آشیانہ ڈھونڈتا ہے


ایک اکیلا شہر میں۔ پہلے وائلن کی نوک دار آواز بلند ہوتی ہے۔ اس کے بعد موسیقی کے ساتھ ایک بھاری، گونجیلی آواز جو نغمے سے زیادہ اپنی شکست کی آواز معلوم ہوتی ہے اور ہوا کے ساتھ بہنے لگتی ہے۔

آب و دانہ ڈھونڈتا ہے۔ آشیانہ ڈھونڈتا ہے۔

ایک پورا منظر اس آواز کے پیچھے ٹھوس شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ دیواریں۔ بند دروازے۔ ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں۔ جلتی ہوئی روشنی میں رواں دواں سڑکیں۔ ان کے پیچھے ایک سایہ بے چینی کے ساتھ چلتا ہوا۔

اس عمر سے لمبی سڑکوں کو

منزل پر پہنچتے دیکھا نہیں۔

لہجے کی اداسی اور گہری ہوتی جاتی ہے۔ پھر آواز پلٹتی ہے۔ آشیانہ ڈھونڈتا ہے۔ رات میں اور دوپہر میں۔ ایک اکیلا شہر میں۔

اس گیت کے بول میں نغمگی سے زیادہ وحشت محسوس ہوتی ہے :

دن خالی خالی برتن ہے

اور رات ہے جیسے اندھا کنواں۔

اچھا، اس شہر میں مکان ڈھنڈنے والوں کا یہ حال ہو جاتا ہے۔ اب جیسے سمجھ میں آیا۔ شہر میں مکان ڈھونڈنا بھی ایک سزا ہے۔ شہر ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہہ رہا ہے : تمہیں جینے کا حق بھی نہیں۔

مکان سے نکلنا (یا نکال دیا جانا) شاید لمحے بھر کا کام ہے مگر مکان سے نکل کر کہیں اور پہنچنا مشکل۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ شاکیہ منی سدھارتھ گدتم بدھ اپنے گھر بار کو چھوڑ آئے تھے تو ان کو کسی اور مکان کی تلاش نہیں تھی۔ اسی لیے ان کو نجات مل گئی۔ وہ مُکت ہوگئے۔ جن کو مکان کی تلاش ہے وہ مایا جنجال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کو نروان تو کیا، سکون بھی نہیں مل سکتا۔

معاف کیجیے گا، یہ اس وقت سوچنے کی باتیں ہیں جب آپ کا کوئی ٹھکانا ہو۔ سر پر چھت ہو۔ ورنہ توپھر وحشت ہی وحشت ہے۔

مکان کی ضرورت کیا ہے؟ کچھ نہ ہوا تو گیسٹ ہاؤس رہ لیں گے۔ آپ اطمینان سے سوچتے ہیں جب آپ گھر میں بیٹھ کر سوچتے ہیں۔ لیکن مکان کی جگہ گیسٹ ہاؤس کے بارے میں سوچنا اسی طرح کی بات ہے جیسے انقلاب فرانس کے زمانے میں شہزادی نے کہا تھا، جو لوگ روٹی نہیں کھانا چاہتے وہ کیک کیوں نہیں کھاتے؟

گیسٹ ہاؤس وہ کیک ہے جسے آپ اتنی آسانی سے کھا نہیں سکتے۔ پہلے تو ہزاروں سوال۔ کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، کام کیا ہے، فیملی میں کون کون ہے۔ اس سوال پر سوئی کی نوک اٹک جاتی ہے۔ پیہم اصرارکے بعدبتایا کہ بھئی، فیملی اگر ہوتی تو یوں آپ کے در پر پڑے نہ ہوتے۔ اس عذر پر منیجر صاحب کا دل ذرا پسیجا۔ وضع قطع سے رٹائرڈ پہلوان اور حالیہ چوکیدار زیادہ معلوم ہوتے تھے۔ پھر انہوں نے زیادہ مشکل سوال کیا۔ شناختی کارڈ اور پورا پتہ۔

اس سوال پر ہماری حالت ابن انشا کی سی ہوگئی۔ ہم ہنس دیے، ہم چُپ رہے، منظور تھا پردہ ترا۔ پردہ کا ذکر بھی بے کار گیا کہ چودھویں کی رات تو تھی ہی نہیں۔ بہرحال، کچھ رو کر اور کچھ گا کر کمرے کے لیے ان کو نیم آمادہ تو سوالوں کی بوچھاڑ۔ کتنے دن کا قیام ہے۔

چار دن کی دُنیا میں آپ کا قیام کتنا بھی عارضی ہو، گیسٹ ہاؤس میں آنے سے بھی زیادہ جانے کا وقت بتانا ضروری ہے۔ اور اگر آپ کے پاس واضح جواب کی سہولت میّسرنہیں تو پھر آپ کو سڑک ناپنے کی تیاری کر لینا چاہیے۔

