مسجد وزیر خان اور شاہی حمام کی آوارگی


دہلی دروازے کے اندر داخل ہوتے ہوئے چند قدم آگے چلیں تو چوک وزیر خان آجاتا ہے جہاں مسجد وزیر خان عہد مغلیہ کا شاندار تعمیراتی شاہکار آنے والوں کی توجہ اپنی جانب کھینچتا ہے مسجد وزیر خان کی تعمیر مغل شہنشاہ شہابُ الدین محمد شاہ جہاں کے عہدِ حکومت کے ساتویں سال 1635 ء میں شروع ہوئی جبکہ یہ 7 سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی۔ 1642 ء میں اِس مسجد کا اِفتتاح شہنشاہ شاہ جہاں نے خود لاہور میں کیا۔ اِس مسجد کے معمارِ اعظم چِنیوٹ کے ایک باشندے شیخ عِلم الدین الانصاری تھے جِنہیں عہدِ شاہجہاں ی میں لاہور کا گورنر مقرر کیا گیا اور وزیر خان کا خطاب عطا کیا گیا تھا۔

مسجد وزیر خان کو لاہور کے چہرے پر خوبصورتی کے تِل کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ بادشاہی مسجد لاہور کی تعمیر وزیر خان مسجد کی تعمیر کے 29 سال بعد شروع ہوئی تھی یعنی 1671 ء میں۔ مسجد کو مغلیہ دور کے لاہور کے گورنر علم الدین انصاری جنہیں عام طور پر نواب وزیر خان کہا جاتا تھا انھیں کے نام سے جانی جاتی ہے۔

آئیے اب اس نادر نمونے کے بانی حکیم علیم الدین انصاری المشہور نواب وزیر خان کے بارے میں جانتے ہیں۔ حکیم علیم الدین انصاری المشہور نواب وزیر خان صاحب ایک انتہائی عالم فاضل اور پڑھے لکھے انسان تھے۔ انہیں فن طب میں بڑی مہارت حاصل تھی اور اس کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور فلسفہ پر بھی گہری نظر تھی۔ فن طب ہی کے باعث ان کی رسائی مغل دربار تک ہوئی اور عہد شاہ جہانی میں دیوان، بیوتات اور نواب وزیر خان جیسے القابات حاصل کیے۔ شاہی خاندان کے خاندانی طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ وہ گورنر پنجاب کے عہدے تک بھی پہنچے۔

حکیم صاحب پنجاب کے ایک قدیمی شہر چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کی جائے پیدائش تو ان ہی کی وجہ سے زمانے بھر میں معروف ہوئی تھی کہ انہوں نے گجرات کے قریب ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی جو آج بھی وزیر آباد کے نام سے زمانے بھر میں جانا جاتا ہے۔ ان کی بہت ساری تعمیرات شہر لاہور میں شاہی حمام اور مسجد وزیر خان کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تعمیرات کے نشان چنیوٹ اور وزیر آباد میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

مسجد وزیر خان اپنی حیثیت میں ایک مکمل اور عالی شان فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ داخلی دروازے کی کل چوڑائی 21 فٹ ہے جس کے دونوں اطراف چار چار فٹ دائیں بائیں، چبوترہ ہیں اور ان کے بیچ 13 فٹ چوڑی سیڑھیاں ہیں جن سے داخلی دروازے کے مرکزی حصے میں داخل ہوتے ہیں۔ ڈیوڑھی کے شمال اور جنوب میں تیرہ فٹ چوڑا راستہ ہے۔ ڈیوڑھی سے آگے بڑھیں تو مسجد کا وسیع صحن شروع ہوجاتا ہے جس کا فرش کھڑے رخ اینٹوں سے بنا ہے۔ مسجد کے صحن کے وسط میں واقع وضو کے تالاب کے متوازی شمال اور جنوب کی جانب بھی داخلی دروازے بنائے گئے ہیں۔ صحن کے چاروں کونوں پر چار مینار ہیں جن کے اندر سیڑھیاں اوپر تک چلی جاتی ہیں۔

مسجد کے صحن کی مغربی جانب ایوان کی عمارت ہے۔ ایوان کے درمیانی حصے کا دروازا 24 فٹ چوڑا ہے اور 36 فٹ اونچا ہے جہاں یہ نصف گنبد کی صورت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ صحن کے درمیاں میں کھڑے ہوں تو ہمیں چاروں اطراف دالان کے علاوہ داخلی دروازوں کی عمارات کا خوبصورت اور مزین منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔

مسجد کے ایوان میں منبر کی موجودگی لازم ہے مگر برطانوی عہد حکومت میں مسجد وزیر خان میں کوئی منبر نہیں تھا۔ اپریل 1899 ء میں جب لارڈ کرزن وائسرائے ہند نے مسجد کا دورہ کیا تو اس کی تزئین و آرائش اور تعمیراتی معیارات سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس اعتراف کے طور پر اس نے اخروٹ کی اعلیٰ لکڑی کا خوبصورت منبر میو سکول آف آرٹ کے ماہر کاری گروں سے بنوایا اور تحفتاً مسجد کو پیش کیا۔ ایک سو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر منبت کاری کا یہ اعلیٰ نمونہ آج بھی مسجد کے ایوان میں موجود ہے۔

جب دہلی دروازہ سے داخل ہو کر کشمیری بازار کی جانب بڑھا جائے تو دروازے کی عمارت کے ساتھ ہی ملحقہ شاہی حمام کی عمارت ہے جو کہ نواب وزیر خان ہی کا تعمیر کردہ ہے۔ ورلڈ بینک اور دیگر اداروں کی مدد سے شاہی حمام کی عمارت کو نئے سرے سے محفوظ کیا گیا ہے۔ شاہی حمام کے نیچے موجود پرانی دکانوں کو بھی ختم کر دیا گیا ہے شاہی حمام کے ساتھ جاتی ہوئی سڑک کو بھی نئے سرے سے پرانے طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس راستے کو اب شاہی گزر گاہ کا نام دیا گیا ہے اور یہ راستہ سنہری مسجد تک جاتا ہے۔

درمیانی راستے میں پرانے مکانات کو بھی ایک بار پرانے طرز کے ساتھ سنبھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی راستے پر آگے بڑھتے ہوئے مغل عہد کا تعمیر کردہ دہلی دروازہ ”چٹا دروازہ“ کے نام سے ملتا ہے۔ دکانوں کے سامنے شمال سیدھ میں دیوان دینا ناتھ کا کنواں آج بھی موجود ہے۔ یہ کنواں 1970 ء کی دہائی تک پانی کی ترسیل کے لئے استعما ل ہوتا رہا اس کے بعد یہ برسہا برس چوکیدار کی رہائش گاہ بنا رہا۔ اس کو بھی اب خالی کروا کر پرانے طرز پر مرمتیں لگا کر سنبھالا جا رہا ہے۔

مسجد کے جنوب سیدھ محلہ خرادیاں کے آغاز ہی میں دیوان دینا ناتھ کی حویلی آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ مسجد کی مشرق سیدھ میں دیوان دینا ناتھ کے کنوئیں کے سامنے پیپلزپارٹی کے مشہور رہنما جہانگیر بدر کی خاندانی نان پکوڑوں اور مچھلی کی دکان آج بھی روز اول کی مانند کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ مسجد کی مشرق سیدھ ہی میں داخلی دروازے کے ساتھ پرانے کمرے مختلف دفاتر کے زیر استعمال ہیں۔ شمالی سیدھ میں ختم کی گئی دکانوں میں آخری وقت تک کپڑے بیچنے کا کام ہوتا تھا۔ ان تاریخی دکانوں میں تقسیم کے وقت تک نقش نگاری، مصوری، جلد سازی اور خطاطی کے فنون کی دکانیں تھیں۔ اس بازار کے رنگ محل کہلانے میں ایک سبب ان ثقافتی دکانوں کا بھی تھا۔

شہر لاہور کے دیگر تاریخی مقامات کی نسبت یہ مسجد بہت محفوظ ہے کیونکہ اس کو تاریخی ورثہ قرار دینے کے بعد اس کی حفاظت دیگر مقامات کی نسبت زیادہ بہتر رہی ہے۔ اندرون لاہور آج بھی اگر کوئی سیاح آ جائے تو وہ اس مسجد کو دیکھے بنا نہیں جاتا۔ ان ایام میں ورلڈ بینک کے زیر انتظام مرمتوں اور بحالی کا کام جاری ہے لیکن جب تک عوام اور سرکار دونوں میں ثقافتی اور تاریخی ورثہ کی اہمیت کو اجاگر نہ کیا گیا تو یہ تمام اقدامات وقتی ثابت ہوں گے۔ اب دعا یہی ہے کہ رب تعالیٰ سرکاروں میں موجود لوگوں کو ان عظیم ثقافتی ورثوں کی اہمیت کا شعور عطا فرمائے۔

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya