اساتذہ بھی والدین ہوتے ہیں


ایک بادشاہ بازار سے گزر ا وہاں ایک کمہار 2 روپے میں گدھا بیچ رہا تھا۔ اگلے دن بادشاہ پھر وہاں سے گزرا وہ پھر وہیں بیٹھا گدھا بیچ رہا تھا۔ بادشاہ رک گیا اور اس سے پوچھا کہ گدھا کتنے کا ہے۔ اس نے دیکھا کہ بادشاہ ہے۔ اس نے قیمت 50 روپے بتا دی۔ بادشاہ بولا کل تو تم 2 روپے کا بیچ رہے تھے۔

اب وہ گھبرا گیا اور گھبراہٹ میں ا س نے کہہ دیا کہ اس پر بیٹھ کر آنکھیں بند کرو تو مدینہ کی زیارت ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی قیمت زیادہ ہے۔ بادشاہ نے وزیر کو کہا کہ بیٹھ کر دیکھو کچھ نظر آتا ہے کہ نہیں۔

وزیر بیٹھنے لگا تو کمہار نے فوراً کہہ دیا کہ زیارت صرف نیک ایماندار اور پارسا کو ہوتی ہے۔ اب وزیر بیٹھ گیا اس نے آنکھیں بند کیں کچھ بھی نظر نہ آیا مگر اس نے سوچا میں اگر کہوں گا کہ نظر نہیں آیا تو سب کہیں گے کہ نیک ایماندار اور پر ہیز گار نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ ما شاء اللہ مدینہ صاف نظر آ رہا ہے۔ بادشاہ کو تجسس ہوا اس نے کہا کہ میں خود بیٹھ کے دیکھوں گا۔ اب بادشاہ کو کچھ بھی نظر نہ آیا۔ اس نے سوچا وزیر تو بچ گیا اب میں کہوں گا کہ نظر نہیں آتا سب سمجھیں گے بادشاہ نیک اور پرہیز گار نہیں ہے۔

اس نے کہا ماشا ء اللہ سبحان اللہ مجھے مکہ اور مدینہ دونوں نظر آ رہے ہیں اور اس کو گدھا بھی 50 روپے میں خریدنا پڑا۔ قارئین کچھ یہی صورتحال یہاں کی بھی ہے۔ تبدیلی صرف کچھ خاص عقیدت مندوں کو ہی نظر آ رہی ہے۔

میں نے تین ماہ یہ سوچ کے اپنی زبان کو بند رکھا کہ مسئلہ دراصل میرے دماغ کا ہو گا۔ لوگوں کی خاموشی نے بھی کئی بار بے چین سا کیا۔ میں کئی دن اس شش وپنج میں رہی کہ مجھے ہی کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ پھر یہ ڈر الگ کہ یہاں منہ سے ایک لفظ نکلا، وہاں اسے سیاسی رنگ دے دیا گیا اور سوشل میڈیا پہ بیٹھے فراغت کے مارے میرے دوست احباب رشتے دار خون پینے کو تیار۔ ارے جناب میں غیر سیاسی ہوں مگر کیا اپنی کیفیت جس سے گزر رہی ہوں وہ لکھنا گناہ ہے کیا۔ اب آپ اسے سیاسی رنگ دے ڈالیں اور حساس ہو جائیں تو میں کیا کر سکتی ہوں۔ اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ میں بے حس ہوں یا مجھے ہی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ ہر نگاہ کا کچھ اپنا ہی پیمانہ ہے کچھ دیکھنے کا، ناپنے کا۔ ہم جہاں چاہیں اپنے لحاظ سے parallex error کر سکتے ہیں۔

راولپنڈی صدر میں ایک کلپ بیچنے والی صائمہ کو میں نے دوست بنا رکھا ہے۔ یہ بھی میرا ایک طریقہ ہے لوگوں کی مدد کرنے اور ان کے مسائل پوچھنے کا۔ چھ سال سے اس کی حالت زار میں کوئی بہتری نہیں آئی کہ آمدنی بڑھنے کا نام ہی نہیں لیتی اور مہنگائی ہے کہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ میں نے اس سے بھی کئی بار تبدیلی کا سوال کیا۔ مجھے اپنا آپ بھی صائمہ ہی لگا اور پھر میں نے خود کو جھنجھوڑا کہ حالت تو جناب ایک ہی ہے۔

میں شعبہء تعلیم سے تعلق رکھتی ہوں اور پہلے بھی کئی بار کئی نکات پہ احتجاج کرتی آئی ہوں۔ بدقسمتی سے اساتذہ کچھ ایسا طبقہ بنتے جا رہے ہیں کہ جب تدریس کر رہے ہوں تو ارد گرد کے لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کا کام ہی کیا ہے ذرا اور کام دیا جائے اور جب گھر پہ ہوں تو گھر والوں کو لگتا ہے کہ انہوں نے دن بھر کیا ہی کیا ہے جو تھکن ہو رہی ہے۔ کچھ کام بڑھایا جائے اور اس زمرے میں جو ناروا سلوک ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ کیا جاتا ہے اس کی تو مثال ڈھونڈے نہیں ملتی۔