گیسٹ ہاؤس میں دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ پوری طرح سمجھ میں آجاتا ہے اور اس دشت کا بھی جس کو دیکھ کر غالب کو گھر یاد آیا تھا۔ گھر۔ افوّہ، وہی مشکل۔ گویم مشکل اور نا گویم مشکل۔ گیسٹ ہاؤس سے زیادہ مشکل معاملہ اگر کوئی ہوسکتا ہے تو اسٹیٹ ایجنٹ کے ذریعے اس شہر میں مکان تلاش کرنے کا۔ بھانت بھانت کے اور وضع وضع کے ایسے ایجنٹ ٹکرائیں گے کہ آپ باقی معاملات کی تلخی کو بھول جائیں گے اس لیے کہ ان میں سے بعض ایجنٹ زیادہ اور اسٹیٹ کم ہوتے ہیں۔

اسٹیٹ ایجنٹ کا جدید دور میں نعم البدل بھی نکل آیا ہے۔ یہ ہرگز نہ سمجھیے گا کہ مجھے معلوم نہیں۔ ان ویب سائٹس کی لنک بھی میرے پاس تھی جو گھر سے قدم نکالے بغیر آپ کے حسبِ منشا اور خواہش کے مطابق مکان دلوا دیتی ہیں۔ حال دل ان کو بھی لکھا۔ مگر افسوس کوئی جواب نہیں آیا۔ (جو بھی یہ ماجرا سنتا ہے، یہی کہتا ہے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ ضرور آپ نے کوئی غلطی کی ہوگی۔ اب کیا کہیں کہ غلطی نہ کی ہوتی تو مکان کیوں ڈھونڈ رہے ہوتے؟ )

اتوار کے دن اخبار سے اشتہارات کا صفحہ کاٹ کر الگ کر لیا۔ (اخبار انگریزی کا ہونا ضروری تھا کیونکہ یقین دلا دیاگیا تھا۔ اچھے اشتہار اردو میں نہیں چھپتے۔ اچھے رشتوں کی طرح۔ دوبارہ ایسی حماقت نہ کیجئے گا! ) پھر ایک ایک کرکے علاقے کی ترتیب سے فون کرتے اور فون پر عرضِ مدّعا کرنے کا سلسلہ شُروع کیا۔

مکان کی تلاش میں ایک آلۂ تشدد بلکہ آلۂ قتل ٹیلی فون بھی ثابت ہوا۔ حالانکہ ٹیلی فون کا فائدہ یہ بھی ہے کہ ہر گفتگو کو غیر شخصی بنا دیتا ہے لیکن انٹرویو، پھر انٹرویو ہے۔ چاہے ٹیلی فون پر کیوں نہ کیا گیا ہو۔

زندگی میں انٹرویو دینے کا کئی بار اتفاق ہوا۔ نوکری کے لیے۔ نوکری میں ترّقی کے لیے۔ حد تو یہ ہے کہ شادی کے لیے بھی۔ مگر مکان کے لیے انٹرویو کا ثانی نہیں۔ مکان کی تلاش دوسرے آدمی کو ہر قسم کا ذاتی اور نجی سوال پوچھنے کی اجازت دے دیتی ہے۔ نوکری، عہدہ، تنخواہ، عقیدہ، ہر سوال جائز قرار پاتا ہے اور سب سے بڑھ کر فیملی کا سوال جس پر ”ایک شوہر کی خاطر“ میں عصمت چغتائی ناراض ہوگئی تھیں۔ جب ریل کے سفر کے دوران ان سے بار بار یہی سوال ہوتا کہ تمہارے شوہر؟ انہوں نے دل سے گھڑ کر جواب دینے شروع کر دیے تھے مگر ریل کے سفر میں سب ممکن ہوتا ہے، مکان کی تلاش میں نہیں۔

مکان تلاش کرنے والے اصل میں جب مکان تلاش نہیں کر رہے ہوتے تب بھی مکان تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا یہ حال ہوتا ہے کہ نہ تو کارواں کی تلاش ہے نہ ہم سفر کی تلاش۔ ہر چہرے کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ شاید اس کے ذریعے سے گھر کی خبر ملے۔ وہ گھر جو ابھی دل دماغ میں ہے، مکان کی شکل میں نہیں آیا۔

مکان کی تلاش میں سچ پوچھیے تو سر گاڑی پیر پہیّہ ہوگئے۔ اپنے آپ سے تو نہیں لیکن شہر سے اپنا رشتہ بدلتا نظر آیا۔ جیسے میں بھی شہر کا صارف (Consumer) بن گیا۔ بازار سے گزر رہا ہوں اور خریدار کی نظر سے دیکھ رہا ہوں، پرکھ رہا ہوں۔ کاغذ کے ایک پُرزے پر حساب لگایا تھا کہ اندازاً اتنے تک کی رقم ہر مہینے خرچ کرنا ممکن ہوگی۔ اس کے گھٹتے بڑھتے اسکیل سے ہر جگہ کے فاصلے ناپوں اور سوچوں کہ میں یہاں آنے کا سوچوں کہ نہیں۔ ربڑ کی طرح فاصلے کھینچ کر زیادہ یا کم ہونے لگے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2