جنوبی پنجاب میں تعلیمی سہولیات کا فقدان


عورت اور مرد معاشرے کے اہم ستون ہیں اور معاشرے کی بقاء کے لیے دونوں کا کردار بہت اہم ہے۔ تسلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، اس لیے دنیا بھر کی حکومتیں اپنے شہریوں میں تعلیم عام کرنے کے لیے اقدامات کو ترجیح دیتی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ”محکمہ تعلیم اور وزارت تعلیم“ نے عوام کے اس بنیادی حق کو کاغذات تک محدود کر دیا ہے۔ پاکستان میں ایک عرصے سے سرکار ی سطح پر تعلیم کے شعبے پر توجہ دینے کے عوام کی طرف سے مطالبات کیے جارہے ہیں۔

اس حوالے سے حکمران طبقے کی جانب سے ہر برس وعدے سامنے آتے ہیں۔ غربت، بے روزگاری، ناخواندگی اور سماجی نا انصافی انتہا پسندی دہشت گردی کی بڑی وجوہات ہیں اس کے خاتمے کے لیے سماجی و معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے تعلیم کو بھی عام کیا جانا ضروری ہے۔ ایک سرکاری ادارے کی سروے کے مطابق جنوبی پنجاب کے ساڑھے پانچ ہزار دیہات ایسے ہیں جہاں کوئی سکول موجود نہیں ہے۔ لاہور میں قائم ادارہ پنجاب ایجوکیشنل مینجمینٹ انفارمیشن سسٹم کی ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ دیہات لودھراں، جلالپور پیروالا، میلسی، اچ شریف، پاکپتن، رحیم یار خان، چولستان، احمد پور شرقیہ، لیاقت پور، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، جام پور اور روجھان کی تحصیلوں میں واقع ہیں۔

صوبہ میں آٹھویں جماعت تک کے سرکاری سکولوں کی تعداد تین ہزار سات سو ستاسی ہے جس وجہ سے تقریبا بیالیس فیصد طالبعلم پانچویں جماعت کے بعد تعلیم حاصل نہیں کر پاتے کیونکہ ان کے علاقوں میں پرائمری سے آگے سکول ہی نہیں ہیں۔ لڑکیوں اور لڑکوں کے سکولوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے جس میں پینے کا صاف پانی، بجلی، ٹوائلٹس وغیرہ شامل ہیں ان سکولوں میں سے اکثریت جنوبی پنجاب میں واقع ہیں۔ ان سارے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے جنوبی پنجاب کو جہالت کے اندھیرے سے نکالنے کے لیے ایک سنجیدہ پالیسی کی ضرورت ہے۔

جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ شریف کے گاؤں جلووالی اور اس جیسے ہزاروں دیہا ت ایسے ہیں جہاں پرائیوٹ یا سرکاری سکول نہیں ہیں اگر کسی گاؤں میں سکول ہے بھی تو پرائمری، مڈل تک مڈل سے آگے کی تعلیم حاسل کرنے کے لیے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ تحصیل تونسہ کے گاؤں جلووالی کے سکول میں کی عمارت تین کمروں پر مشتمل تھی۔ کے جی سے لے کر دوسری کلاس والے بچوں کو درخت کے سایے میں بٹھادیا جاتا تھا جب درخت اپنا سایہ بدلتا کلاس کو بھی جگہ بدلنی پڑتی تھی، کرسی میز کا تونام ونشان نہیں ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھائی کرائی جاتی تھی۔

کچھ سال بعد سکول کو پرائمری سے مڈل میں تبدیل کیا گیا تین کمروں پر مشتمل ایک اور عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔ جس میں چھٹی، ساتویں اور آٹھویں کلاس کے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ ہائی کلاسوں کے لیے ساتھ والے گاؤں جانا پڑتا ہے جس کا فاصلہ پانچ کلومیٹر ہے بچے اپنی مدد آپ کے تحت پانچ کلومیٹر کا سفر سائیکل یا پیدل طے کر کے پڑھنے جاتے ہیں۔ راستے میں ”تل“ پڑتا ہے جس کا فاصلہ تقریبا 2 کلومیٹر بنتا ہے گرمیوں میں تپتی ریت دوسری طرف بارشوں کے موسم میں کوہ سلیمان کے پہاڑوں سے آنے والا پانی اس نالے سے گزر کر دریائے سندھ میں جاتا ہے ”تل“ پر پُل نا ہونے کی وجہ سے بچوں کو بارش کے موسم میں چھٹیاں کرنی پڑتی ہیں۔

اسلام نے عورت کو معاشرے میں عزت کا مقام دیا ہے اور عورتوں کی دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول پر زور دیا ہے اس کے باوجود ہمارے ملک میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں پر عورت کو تعلیم کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں لڑکی کو تعلیم کیوں دلوائیں اور اس پر اتنا خرچا کیوں کریں جب اس نے آگے جاکر ہانڈی روٹی ہی کرنی ہے اور گھر سنبھالنا ہے۔ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ عورت کے دم سے یہ معاشرہ قائم ہے جو اپنی گود میں نسلوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔

تحصیل تونسہ میں بھی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں لڑکیوں کے لیے سکول موجود نہیں اگر کسی گاؤں میں سکول موجود ہونے کے باوجود پڑھائی کا نام و نشان نہیں دیہات کے سکولوں میں استانیوں نے 1500 سو مہینے کے عوض اپنی جگہ پر لڑکیاں رکھی ہوئی ہیں بچیوں کو تعلیم دیتی ہیں اور استانیاں جنہوں نے بچیوں کے مستقبل ہو سنوارنا ہے ہزاروں میں تنخواہ لے کر گھر میں مزے لوٹ رہی ہیں۔ اس طرح کے مسائل تحصیل تونسہ کے دوسرے دیہاتوں میں بھی پائے جاتے ہیں جن میں کھڈ بزار، مرہ، گاڈی شمالی، مندریں وغیرہ شامل ہیں۔

ہائی سکول نا ہونے کی وجہ سے بچے آٹھویں سے آگے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے کسان اپنے بچوں کو کھتیوں میں اپنے ساتھ کام پر لگا لیتے ہیں جومیٹرک تک تعلیم حاصل کر لیتے ہیں نزدیک کوئی پرائیوٹ یاگورنمنٹ کالج نہیں ہے جس میں آگے کی تعلیم جاری رکھ سکیں گورنمنٹ کالج 15 کلومیٹر دور وہوا کے شہر میں ہے۔ 15 کلومیٹر دور جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں جو کالج ٹائم تک کالج تک پہنچا دے اوپر سے روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

کالج میں ہاسٹل بھی نہیں جہاں دور سے آنے والے بچے رہائش رکھ سکیں۔ حکام کو چاہیے کہ ان علاقوں کو پسماندگی سے نکالنے اور تعلیم کے فروغ کے لیے اقدامات کرے تاکہ جنوبی پنجاب کے بچے علم جیسی نعمت سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اساتذہ کرام کی حاضری کو 100 فی صد یقینی بنایا جائے۔ حکومت کو چاہیے دانش سکولوں پر اربو ں روپے لگانے سے بہتر ہے ان اضلاع میں موجود سرکاری سکولوں کی حالت زار کو بہتر کیا جائے اور بچوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں سکولوں میں لانے کے اقدامات کیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).