ایک تو ہوں میں اس طبقے سے منسلک اوپر سے طبیعت میں یکسانیت پسندی ایسی کہ بہتر سے بہتر کی جستجو میں چھلانگ لگانا اپنے طلباء سے زیادتی لگتا ہے۔ ہر سال بہترین کام، بہترین رپورٹ مگر وعدے انتظار اور پھر ایک اور سال کا طویل انتظار۔ اب تو یہ حال ہے کہ لوگوں کو خاص کر نئے آنے والوں کو اپنی تنخواہ بڑھا کر بتاتی ہوں گو کہ لوگ اپنی عمر اور تنخواہیں کم بتایا کرتے ہیں۔ خیر ایک سال اور طویل انتظار کے بعد نیا سال نئی امیدیں لے کر آیا۔

مگر اس سال تو حد ہی ہو گئی۔ والدین کو فیسیں کم کر کے خوش تو کر دیا گیا مگر اس حقیقت سے قطعی درکنار کہ اساتذہ کے پرائیوٹ سیکٹر میں کیا پر خچے اڑائے جائیں گے۔ کیا کسی کو اس بات کا خیال نہیں آیا کہ فیسیں کم کرنے کے احکام سے اساتذہ پہ کیا گزرے گی۔ کیا پہلے اس پہ کوئی حکم جاری نہیں ہو سکتا تھا۔ سال بھر کے انتظار کے بعد جنوری وہ مہینہ ہوتا ہے جس میں اساتذہ کی تنخواہیں بڑھائی جاتی ہیں۔ مگر اتفاق کہیے کہ عمدہ پلاننگ کہ یہ فرمان بھی عین اسی زمانے میں نکالا گیا۔

اس سے گویا ایک ماتم کی فضا پھیل گئی اور ہمارے اعلٰی افسران اور ہیڈ آفسوں میں ایسا سوگ پھیلا کہ جس نے اساتذہ کی قوت گویائی ہی چھین لی۔ لگا کہ لاکھو ں کروڑوں میں کھیلنے والے افسران اچانک سڑکوں پہ آنے لگے ہیں تو پھر ہم کیڑے مکوڑوں کی کیا اوقات۔ کثیر تعداد میں اساتذہ کو فارغ کر دیا گیا۔ انکریمنٹ نہیں لگائے گئے۔ کام دگنا کر دیا گیا۔ ذہنی سکون چھین لیا گیا کہ کب کس کی باری آئے گی گھر جانے کی گویا بگ باس چل رہا ہو۔

لوگ اب بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ خوف کی فضا سی پھیل گئی۔ کچھ اسکولوں میں دس تو کہیں بیس فیصد تنخواہیں کم کر دی گئی ہیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں کی تنخواہوں کے ابھی سے لالے پڑے ہیں اور دوسر ی طرف والدین کو کیا لگتا ہے کہ معیار تعلیم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہو گی یا انہوں نے فیسیں کم کرنے کی نوید پہ ہی اکتفا کر لیا ہے۔

ہر سو خاموشی دیکھ کے دم سا گھٹتا ہے کہ جیسے اساتذہ یتیم ہو گئے ہیں۔ کوئی سوچ کوئی بیان کوئی ہمدردی کوئی ٹاک شو کہیں کچھ سامنے نہ آیا۔ کیا ہم گورنمنٹ میں ہوتے اور شور کرتے تو کیا ہماری شنوائی ہو جاتی یا پھر سنوائی کے لیے وزیر اعلٰی کا عہدہ رکھنا ضروری ہے۔ کیا پرائیوٹ اسکول اساتذہ اس ملک کا حصہ نہیں ہیں؟ کیا ہم نے اس ملک و قوم کے لیے اتنے سالوں سے کچھ نہیں کیا؟ کیا اس کے لیے سیاست میں آنا ضروری ہے؟

کافی دفعہ ذہن میں یہ شکوہ بھی آیا کہ یہ محاسبہ اسپتالوں اور ڈاکٹروں سے کیوں نہ شروع کیا گیا کہ جن کی فیسیں ہر چھ ماہ میں بڑھ جاتی ہیں۔ دھاندلی ہے کہ نا پوچھیے۔ وکیلوں سے ہی کیوں نہ شروع ہوا یہ محاسبہ؟ سب سے پہلے شعبہء تعلیم کا پرائیوٹ سیکٹر ہی کیوں۔ جنوری ہی کیوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).