ سپین کا ایک چھوٹا سا شہر ہے جو ایک جزیرے پر آباد ہے، چھوٹے شہر سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ یورپ کا کوئی قصبہ ہے، یہاں دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں اور یہ شہر اپنے نائٹ کلبوں، بوٹ پارٹیز اور خوبصورت ساحلوں کی وجہ سے مشہور ہے یوں اسے اسے آپ ’پارٹی سٹی‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔

جس ہوٹل میں ہماری بکنگ تھی وہ ساحل سمندر سے دس منٹ کی واک پر تھا اور یہی اس کی واحد خصوصیت تھی، بکنگ کلرک نے ہمیں جو کمرہ دیا اس میں یا تو ہم سما سکتے تھے یا ہمارا سامان۔ ویسے بھی برادرم اجمل شاہ دین، جو ایک شاندار ہمسفر ہیں، تین سوٹ کیس ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ میں نے لاہور میں ان سے پوچھا تھا کہ ان سوٹ کیسوں میں کیا ہے تو انہوں گردن اکڑا کر جواب دیا تھا کہ ان میں تھری پیس سوٹ، جیکٹ اور جوتوں سمیت ہر وہ چیز ہے جس کی سفر میں ضرورت پڑ سکتی ہے۔ میں نے عرض کی حضور والا سپین کے جس شہر میں ہم جا رہے وہاں تو پچھلے ایک سو سال میں کسی نے سوٹ نہیں پہنا اور رہی بات جیکٹ کی تو ایبیزا میں اگر آپ نے جیکٹ پہنی تو لوگ آپ کو ولی اللہ سمجھیں گے۔ اس بات کے جواب میں انہوں نے ہمیشہ کی طرح مجھ پر وہی الزام لگایا کہ میں ہر کام میں کیڑے ہی نکالتا ہوں، بات چونکہ سچی تھی اس لیے میں چپ ہو گیا۔ ویسے بھی انہوں نے میرا لیپ ٹاپ اپنے ایک سوٹ کیس میں رکھ لیا تھا، اگر وہ نہ رکھتے تو مجھے پورے سفر کے دوران بغل میں دبا کر پھرنا پڑتا۔

کمرا دیکھ کر ہمیں شدید مایوسی ہوئی، بکنگ کلرک سے رابطہ کیا تو اس نے مخصوص یورپی انداز میں کندھے اچکا کر کہا کہ وہ محض ایک ملازم ہے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ ہم نے یہ کمرہ چونکہ بکنگ ڈاٹ کام کے توسط سے لیا تھا تو ان سے رابطہ کیا اور ہوٹل کی خرابیوں کی پوری فہرست انہیں گنوا دی۔ اگلی صبح ہوٹل کی منیجر سے ملاقات ہوئی، یہ پچاس برس کی ایک سخت گیر عورت تھی، بکنگ ڈاٹ کام پر شکایت کی وجہ سے اس کا موڈ سخت خراب تھا، ہمیں دیکھ کر پہلے تو اس نے کسی قسم کی مدد کرنے سے انکار کر دیا، پھر میں نے اس نیک بی بی کو سمجھایا کہ کیوں ایک کمرے کے پیچھے اپنی عاقبت خراب کرتی ہو، یہ دنیا فانی ہے، خالی ہاتھ آئے تھے خالی ہاتھ جائیں گے، میں تمہارا ماتھا دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ تم ابھی غیر شادی شدہ ہو اور حال ہی میں تمہارا اپنے بوائے فرینڈ سے بریک ہوا ہے۔

یہ سن کر وہ نیک پروین سکتے میں آ گئی، اس نے فوراً اپنے کلرک کوا سپینش میں کچھ کہا اور پھر خود میرے ہاتھ چومنے کے لیے آگے بڑھی مگر میں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ہماری فقہ میں ہاتھ چومنے کی اجازت نہیں۔ نہ جانے اسے بات سمجھ آئی یا نہیں، ہمیں بہرحال ایک دوسرا کمرہ دے دیا گیا جو اس ہوٹل کے لحاظ سے پریزیڈنشل سویٹ ہی تھا۔

یوں تو یورپ کے زیادہ تر شہر ایک جیسے لگتے ہیں مگر ایبیزا کی بات ہی اور ہے۔ یہ جزیرہ سیاحوں کی جنت ہے، اس بات کا اندازہ فلائٹس کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے جو یہاں ہر دس پندرہ منٹ بعد اترتی ہیں۔ جب ہم ہوائی اڈے سے باہر نکلے تو ٹیکسی لینے کے لیے قطار اتنی لمبی تھی کہ ہمیں آدھ گھنٹہ انتظار کرنا پڑا حالانکہ ہر ایک منٹ میں دو ٹیکسیاں آ رہی تھیں۔ ایبیزا میں خواتین لباس پہننے کو اچھا نہیں سمجھتیں، ویسے تو گرمیوں میں یورپ کی خواتین لباس کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی لبرل ہوجاتی ہیں مگر ایبیزا تو اس معاملے میں دو ہاتھ اور آگے ہے۔ یہاں جو عورت آپ کو مکمل قمیض پہنے نظر آئے تو سمجھیں کہ ایبیزا کے لحاظ سے اس نے شٹل کاک برقع پہنا ہوا ہے۔

برادرم اجمل شاہ دین تو انہیں دیکھ کر لاحول ہی پڑھتے رہے، میں نے کہا حضرت اگر آپ نے شیطان کو ہی بھگاتے رہنا ہے تو ایبیزا کیا لینے آئے ہیں، وہیں عمان میں مصلیٰ بچھا کر بیٹھ جاتے۔ ایبیزا کچھ کچھ وینس سے ملتا جلتا ہے، یہاں بھی شہر کے ایک کنا رے سے دوسرے کنارے تک جانے کے لیے کشتی لی جا سکتی ہے، رات کو ہم نے اس کشتی کا ٹکٹ لیا جو ہمیں بیس منٹ میں ایبیزا ٹاؤن لے گئی۔ یہ جگہ شہر کا مرکز ہے، یہاں سمندر کے کنارے لا تعداد کیفے، ریستوران اور کافی شاپس ہیں۔ ان کے پیچھے چھوٹی چھوٹی پتھریلی گلیاں ہیں۔ ان گلیوں میں بھی کھانے پینے کی دکانیں ہیں، یہ گلیاں کہیں کہیں اندرون شہر کی طرح تنگ ہوجاتی ہیں مگر لوگوں نے انہیں بے حد خوبصورت بنا رکھا ہے، کہیں پر بھی بے ترتیبی نہیں۔ ان گلیوں میں دکانیں بھی ہیں اور کیفے بھی، آپ یہاں صرف واک کر کے جا سکتے ہیں، ماحول ایسا رومانوی ہے کہ بندہ کئی گھنٹے بھی پھرتا رہے تو دل نہیں بھرتا۔

یورپ کے شہروں میں عموماً ویک اینڈ پر رونق ہوتی ہے، ایبیزا مگر ایک استثنا ہے۔ اس وقت رات کے دو بجے ہیں، منگل کی صبح شروع ہو چکی ہے مگر حال یہ ہے کہ کھوے سے کھوا چھل رہا ہے، نائٹ کلب، شراب خانے، ریستوران اور کیفے اور لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں ایبیزا کے نائٹ کلب پوری دنیا میں مشہور ہیں، ان کی مانگ کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ان کلبوں میں خواتین سے بھی داخلہ فیس لی جاتی ہے جو چالیس سے ستر یورو تک ہے، باقی دنیا میں اس کا رواج کم ہے، اکثر کلب خواتین کو مفت داخلہ دیتے ہیں۔ ہم سڑک کے کنارے کھڑے سوچ ہی رہے تھے کہ ڈنر کہاں کیا جائے کہ سامنے کیفے میں کام کرنے والی دوشیزہ نے ہمیں دیکھ لیا، کہنے لگی کہ آپ لوگ اتنا کیوں سوچتے ہیں، ڈنر ہی کرنا ہے تو یہاں کر لیں، ہم نے اس کا دل توڑنا مناسب نہیں سمجھا اور وہیں ایک میز سنبھال لی، اس کے بعد وہ ہمیں ایک حبشی ویٹر کے حوالے کر کے غائب ہو گئی۔

دنیا کے بہت کم شہر ایسے ہیں جو اپنی الگ انفرادیت رکھتے ہیں، جیسے لاس ویگاس اور وینس۔ اب میں نے ایبیزا کو بھی اسی فہرست میں شامل کر لیا ہے، اس چھوٹے سے جزیرے کی دنیا ہی الگ ہے۔ جہاز کے لینڈ کرتے ہی آپ کو احساس ہوجاتا ہے کہ آپ کسی ایسے شہر میں داخل ہور ہے ہیں جو ہالی وڈ کی فلموں میں نظر آتا ہے۔ ایبیزا کے سمندر کا پانی گہرے نیلے رنگ کا ہے، ساحل سمندر پر کوڑے کے ڈھیر نہیں ہیں، شہری انتظامیہ کی گاڑی ساحل سے کچرا اٹھانے کے لیے چکر لگاتی رہتی ہے۔ سمندر میں نکل کر ذرا سا آگے جائیں تو چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں آپ کے راستے میں آجاتی ہیں، سمند ر کا پانی ان پہاڑیوں سے ٹکرا کر ایسا دلفریب نظارہ پیدا کرتا ہے کہ بندہ مبہوت ہوجاتا ہے۔

ایبیزا کی خاص بات وہ دعوتیں ہیں جو بحری کشتیوں میں برپا کی جاتی ہیں، انہیں بوٹ پارٹیز کہا جاتا ہے، یہاں درجنوں کمپنیاں سیاحوں کو سیر کروانے اور ان کے لیے بوٹ پارٹیز کا اہتمام کرنے پر مامور ہیں، ان کی معیشت اسی سیاحت پر کھڑی ہے اور یوں یہ چھوٹا سا جزیرہ روزانہ کروڑوں یورو کماتا ہے۔ ایسے کئی شہر ہمارے ملک میں بھی ہیں مگر ہم وہاں سے بدنامی ہی کماتے ہیں۔ کسی شہر سے مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں تو کہیں لوگ بس سے اتار شناختی کارڈ دیکھ کر گولی مار دیتے ہیں۔ ایسے شہروں کے ساحل چاہے کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں اور ان کے سمندر کا رنگ کتنا ہی گہرا نیلا کیوں نہ، وہاں بین الاقوامی سیاح تو کیا مقامی سیاح بھی نہیں جاتا۔

اس شہر خوباں میں تین دن گزارنے کے بعد ہماری اگلی منزل بارسلونا ہے، بے شک ایبیزا حسیناؤں کا شہر ہے مگر ہمارا دل لاہور میں ہی اٹکا ہے۔ جان اور جاناں دونوں لاہور میں ہیں۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments