ڈوگروں کے ہاتھوں یاسین کی تباہی اور جارج ہیورڈ کا کردار


لاھور میں رنجیت سنگھ کے دربار میں کچھ لوگ حاضر ہوئے اور انہوں نے سکھ دربار سے گوہر امان کے خلاف مدد کی اپیل کی۔ یہ مشورہ عسیٰ بہادر والی پونیال کا تھا کہ گوہر امان کو شکست دینے کے لئے سکھوں سے مدد لی جائے۔ کیونکہ طرہ خان حکومت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ عسیٰ بہادر کا مشورہ پسند ایا۔ وفد لاھور میں موجود تھے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ گوہر امان کی سرکوبی کے لئے ایک بھاری سکھ فوج کو گلگت بھیج دی جائیں گی۔ سن 1849 میں سلطنت خالصہ لاہور کا خاتمہ ہو گیا۔

اس سے کچھ سال پہلے 1846 میں معاہدہ امرتسر کے تحت جموں کشمیر میں ڈوگرہ برسراقتدار ائے تھے۔ یوں گلاب سنکھ نے تسخیر گلگت کے لئے کرنل سید نھتے شاہ کی کمان میں 1848 میں ایک بھاری فوج گلگت بھیج دئیں۔ اس سے قبل ہی نتھے شاہ جو کہ سکھ دربار لاہور سے وابستہ تھے، اور 1844 میں گلگت میں گوہر امان کو شکست دے کر گلگت میں تعینات تھے۔ جب ڈوگرہ برسر اقتدار ائے تو نتھے شاہ نے مہاراجہ گلاب سنکھ کے ہاں ملازمت اختیار کی۔

نتھے شاہ نے گلگت میں کمان سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے ہنزہ نگر کو تاراج کرنے کے لئے ہنزہ نگر پر حملہ کر دیا۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ہنزہ نگر کے دو آزاد ریاستیں بعض اوقات اپس میں بھی دست گریباں ہوتی تھیں۔ لیکن ان ریاستوں کی یہ بات قابل تعریف تھی کہ بیرونی حملہ آورں کے خلاف یہ ریاستیں ہمیشہ متحد ہو کر دشمنوں کا مقابلہ کرتی تھیں۔ ہنزہ کی افواج نے نتھے شاہ اور کریم خان کی افواج کا ایک خون ریز تصادم میں صفایا کر دیا، جن کی تعداد بارہ سو سے بھی زیادہ تھی، اور اس جھڑپ میں نتھے شاہ اور کریم خان بھی مارے گئے۔

ہوا یوں کہ جب میر غضنفر علی خان نے وزیر زینت شاہ کی قیادت میں اپنی ایک لشکر کو نومل بھیج کر وہاں مقیم کشمیریوں کو ان کے خاندان سمت گرفتار کر کے ہنزہ لایا گیا اور یہاں سے انہیں یارقند فروخت کیا گیا۔ اس عمل پر کریم خان اور نتھے شاہ آپے سے باہر ہوئے اور ہنزہ پر انتقاماً حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ قلعہ مایون میں ڈوگرہ افواج کو شکست ہوئی۔ تاریخ میں اس جنگ کو ”جنگ ہر ومن“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں مہاراجہ گلاب سنکھ کا ”فتح جنگ“ نامی ایک توپ بھی ہاتھ لگا تھا، جس کو بعد میں واپس کیا گیا۔

اس واقعے سے کچھ عرصہ قبل یعنی جولائی سن 1844 میں صوبیدار متراداس کو گوہر امان کے دو سپہ سالاروں ”بڈول اور بدنگ“ کے ہاتھوں بارگو میں عبرت ناک شکست ہوئی تھی۔ اُس دور کے تین واقعات قابل ذکر ہیں۔ دو واقعات کا مختصر جائزہ پیش کر چکا ہوں۔ تیسرا اہم واقع بھوپ سنگھ کے ساتھ پیش ایا۔ اس کے نام کی مناسبت سے اس جگہیں کا نام بھوپ سنگھ پڑی پڑ گیا ہے۔ بھوپ سنگھ کے خلاف تین ریاستیں متحد ہو چکی تھیں۔

ہنزہ، نگر اور یاسن۔ بھوپ سنگھ کی افواج کو کئی دنوں تک پڑی کے مقام پر محاصرے میں رکھا گیا، ڈوگرہ افواج غذائی قلت کی وجہ سے نڈھال ہو گئیں، تو متحدہ افواج نے بڑی اسانی سے تمام ڈوگرہ افواج کو تہ تیغ کر دیا، یہ واقعہ اس طرح پیش ایا کہ 1852 میں یاسینی افواج نے گلگت پر حملہ کر دیا نپور اور گلگت قلعے پر قبضہ کر کے ڈوگرہ افواج کو قتل کیا گیا۔ اس حملے کی خبر جب بونجی پہنچی تو بھوپ سنگھ کمک کے واسطے افواج کو لے کر پڑی میں متحدھ افواج کے نرغے میں اچکے تھے۔

ان واقعات کے بعد مہاراجہ گلاب سنگھ اپنی وفات یعنی 1857 تک پھر گلگت پر دوبارہ فوج کشی نہیں کر سکے۔ سن 1860 کو مہاراجہ رنبیر سنگھ نے جنرل دیوی سنگھ نرائنہ کی سرکردگی میں اپنی افواج کو گلگت روانہ کر دیا۔ ڈوگرہ افواج کے گلگت پہنچنے سے پہلے گوہر امان یاسن میں فوت ہوچکے تھے۔ اس لئے گلگت میں ڈوگرہ افواج کو کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوا۔ گلگت پر مکمل قبضے کے بعد ڈوگروں نے مضافاتی ریاستوں کو تاراج کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔

ریاست پونیال پہلے ہی ان کے ماتحت تھی، اور راجہ عسیٰ بہادر ان سے ملے ہوئے تھے۔ لہذا ان کو یہاں کوئی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوا۔ گوہر امان کی وفات کے بعد یاسن میں ان کے سب سے بڑے بیٹے ملک امان (متم تھم) ان کے جانشین بنے تھے۔ سن 1861 میں ڈوگروں نے یاسن میں معمولی مزاحمت کے بعد ملک امان کے جگہیں میں اپنا نمائندہ عظمت شاہ جو (کہ سلیمان شاہ کا بیٹا تھا)، کو اپنا نمایندہ مقرر کر کے انتظامات اُن کے حوالے کیے۔

اور ڈوگرہ ارمی گلگت کی طرف کوچ کر گئیں۔ کچھ دنوں بعد ڈوگرہ ارمی جب گلگت پہنچ گئیں تو عضمت شاہ ان سے پہلے ہی کسی مختصر ترین راستے سے گلگت پہنچ چکا تھا۔ وجہ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یاسن والوں نے ان کی قیادت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ اور ملک امان کو قیادت سونپ کر اپنی خودمختاری کا علان کر چکے ہیں۔ یاسن والوں کی اس حرکت سے مہاراجہ رنبیر سنگھ نا خوش ہوئے۔ ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس واقعے سے کچھ عرصہ بعد یعنی غالباً 1862 کے اس پاس مہاراجہ رنبیر سنگھ نے بدخشی گھوڑوں کی خریداری کے سلسے میں اپنے ایک وفد کو درکوت کے راستے بدخشان بھیج دیا۔

جب یہ وفد گھوڑوں سمت یاسن پہنچ گئے تو یاسن والوں نے وفد سے گھوڑے چھین لئے اور وفد کے تمام افراد کو قید میں ڈال دیے گئے۔ ان دو واقعات نے ریاست جموں کشمیر کی خودمختاری کو براہ راست چیلنج کر دیا۔ مہاراجہ کشمیر نے گلگت میں موجود اپنے گورنر کو سختی سے احکامات بھیج دیے کہ ملک امان اور یاسین والوں کو کچلنے کے لئے انتظامات جلد مکمل کر دے۔ اور خفیہ طریقے سے گلگت میں فوج جمع کرنا شروع کردیے گئیں۔ 1863 کی جون جولائی تک گلگت میں تمام انتظامات مکمل کر لئے گئے۔ اور ایک بھاری فوج جنرل ہوشیارہ اور کرنل دیوی سنگھ نرئنا کی قیادت میں تیار کر لی گئیں۔ ادھر یاسن میں بھی ڈوگروں کے ممکنہ حملے کی اطلاعات پہلے ہی پہنچ چکی تھیں۔

یاسین والے اپنی دفاعی پوزیشن کو مضبوظ کرنے کے لئے ایک قلعے کو مزید مستحکم کر رہے تھے۔ جو آخری مرحلوں میں تھا۔ یہ قلعہ سندی گاؤں کے اختتام پر دریائے اسومبر اور دریائے قرقلتی کے سنگم پر واقع ایک دشوار گزار پہاڈی چوٹی پر بنایا گیا تھا۔ دفاعی لحاظ سے قلعے کی لوکیشن زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ کیونکہ شکست کی صورت میں راہ فرار کے لئے اسومبر اور قرقلتی نالے بالکل سامنے ہی موجود تھے۔ اس پہاڈی چوٹی کے گرد ایک حفاظتی دیوار تعمیر کی گئی تھی۔

دیوار کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔ دیوار لکڑی پھتر اور مٹی سے بنائی گئی تھی۔ قلعے کی دیوار کی موٹائی تقریباً دو فٹ ہوگی۔ دیوار کے تمام کونوں میں واچ ٹاورز بنائے گئے تھے، تاکہ دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکیں۔ حفاظتی دیوار کی اوسط انچائی تعمیر کے وقت بیس فٹ ہو گی۔ دریا سے قلعے تک اونچائی دو سو فٹ سے بھی زیادہ ہو گی۔ دریا سے قلعے تک پانی کی ترسیل کے لئے زیر زمین ٹنل بنایا گیا تھا، جس کے اوپر لکڑی کے تختے ڈال کر راستے کو دشمن کی نظروں سے خفیہ رکھا گیا تھا۔ قلعے میں بچوں اور خواتین کے قیام کے لئے چھوٹے چھوٹے کمرے تعمیر کیے گئے تھے۔ تاکہ محاصرے کے دوران بارش اور دھوپ سے بچا جا سکیں۔ یاسن میں قلعے کی مرمت مکمل ہو چکا تھا۔

اکتوبر 1863 کو گلگت میں خفیہ طریقے سے تمام انتظامات مکمل کرنے کے بعد تین ہزار افراد پر مشتمل ڈوگرہ آرمی یاسن کی طرف مارچ کرنے لگیں۔ جن میں شین سردار، ہراموش کے لوگ، سائی بونجی سے سردار بہادر خان کے ساتھ ساتھ استور، گلگت، نگر اور پونیال کے لوگ سامل تھے، ان معلومات کی فراہمی میں جناب منظور حسین صاحب ساکن سائی بونجی کی خدمات حاصل کئیں ہیں۔ کیونکہ سردار بہادر خان کا خاندان سلیمان شاہ کے حملوں میں تباہ و برباد ہوا تھا۔

ان افراد کی سرکردگی میں جب ڈوگرہ افواج ہوشیارہ اور دیوی سنگھ کی کمان میں چھوہر (شیر قلعہ) پہنچے تو عسیٰ بہادر بھی ایک بھاری پونیالی فوج کے ساتھ ڈوگرہ ارمی کے ساتھ شامل ہو گئے۔ ادھر یاسین (یاسن) میں اردگرد کے علاقوں سے تمام افراد کو جن میں ہر عمر کے افراد دودھ پیتے بچوں سمت حاملہ خواتین بھی شامل تھیں۔ قلعے کے اندر جمع ہو گئیں۔ مسلح افراد جن کے پاس تلوار یا بندوقیں موجود تھیں، ان کی تعداد زیادہ سے زیادہ ایک ہزار سے زیادہ نہیں ہو گی لڑنے کے لئے قلعے میں موجود تھے۔

اب ان کا مقابلہ ایک وحشی اور انتہائی طاقتور ارمی سے ہونا باقی تھا۔ قلعے کے اندر جو لوگ موجود تھے ان کے بارے میں ایک روایت موجود ہے۔ جو کہ کسی کتاب میں لکھا ہوا نہیں ہے۔ جنگ کے عینی شاہدین جو جنگ کے دوران قلعے میں موجود تھے۔ ان سے روایت ہے جو کہ باپ دادے ہمیں کہا کرتے تھے۔ قلعے کے اندر کچھ لوگ جن کا تعلق یاسن کے علاقے سلگان سے تھا وہ عضمت شاہ کے حامی تھے۔ باقی تھوئی یاسن خاص اور نازبر کے لوگ ملک امان کے حامی تھے۔

یہ بات ڈوگرہ ارمی کو پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ قلعے میں موجود عضمت شاہ کے حامیوں کا قتل عام نہیں کرنا ہے۔ باقی جو لوگ ملک امان کے حامی ہیں ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا ہے۔ اور پہچان کے لئے ایک مخصوص گھاس (باوڈلنگ) کو اپنے ٹوپیوں میں لگانے کا خفیہ پیغام سلگان والوں کو دیا گیا تھا۔ یہ خفیہ پیغام صرف عضمت شاہ کے حامیوں تک محدود تھا۔ لیکن یہاں تاریخی حقائق کو سامنے رکھ کر اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ ممکنات میں شامل نہیں لگتا۔

اگر ایسا ہوا بھی ہے تو وہ بہت چھوٹے پیمانے پے ہوا بھی ہو گا۔ یہ ممکنات میں سے اس لئے نہیں ہے کہ جنگی قیدیوں اور جن خواتین کو قلعے سے اٹھا کر لے گئی تھیں ان میں سلگان کے بھی بہت سارے خواتین اور لڑکیاں شامل تھیں۔ غرض ملک امان بھی اس دوران قلعے میں موجود تھا۔ اور حالات کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔ اکتوبر 1863 کے آخری ہفتوں میں مسلح ڈوگرہ ارمی یاسن کی حدود میں داخل ہوتیں ہیں۔ جب ارمی کی تعداد کے بارے میں ملک امان کو اگاہ کیا جاتا ہے تو وہ حواس باختہ ہو جاتا ہے۔ اور مقابلہ کرنے کے بجائے اپنے خاندان سمت چترال کی طرف راہ فرار اختیار کر لیتا ہے۔ موڈوری قلعے میں موجود لوگوں کو اب رہنما کے بغیر ایک طاقتور ارمی سے سامنا کرنا تھا۔

ڈوگرہ ارمی جب موڈوری قلعے میں پہنچ جاتیں ہیں، تو زیادہ مزاہمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ قلعے کا دروازہ بھی ایک جاسوس جو قلعے میں موجود تھا۔ اس کا نام ارسالا خان جس کا تعلق سندھی سے تھا، نے قلعے کا دروازہ اندر سے کھولا۔ اور ڈوگرہ ارمی کو قلعے میں انے کے لئے راستہ مہیا کیا۔ ڈوگرہ سپہ سالار نے موڈوری قلعے میں موجود کمزور افواج یاسین کو پیغام دیا کہ اگر انہوں نے ہتھیار ڈال دیے تو ان کی جان بخش دی جائے گی۔

یاسن والوں نے پیغام کا مثبت جواب دے دیا اور اپنے تمام ہتھیاروں کو ڈوگرہ فوج کے حوالے کر دیے۔ اب یاسن والے مکمل نہتے ہو چکے تھے۔ اس کے بعد ڈوگروں نے قلعے میں موجود لوگوں کا قتل عام شروع کر دیتے ہیں۔ ظلم اور بربریت کی انتہا ہو جاتی ہے۔ چھوٹے بچوں کو ہوا میں پھینک کر تلوار کے وار سے دو ٹکڑے کر دیے گئے۔ حاملہ خواتین کو قتل کرنے کے بعد ان کے پیٹ سے نومولود بچوں کو نکال کر قتل کیے گئے۔ کسی کو نہیں بخشا گیا۔

بچوں اور خواتین کی چیخ و پکار کئی دنوں تک موڈوری کی فضا میں گونجتی رہی۔ قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ موڈوری قلعے میں ہفتے تک جاری رہی۔ جارج ہیورڈ کے مطابق 15 سو لوگوں کو قلعے کے اندر قتل کیے گئے۔ جس کا تذکرہ بعد میں ائے گا۔ جن میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی تھی۔ بالغ لڑکیوں کو چن چن کر الگ کر کے اپس میں تقسیم کی گئیں۔ عسیٰ بہادر نے سب سے زیادہ لڑکیوں کو اٹھائیں جن کی تعداد اٹھ تھی۔ جنرل ہوشیارہ نے تین، دیوی سنگھ نرئنا نے تین اور عبدل صمت خان جس کا تعلق کشمیر پونچھ سے تھا اس نے پانچ لڑکیوں کو اٹھائیں۔

باقی ڈوگرہ سپاہیوں نے آپس میں تقسیم کئں۔ ظلم کا سلسلہ یہاں پر رکا نہیں، دو ہزار کے لگ بھگ لوگوں کو جنگی قیدی بنا کر سری نگر منتقل کیے گئے۔ اس واقعے کے بعد مال واسباب کو لوٹا گیا، جن میں جانوروں سے لے کر اناج تک شامل تھے اپنے ساتھ لے گئے۔ فاتح افواج نے جانوروں اور انسانوں کے مشترکہ قافلے کو گلگت کی طرف روانہ کر دیا۔ راستے میں جہاں جہاں موقعے ملتے رہے لڑکیوں نے پہاڑی چوٹیوں سے دریائے غذر میں کود کر خودکشیاں کرتی رہیں۔ غرض انسانوں اور جانوروں کے مشترکہ قافلے کو گلگت اور پھر سری نگر پہنچایا گیا۔ یاسن میں صورتحال یہ رہا کہ مارچ اپریل 1864 کو کھیتی باڈی کے لئے نہ انسان بچے تھے اور نہ ہی جانور۔ بچے کچے لوگوں نے ایک بیل کے ساتھ ایک مرد کی جوڈی میں کھیتوں میں ہل چلائے۔

مہذب دنیا کو اس ظلم و بربریت کی کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ اس دور میں روئل جیوگرافیکل سوسائٹی اف لندن دنیا کی ایک جدید میپ بنانے میں مصروف تھی، لیکن میپ بنانے میں مشکل یہ ارہی تھی، کہ پامیر اور دریائے اوکزس کے منبع کا صحیح پتہ نہیں چل رہا تھا۔ ار جی ایس نے دشت پامیر میں دریائے اوکزس کے منبع کا پتہ لگانے کے لئے ار جی ایس کے راولنسن نے جارج ہیورڈ کو اوکزس کے منبع دریافت کرنے کے لئے ایک بھاری رقم کے ساتھ ٹاسک دیتا ہے۔

ایک اور وجہ یہ بھی کہ پامیر میں سرخ طاقتیں سر اٹھا رہی تھیں۔ جارج ہیورڈ پہلی بار فروری مارچ سن 1870 کو یاسن میں وارد ہوئے۔ یاسن کے حکمران میر ولی جو ابھی ابھی حکمران بنے تھے کے ساتھ ان کی بہت اچھی دوستی ہو جاتی ہے۔ انہوں نے اپنے ساتھ میر ولی کے لئے بے تحاشا تحفے ساتھ لائے تھے۔ دونوں دوست کئی دفعہ شکار پے بھی ساتھ میں جاتے ہیں۔ ہیورڈ کو درکوت کے راستے پامیر جانا تھا۔ دریائے اوکزس درکوت سے صرف دو دن کی پیدل مسافت پر واقع ہے۔

لیکن مارچ اپریل میں درکوت پاس بھاری برف باری کی وجہ سے بند تھا۔ جارج ہیورڈ یاسن میں تین مہنے قیام کرتا ہے، دوران قیام کسی نے اُن کو موڈوری قلعے کا دورہ کرایا۔ ہیورڈ جب موڈوری قلعے میں پہنچ کر دیکھتا ہے، تو پورا پہاڑ انسانی ہڈیوں اور کھوپڑیوں سے بھرا پڑا ہے، سات سال پہلے یہ واقع پیش ایا تھا، اور ان سات سالوں میں شدید سردی اور گرمی نے ان ہڈیوں کو بالکل سفید بنا دیے تھیں۔ اور ان لاشوں کو دفنانے کے لئے بھی کوئی نہیں بچے تھے، کیونکہ خاندان کے تمام افراد ہی اس واقعے میں قتل کیے گئے تھے۔

یہ صورت حال دیکھ کر ہیورڈ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں سے 147 کھوپڑیوں کو گنتا ہے، جن میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی تھیں۔ اور وہ لکھتا ہے کہ ایسی لاتعداد کھوپڑیاں اس پہاڑی پر بھری پڑی ہیں، جن کو گننا میرے لئے ممکن نہیں۔ موڈوری سے واپسی پر سندی گاؤں میں ایک سات سالہ لڑکی سے ہیورڈ کو ملاتے ہیں، جس کی ایک بازو کٹی ہوئی تھی۔ موڈوری واقعے میں وہ ایک ماہ کی تھی۔ معجزانہ طور پر ایک بازو کٹ کر بھی زندہ بچ گئی تھی۔

اسی طرح چالیس خواتین سے بھی ملوایا گیا، جن کی پیٹ کاٹی گئی تھیں۔ وہ بھی معجزانہ طور پر بچ چکی تھیں۔ ہیورڈ ہی وہ پہلا شخص تھا، جس نے موڈوری واقعے کو دنیا کے سامنے اشکار کر دیا تھا۔ حالات کا جائزہ لینے کے بعد ہیورڈ ہندوستان جانے کے لئے واپس لوٹ جاتا ہے، کیونکہ درکوت پاس جولائی میں کھول جاتا تھا۔ 1870 کے اپریل کے اخری دنوں میں ہیورڈ برزل پاس کے راستے ہندوستان لوٹ جاتا ہے۔ برزل پاس میں اُس وقت تین فٹ برف جمے تھے، جان جوکھوں میں ڈال کر ہیورڈ سری نگر پہنچ جاتا ہے، یہاں سے کلکتہ چلا جاتا ہے، اور 9 مئی کو کلکتہ کی اخبار pioneer میں موڈوری واقعے پر ایک کالم لکھتا ہے جسے اخبار ہیورڈ کے نام کے ساتھ شائع کرتا ہے۔

اس سے کچھ دن پہلے بھی ان کا موڈوری واقعے پر وائسرائے میو سے تفصیلی گفتگو ہو جاتی ہے۔ اور ہندوستانی حکومت کو مہاراجہ کی ظلم و بربریت سے اگاہ کرتا ہے۔ آرٹیکل جب اخبار میں شائع ہوتا ہے، تو ہندوستان میں ایک سنسنی پھیل جاتی ہے۔ اس سے مہاراجہ پر دباؤ بڑھ جاتا ہے، اور پوچھ گچھ شروع ہوتی ہے۔ ہیورڈ کے اس کام سے مہاراجہ مشتعل ہو جاتا ہے، اور جارج ہیورڈ کے لئے خطرے کی گھنٹی بجتی ہے۔ کیونکہ جارج ہیووڑ کو دوبارہ کشمیر کی حدود سے گزر کر پامیر جانا تھا، اس آرٹیکل کی وجہ سے ان کی جان کو شدید خطرات لاحق ہو چکے تھے۔

اس حوالے سے وائسرائے میو نے راولنسن اور R G S کو بروقت اگاہ بھی کر چکا تھا، کہ ہیورڑ کی جان کو خطرہ ہے، اسے ہندوکش کے پہاڈوں میں جانے سے روکے۔ لیکن جارج ہیورڈ نے کسی کی نہ سنی، میو نے ہیورڈ سے لکھ کے لے لیا کہ وہ اپنے رسک پے جا رہا ہے۔ غرض ہیورڈ اپنے مشن کے سلسلے میں اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ دس جون 1870 کو سرینگر پہنچ گئے، یہاں قیام کے دوران ہی اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ مہاراجہ ان کے جان کے دشمن ہو چکے ہے۔

سری نگر میں قیام کے دوران ہی ایک جسم فروش عورت کے ذریعے اسے زہر دینے کی کوشیش کی گئی تھی۔ یہاں سے اس نے اپنے ٹیلی گراف پیغام میں صورت حال سے راولنسن کو اگاہ کر چکا تھا۔ جارج ہیورڈ کی آخری امید کی کرن ان کا سابقہ دوست میر ولی تھا، وہ اس خوش فہمی میں تھا کہ ایک دفعہ کشمیر کی حدود کو عبور کر کے اپنے دوست کے پاس پہنچ جائے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا، اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ خطرہ اصل وہی پے موجود ہیں۔

جون کے آخری دنوں میں وہ گلگت پہنچ جاتا ہے، اس کے گلگت پہنچنے سے پہلے ہی کشمیر کی طرف سے ہیورڈ کے بارے میں احکامات گلگت کے گورنر کو موصول ہو چکے تھے۔ jhon key نے اپنی کتاب گلگت گیم میں لکھا ہے کہ گلگت کے گورنر نے ملک امان جو کہ موڈوری واقعے میں چترال فرار ہوا تھا، وہ ان دنوں گلگت میں مقیم تھا۔ ہیورڈ کو قتل کرنے کے لئے اسے دس ہزار روپے دیے گئے تھے، جو کہ اس نے پانچ ہزار میر ولی کو بیھج دیے۔ ہیورڈ غالباً تیرہ یا چودہ جولائی کو یاسن پہنچے تھے، یہ اس کا یاسن کا دوسرا دورہ تھا۔

ہیورڈ کو اپنے سابقہ دوست میر ولی کی انکھوں میں وہ پہلی والی محبت نظر نہیں اتی، کیونکہ مہاراجہ رنبیر سنگھ کے احکامات اور دھمکیاں میر ولی کو ہیورڈ کے امد سے قبل ہی موصول ہو چکے تھے۔ میر ولی نے جارج ہیورڈ کو قتل کرنے کے لئے جن لوگوں کو ذمہ داریاں سونپا تھا ان میں برکولتی سے ”موہبی حاکم“ اور سندی سے شمونے قبیلے کے سربراھ کے ساتھ ساتھ چھشی کے ”حاکم رحمت اللہ خان“ بھی شامل تھے۔ ان افراد کا نام کرنل شمبرگ نے اپنی کتاب between oxus and indus میں لکھا ہے۔

ہیورڈ سترہ جولائی 1870 کی شام کو درکوت پہنچتا ہے۔ ، بعض زرائعے کا کہنا ہے کہ میر ولی نے اپنا پایہ تخت ڈورکھن یاسن کے بجائے برکولتی کو بنایا تھا، کیونکہ ان کے تعلقات ہلبتنگے قبیلے سے بڑے قریبی تھے۔ یہاں سے درکوت تک کم فاصلہ ہے۔ ہیورڈ اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ شام ڈھلنے سے پہلے درکوت پہنچ جاتا ہے، دریائے اوکزس اگے دو دن کی پیدل مسافت پر واقع تھا۔ یوں کہے کہ ہیورڈ انقریب دشت پامیر میں داخل ہو چکا تھا۔

سورج کی آخری کرنیں بھی ہندوکش کے پہاڈوں کو الوداع کہنے والی تھیں، تھکاوٹ سے چوُر قافلہ اپنی شام کی تیاریوں میں مصروف تھے، شام بھی ڈھلنے والی تھی، کہ ہیورڈ کے مُنشی نے جو کہ خیمے سے باہر ٹہل رہا تھا، ہیورڈ کو یہ پیغام دیا کہ درکوت میں ہمارے پیچھے سے ستر، اسی کے قریب مسلح افراد اچکے ہیں۔ خبر سن کر ہیورڈ کے چہرے پر پریشانی کے اثرات نمودار ہونے لگے۔ اُس نے اپنے ایک ادمی کو ان مسلح لوگوں کے پاس بیھج دیا، اور وجہ پوچھنے کی کوشیش کی۔

ان مسلح لوگوں نے جن کو میر ولی نے بھیجا تھا جواب دیا کہ ہم اپ لوگوں کے حفاظت کے لئے ائے ہیں اور اپ لوگوں کو بحفاظت سرحد پار کرئنگے۔ وہ شخص واپس اکر ہیورڈ کو وہ باتیں بتائیں، وہ ان باتوں سے مطمئن نہیں ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی اندھیرا بھی چھانے لگا۔ ہیورڈ کے چہرے پے پریشانی کے اثرات بدستور نمودار تھے۔ انہوں نے رات کے کھانے میں کچھ بھی نہیں کھائے، اور ایک کپ چائے پی لی۔ خطرے رات بھر ان کے خیمے کے اس پاس منڈلاتے رہیں۔

ہیورڈ رات بھر لکھتے رہے، ایک پل کے لئے بھی نہیں سوئے۔ ایک ہاتھ میں قلم اور ایک ہاتھ میں اپنا انگریزی پستول تھامے رات بھر جاگتے رہے۔ صبح کی ٹھنڈی ہوا جب ان کی گالوں سے ٹکراتی ہے، تو بظاہر ان کے چہرے پے اطمینان نظر اتی ہے، لیکن انے والے پل ان کے زندگی کے اخری پل تھے۔ صبح اٹھ بجے کے قریب جب یہ چائے پی کے ارام کے واسطے بیٹھ جاتے ہیں تو نیند ان پے غالب اتی ہے۔ اس لمحے شاہ دین ایمان اور کاکولی جو کہ برکولتی کے رہایشی تھے ان کے خیمے میں داخل ہوتے ہیں۔

ان کے ساتھ اور بھی لوگ خیمے میں داخل ہوتے ہیں اور ہیورڈ اور ان کے ساتھیوں کو پکڑ کر ان کے ہاتھ پیچھے باندھ کر ہیورڈ کو جنگل کے ایک حصے میں اور باقی لوگوں کو دوسرے حصے میں لے جا کر بے دردی سے قتل کرتے ہیں۔ 18 جولائی 1870 کی صبح اٹھ بجے کے قریب جارج ہیورڈ درکوت فرنگ بر میں قتل ہو چکے تھے۔ سر ہنری نیوبلٹس نے اپنی نظم he fell among thieves میں اس قتل کی واقعے کو بیان کیا ہے۔ جس کو پڑھ کر ہر انکھ نم ہو جاتیں ہیں۔

ہیورڈ کے قتل کی بازگشت ہندوستان میں اگست میں سنائی دی، اور بتایا جا رہا تھا کہ ہندوکش کے پہاڈوں میں ایک سیاح قتل ہوا ہے۔ وائسرائے میو کو یقین ہوا کہ قتل ہونے والا شخص جارج ہیورڈ کے علاوھ کوئی نہیں ہو سکتا۔ قتل کی تحقیقات کے لئے جب مہاراجہ سے برطانوی حکام نے رابطہ کیا تو اس نے فریڈرک ڈریو کو جو کہ مہاراجہ کا اپنا ملازم تھا کو تحقیقات کے سلسلے میں گلگت بھیجا گیا، اس نے 20 اکتوبر 1870 کو ہیورڈ کے لاش کو درکوت سے گلگت منتقیل کرنے کے لئے ایک کشمیری ادمی جس کا نام غفار خان تھا کو بھیج دیا، اور خود گاہکوچ قلعے میں قیام کرنے لگے۔

غفار خان 23 اکتوبر کو درکوت پہنچے اور مقامی لوگوں کی مدد سے لاشوں کو ڈھونڈے گئیں۔ جارج ہیورڈ کی لاش کو اس کے بالوں اور داڈھی کی رنگت سے پہچانی گئی۔ لاش کو گلگت منتقیل کی گئی، اور 27 اکتوبر کو جارج ہیورڈ کے ہڈیوں کو گلگت خزانہ روڈ میں دفن کی گئیں۔ دفنانے کے بعد ڈریو کے آنکھوں سے آنسوں ٹپک کر قبر پر گر گئے، شاید یہی وہ بے بسی کے انسوں تھے، جن کے علاہ ڈریو نے ہیورڈ کے قاتلوں تک پہنچنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکے، اور ایک متنازع رپورٹ مہاراجہ کشمیر کے ایماء پر تیار کی گئی تھی برطانوی حکومت کے حوالے کی گئی۔

ہیورڈ کا قبر اج بھی وہی پے ہے۔ ڈریو رپورٹ کو منظر عام پر لائی گئی۔ لیکن اس رپورٹ کا حقیقت سے دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ کیونکہ ڈریو خود مہاراجہ کا ملازم تھا۔ اس نے اپنی رپورٹ میں قتل کی تمام تر ذمہ داری میر ولی اور امان لملک مہتر چترال پر ڈال دی۔ اور رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ ہیورڈ نے چترال کا دورہ نہ کرنے پر امان لملک نے میر ولی کے ذریعے ہیورڈ کو قتل کر دیا۔ اور اس متنازعہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ دوسری بار ہیورڈ نے تحفے تحائف اپنے ساتھ کم لے ائے جس وجہ سے میر ولی مشتعل ہوگئے۔

رپورٹ میں ایک جگہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہیورڈ کے واپس ہندوستان جاتے ہوئے میر ولی نے اسے کہا تھا کہ انگریز سرکار سے ہیورڈ یہ تسلیم کروائے کہ ڈوگرہ راج گلگت سے دستبردار ہو کر میر ولی کے حق حکمرانی کو تسلیم کریں۔ ہیورڈ نے یہ بات تفصیل سے میر ولی کو سمجھا چکا تھا کہ وہ سرکاری نمایندہ ہر گز نہیں ہے۔ اس لئے برطانوی سرکار اس کی سفارشات کو زیادہ اہمیت نہیں دیں گے۔ ڈریو کے اس بات میں وزن موجود تھی۔ لیکن بعد کے تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ قتل کا ذمہ دار مہاراجہ تھا۔ اور پائنیر ارٹیکل اس کے قتل کی وجہ بنی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).