حضرت میاں محمد بخش: ایک آفاقی شاعر


میاں محمد بخش کی نگری کا باسی ہو نے کی و جہ سے ہم پر ایک قرض ہے کہ ان کے کلام پر تحقیق کی جائے۔ حضرت میاں محمد بخش رحمتہ ایک بلند درجہ عارف اور ولی اللہ ہونے کے علاوہ ایک آفاقی شاعر بھی تھے۔ آپ نے عاشق حقیقی اور محبوب حقیقی کے تعلق کو مجازی روپ میں پیش کیا ہے۔ آپ کا اصل موضوع حسن وعشق اور پیار محبت ہے۔ خدا کی ذات اور صفحات کو پہچاننا۔ کارخانہ قدرت میں تدبر اور فکر کرنا۔ اپنے آپ کو پہچاننا اور خالق کائنات کی معرفت میں لگے رہنا اور طلب وجستجو سے کبھی نہ اْکتانا آپ کی شاعری کے موضوہات ہیں۔ لیکن آپ کا بنیادی نظریہ طلب۔ لوڑ اور جستجو ہے۔

آپ نے سیف الملوک کی داستان سفرِعشق اپنے مرشد اور بڑے بھائی جناب میاں بہاول بخش رحمتہ کی فرمائش پر لکھی۔ انھوں نے کہیں کتابوں میں یہ قصہ پڑھا تھا اور آپ سے فرمائش کی کہ وہ یہ قصہ منظوم کریں۔

سیف ملو کے دی گل اونہاں کسے کتابوں ڈٹھی

اس قصے دی طلب پیہو نیں میں ول کر دے چھٹی

لیکن ایسا قصہ منظوم کرنا جو کہ اپنے مرشد کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی پسند آئے ایک بہت ہی مشکل کام تھا۔ وہ اپنے مرشد کو ناراض بھی نہیں کر سکتے تھے اس لیے اس مشکل کام کو کرنے کی ٹھان لی۔

گھمن گھیر فکر دے اندر پیا عقل تا ٹلا

ناں ایہہ لکھیا موڑن ہوندا ناں او کم سوکھالا

آپ نے اس قصہ کو منظوم کرنے کا بیڑہ اْٹھایا اور ایک ایسا شاہکار قصہ تصنیف ہوا۔ جو پنجابی ادب میں ایک گراں قدر اہمیت رکھتا ہے۔

قصہ اوکھا نالے لماں زور کمی پَنڈ بھاری

ڈاہڈ ے دا فرمان نہ مڑدا روگی جند بچاری

لگا کہن فقیر حضوری بنھ لے لک جواناں

کامل پیر کرے گا مدد ہو جاہ بھر مَر داناں

سیف الملوک اگرچہ حسن و عشق کی ایک رومانوی داستان ہے۔ لیکن میاں محمد بخش رحمتہ نے اس کوتصوف کے رنگ میں بہت عمدگی سے پیش کیا ہے۔ سیف الملوک ایک شہزادی اور شہزادے کی عشقیہ داستان ہی نہیں بلکہ گنجینہ معرفت اور مخز ن اخلاق بھی ہے۔

آپ اپنی شاعری اور سخن کے حوالے سے بہت فکر مند تھے۔ اس دور میں سخن شناس بھی بہت کم تھے۔ ا س لیے ٔ آپ چاہتے تھے کہ آپ کے کلام کو صیح تلفظ سے اورسمجھ کر پڑھا جائے۔ اورجو مضمون اور رمزیں انھوں نے اپنے کلام میں پیش کی ہیں پڑھنے والوں کو ان کی سمجھ بھی آئے۔ وہ اپنے سخن کو اولاد سے زیادہ چاہتے تھے۔ آپ نے کتاب میں ایک پورا باب اپنے پڑھنے والوں کے لئے ہدایات اور سخن شناسی پر لکھا ہے۔ آپ نے کہیں بھی اپنی بڑائی بیان نہیں کی۔

میرے نالوں ہر کوئی بہتر مینیہن ٔ نیچ ایاناں

تھوڑا بہتا شعر سخن دا گھاٹا وادھا جاناں

آپ کلام پڑھنے والوں کو نصیحت فرماتے ہیں کہ میرے اشعار کو صحیح طریقے سے پڑھیں۔ کیونکہ جس طرح ان کو اپنے بیٹے پیارے ہیں مجھے بھی اپنے بیت سے بہت پیار ہے۔ آپ کے بیٹوں کو کوئی مارے تو جس طرح آپ کو تکلیف ہوتی ہے۔ اسی طرح غلط بیت پڑھنے پرمجھے بھی تکلیف ہوتی ہے۔

کرے سوال فقیر محمد پڑھنے والے تائیں

رونق کھڑیں نہ شعر میرے دی نال ادا سنائیں

سٹ پسٹا کر کے پڑھیاں لذت کچھ نہ ریہندی

جس دے بیٹے نوں کوئی مارے کد اس دی جند سہندی

دشمن وانگ دسے او سانوں جے کوئی بیت تروڑے

بیٹے نازک لال سندر دے ایویں کن مروڑے

آپ فرماتے ہیں کہ عارفانہ کلام کو گہری نظر سے پڑھ۔ سن اور سمجھ کر ہی اس میں پہناں رمزوں سے آگاہی ہوتی ہے۔ اور دھیان لگا کر ہی گیان کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔ درد مند دل رکھنے والوں کو جب کلام کی صحیح سمجھ آتی ہے تو پھر وہ دل سے روتے ہیں۔

جنھاں طلب قصے دی ہوسی سن قصہ خوش ہوسن

جنھاں جاگ عشق دی سینے جاگ سویلے روسن

ایک بہت اچھے شاعر، درد دل رکھنے اور اپنے پیر مرشد کے گدی نشین ہونے کے باوجود اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ اپنی ذات کی نفی اور ہر ایک کو اپنے سے بہتر گرداننا بھی ایک فقیر یا صفا کی نشانی ہوتی ہے جو آپ میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ آپ ایک صاحب طرز اور باکمال شاعرتھے۔

آپ نے یہ قصہ جب مکمل کیا تو اس وقت 1279 ہجری کا سال تھا۔ اور آپ کی عمراس وقت تینتیس 33 سال تھی۔ آپ نے اس کو اپنے کلام کے آغاز میں یوں بیان کیا ہے۔

سن مقدس ہجری وساں باراں سے ست داہے

ست اُتے د و ہور محمد اوپراس تھیں آہے

شاعر کے اوصاف بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ جس شاعر کے اندر درد دل ہو وہی صیح بات کرتا ہے۔ اپنے اندر کو جلا کر اور دکھی دل سے جو آواز نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے۔

جس وچ گجھی رمز نہ ہووے درد مندا ں دے حالوں

بہتر چپ محمد بخشا سخن ا جییے ٔ نالوں

جو شاعر بے پیڑا ہووے سخن اودھے وی رْکھے

بے پیڑے تھیں شعر نہ ہوندا اَگ بن دھواں نہ دْھکھے

اکثرمحافل سیف الملوک میں کلام پڑھا، سنا اور سنایا جاتا ہے لیکن افسوس کہ محض قاری حضرات کی آواز اور طرز بیان کو سراہا جاتا ہے۔ میرے خیال میں عارفانہ کلام کے مغز و معانی سے رغبت کا اظہار زیادہ ضروری ہے۔ ہونا یہ چاہے کہ کلام پڑھنے کے بعد اس کے معنی ومفہوم بیان کیے جائیں۔ آپ کا سارا کلام بڑی آسان زبان میں ہے لیکن وقت کے ارتقا کی وجہ سے زبانوں میں بھی تبدیلی آ ئی ہے۔ اس وجہ سے بدلتے وقت کے ساتھ بہت سے الفاظ ہماری روز مرہ بول چال میں متروک ہو چکے ہیں۔ پنجابی زبان کی فی زمانہ بد قسمتی یہ ہے کہ اس کو بولنے والے کو ان پڑھ اور جاہل تصور کیا جاتا ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم اس کی ترویج کے لئے کام کریں۔

سخن بھلا جو دردوں بھر یا بن دردوں کچھ ناہیں

نڑاں کماواں فرق رہو دا کیا کانے کیا کا ہیں

درد منداں ہے سخن محمد دیہن گواہی حالوں

جس پلے پْھل بدھے ہوون آوے بْو رومالوں

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بہت سا ایسا کلام بھی آپ کے ساتھ منسوب کر دیا گیا ہے جو کہ آپ کا نہیں ہے اور نہ ہی آپ کی کسی کتاب کے اولین شائع ہونے والے نسخہ میں ہے اسی طرح بہت سے گلوکاروں نے مختلف اشعار اپنی طرف سے سیف الملوک کی گائیکی کے اندر شامل کیے ہیں جو کہ آ پ کے نہیں ہیں۔

حال ہی میں جناب پروفیسر سعید احمد نے گہری تحقیق کے بعد ایسے اشعار کی ایک طویل فہرست مرتب کی ہے۔ جو کہ میاں صاحب کے نام سے غلط منسوب کیے گیے ہیں۔ سہ ماہی ٰ جواہرٰ اپریل تا جون 2017 میں ان اشعار کی تفصیل مہیا کی گئی ہے اس کے علاوہ کافی سارے اشعار جزوی تبدیلی سے بھی اکثر محافل میں پڑھے جاتے ہیں ان کی فہرست بھی اس ضمیمہ میں موجود ہے۔ یہ اشعار میاں صاحب کے نہیں ہیں

اچاناں رکھایا جس تے چلھے دے وچ سڑیا

نیو اں ہو کے لنگھ محمد لنگھ جائیں گا اڑیا

اک گناہ میرا ماں پیو ویکھن دیون دیس نکالا

لکھ گناہ میرا اللہ ویکھے تے اوہ پردے پاون والا

بھائی بھائیاں دے درد ونڈاندے بھائی بھائیاں دیا ں باہواں

باپ سراں دے تاج محمد تے ما و ا ں ٹھنڈیاں چھاواں

مالی دا کم پانی دینا بھر بھر مشکاں پاوے

مالک دا کم پھل پُھل لانا لاوے یا نہ لاوے

عدل کریں تے تھر تھر کمبن ا ’چیاؒں شاناں والے

فضل کریں تے بخشے جاوں میں ورگے منہ کالے

کچھ اشعار جو کہ تھوڑے بہت اضافے یا ردوبدل کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں وہ بھی غلط ہیں سیف الملوک کی ابتدائی اشاعتوں میں وہ صحیح طور پر درج ہیں۔ غلط اضافہ کے ساتھ درج ذیل اشعار کچھ اس طرح پڑھے جاتے ہیں

پھس گئی جان شکنجے اندر جوں ویلن وچ گناں

روہ نوں کہو اج رہوے محمد ہون جے رہوے تے مناں

صحیح شعر کچھ یوں ہے۔

پکڑی جان عذاباں جیونکر بیلنیاں منہ گناں

آکھن رہو نہ رہاں محمد صبر پیا بن بھناں

عموماً گلوکار پوری تحقیق کے بغیر ہی جو کلام کسی نے لکھ کر دیا ہوتا ہے وہ گا دیتے ہیں اسی طرح بہت سے معروف گلوکاروں نے بھی کسی اور شاعر کے اشعار سیف الملوک کے ساتھ ملا کے گا چھوڑے ہیں کچھ غلط اشعار بھی شامل کر لیتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی شاعر کا کلام گانے سے پہلے پوری تحقیق کر لی جائے صوفیانہ کلام میں چونکہ کاپی رائٹ بھی نہیں ہے اس لیے جس کا جو بھی جی چاہتا ہے کرتا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).