طالبِ علم مضمون لکھنے کے بجائے آن لائن سروسز سے خرید رہے ہیں


طالبِ علم امتحانات میں

رائل کالج آف نرسنگ بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے کہ کچھ نرسیں مناسب تعلیمی معیار کے بغیر اپنی تعلیم مکمل کر رہی ہیں۔

یہ کہانی بی بی سی ورلڈ کے پروگرام بزنس ڈیلی میں ’مضمون کے دھوکے بازوں‘ کے نام سے نشر کی جانے والی قسط میں پیش کی گئی تھی۔ اِس پروگرام کی میزبانی ایڈ بٹلر نے جبکہ ایڈوِن لین نے اِسے پروڈیوس کیا تھا۔

کرِس نے جب پہلی مرتبہ کسی دوسرے شخص کے لیے مضمون لکھا تو معاوضے کے طور پر اُسے کھانا کھلایا گیا۔ کرِس کے ایک دوست نے کہا کہ اُس کی گرل فرینڈ کو مدد کی ضرورت ہے۔ کرِس نے اپنے دوست کی گرل فرینڈ کے مضمون کی غلطیاں درست کرنے کی حامی بھر لی۔

لیکن اُس مضمون کی صرف ایڈیٹنگ کافی نہیں تھی۔ اُس کی منطق بھی کافی بے ترتیب سی تھی۔ لہذا کرِس نے پورا مضمون ہی دوبارہ لکھ دیا۔

مقصد پورا ہو گیا تھا۔ مضمون اچھا تھا اور طالبہ کو اچھا گریڈ مل گیا۔ کرِس کا دوست بھی خوش تھا۔

‘اُس نے سنگاپور میں مجھے ایک ہاٹ پاٹ ریستوران میں دعوت دی۔ میں پہلی مرتبہ کسی ہاٹ پاٹ ریستوران میں گیا تھا۔

پھر اُس طالبہ نے مجھے ایک اور اسائنمنٹ میں مدد کرنے کے لیے کہا۔ میں نے کہا کہ میں روزانہ ہاٹ پاٹ نہیں کھا سکتا۔

مجھے اِس کام کے پیسے لینے چاہیں۔ کرِس نے کہا ’ اُس نے مجھے اپنے ہم جماعتوں سے ملوایا اور اِس طرح یہ سلسلہ شروع ہوا۔‘

آج کرِس ‘مضمون کی چکی’ کے نام سے پہچانے جانے والا ایک انتہائی فائدے مند کاروبار چلا رہے ہیں۔ وہ ایسے طالبِ علموں کے اسائنمنٹ لکھتے ہیں جنھیں خود یہ کام کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہوتی ہے۔

حال ہی میں امریکہ میں کالجوں میں داخلے کا سکینڈل خبروں میں آنے کے بعد طالبِ علموں میں نقل کے رحجان پر بات ہو رہی ہے۔ یہ کوئی پہلا سکینڈل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے امتحانات میں بڑے پیمانے پر ہونے والے فراڈ کے نتائج سے انڈیا آج تک نمٹ رہا ہے۔

’ہائی ٹیک‘ نقل کرانے والا استاد پکڑا گیا

الجزائر میں نقل روکنے کے لیے انٹرنیٹ سروس بند

لیکن یہ صرف داخلوں کا معاملہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ کچھ طالبِ علم یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے کے بعد وہاں جا کر کیا کرتے ہیں اور اِس میں کرِس جیسے لوگوں کا کردار سامنے آتا ہے۔

کئی برسوں سنگاپور میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کرِس اب واپس چین آ چکے ہیں جہاں سے وہ اور اُن کی ٹیم دوسروں کے لیے مضمون لکھتے ہیں۔ اُن کے طالبِ علم صارفین آسٹریلیا اور برطانیہ تک موجود ہیں۔ اُن کے کاروبار کا حجم سالانہ ڈیڑھ لاکھ ڈالر تک ہے۔

اُن کے کاروبار نے اُس وقت پھیلنا شروع کیا جب پہلے طالبِ علم نے اپنی ماسٹرز کی ڈگری کے لیے آسٹریلیا کا رخ کیا اور وہاں جا کر کرِس کے بارے میں دوسروں کو بتایا۔ وہ ہفتے میں ایک مضمون لکھتے ہیں لیکن بزنس اور فنانس جیسے مضامین کے اسائنمنٹس وہ اپنے ماہرین کو دے دیتے ہیں۔ وہ ایک لفظ لکھنے کے عوض ایک یوان لیتے ہیں۔ (یوان چینی کرنسی کو کہتے ہیں) ایک ہزار الفاظ کے ایک مضمون کے وہ ہزار یوان لیتے ہیں جو تقریباً 150 امریکی ڈالر بنتے ہیں۔

کرِس اپنا پورا نام نہیں بتانا چاہتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ نقل اور تدریس کے درمیان میں ہے۔

وہ کہتے ہیں: ‘طالبِ علم جو کرتے ہیں اُس پر میرا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ کچھ طالبِ علم ہیں جو واقعی مجھ سے سیکھتے ہیں۔ لہذا میرے خیال میں اِسے اچھا یا برا کہنا مشکل ہے۔’

برطانیہ میں معیار کو پرکھنے والی ایجنسی سے منسلک گیرتھ کراسمین کا موقف اِس بارے میں سخت ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اِس طرح طالبِ علم نہ صرف اپنی تعلیم کو خراب کرتے ہیں بلکہ اِس کے بڑے نقصانات بھی ہیں۔

‘یہ لوگ مجموعی طور پر معاشرے کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں کیونکہ کوئی نہیں چاہے گا کہ افرادی قوت میں ناکافی تعلیمی استداد رکھنے والے بھی شامل ہوں۔

رائل کالج آف نرسنگ بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے کہ کچھ نرسیں مناسب تعلیمی معیار کے بغیر اپنی تعلیم مکمل کر رہی ہیں۔

کراسمین برطانیہ کی سوانزی یونیورسٹی کی گذشتہ برس شائع ہونے والی تحقیق کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق دنیا بھر میں ہر سات میں سے ایک طالبِ علم اِس طرح کی دھوکہ دہی میں ملوث ہو سکتا ہے۔

‘یہ کوئی نیا رحجان نہیں ہے لیکن اِس میں جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے بہت اضافہ ہوا ہے۔’

‘کچھ وجوہات ہیں جن کی بنا پر شاید بین الاقوامی طالبِ علموں کے لیے زیادہ خطرہ ہے۔ عموماً ان کے پاس مدد کے لیے نیٹ ورک نہیں ہوتے، خاندان کی مدد موجود نہیں ہوتی۔ کبھی کبھار زبان کی کمزوری آڑے آتی ہے۔’

کراسمین کہتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں یہ یونیورسٹیوں کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ جب وہ کسی طالب علم کو مشکل میں دیکھیں تو اُس کو ہر طرح کی مدد فراہم کریں۔

نقل کو روکنے کے لیے نئے سافٹ ویئر بھی سامنے آ رہے ہیں جو ایسے کام کو پکڑ لیتے ہیں جس کے ایک سے زیادہ مصنف ہوں۔

‘بظاہر ہم سب کے لکھنے کا انداز خود بول رہا ہوتا ہے’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp