غریب کا خواب ایک جرم ہے


خواب صرف وہی نہیں ہوتے ہے جسے ہم نیند کی حالت میں گزرتے ہیں بلکہ جاگتے ہوئے بھی ہم زندگی کا بڑا حصہ رنگ برنگے خوابوں میں گزارتے ہیں اور ان خوابوں کی تعبیر کے پیچھے سرگرداں رہتے ہیں۔ کسی کامیاب شخص کا قول ہے اگر آپ اس دنیا میں غریب پیدا ہوئے ہیں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں لیکن اگر آپ غریب مرتے ہیں تو یہ آپ کا جرم ہے۔

انسان اگر دنیا میں نام پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے ان تمام مایوسیوں کو اپنے ذہن سے نکال باہر کرنا ہوگا جس کی وجہ سے وہ اپنے مقصد سے دور ہو ۔ دنیا میں ترقی کا ایک ہی فارمولا ہیں اور وہ ثابت قدمی اور مستقل مزاجی۔ ہم میں سے ہر انسان کچھ نہ کچھ بننا چاہتا ہے ’آپ سڑک پر چلتے کسی شخص کو روک کر پوچھ لیجیے وہ آپ کو پوری تفصیل کے ساتھ اپنی زندگی کے عزائم بتائے گا لیکن ہم میں صرف آدھ فیصد لوگ اپنے عزائم میں کامیاب ہوتے ہیں، جبکہ باقی ننانوے اعشاریہ پانچ فیصد صد کسی نہ کسی مسئلے یا کمزوی کو وجہ کو بنا کر ہار مان لیتے ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جنہوں نے کسی بھی مشکل اور پریشانی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے خوابوں کو پورا کرنے میں مگن رہتے ہیں۔

محمد فیاض عارف والا کے گاؤں 32 ایس پی تابر میں پیدا ہوا ’والدین انتہائی غریب تھے‘ میٹرک میں تھا ’والد فوت ہو گیا‘ یہ انڈر میٹرک رہ گیا ’یہ پیٹ پالنے کے لئے دن کو پاپ کارن بیچنے لگا اور رات کے چوکیداری کرنے لگا‘ ۔ لیکن اس کا ایک خواب تھا جس کی اسے سزا بھی ملی کیونکے عام طور پر غریبوں کو ایسے خواب دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی اور پورا کرنے پر جرم کی سزا بنتی ہے ’۔ اس کا خواب تھا کے یہ پائلٹ بننا چاہتا تھا لیکن زندگی اسے پاپ کارن اور چوکیداری کی طرف لے گئی‘ یہ جھاڑ پھونکنے پر مجبور ہو گیا مگر یہ ہم جیسا ہونے کے باجود ہم جیسا نہیں تھا ’یہ جانتا تھا کہ جن کے ارادے قلیل ہوتے ہیں اور مقاصد بلند ہوتے ہیں وہ دنیا میں کانٹوں کو چنتے ہیں پھول کھلاتے ہیں اور اس دنیا کو خوبصورت رنگوں میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ دنیا کے ان آدھ فیصد لوگوں میں شامل تھا جو اپنی آئی پر آ جائیں تو اپنے خوابوں کو پورا کر کے رہتے ہیں چنانچہ اس نے ہر صورت پائلٹ بننے کا فیصلہ کر لیا۔

اب سوال یہ تھا محمد فیاض میٹرک فیل تھا ’دیہاتی تھا‘ پاپ کارن بیچتا تھا ’چوکیداری کرتا تھا اور چار بچوں کا غریب باپ تھا‘ یہ جس دن پاپ کارن نہیں بیچ پاتا تھا یہ اس دن بچوں کو بھوکا سلانے پر مجبور ہو جاتا تھا جبکہ پائلٹ بننے کے لئے تعلیم ’پیسہ اور سٹیٹس چاہیے تھا اور محمد فیاض کے پاس ان تینوں میں سے کوئی چیز موجود نہیں تھی لیکن پھر محمد فیاض نے ایک عجیب فیصلہ کیا‘ اس نے اپنا جہاز بنانے کا فیصلہ کر لیا ’آپ یہ فیصلہ دیکھئے اور پھر محمد فیاض کو دیکھئے‘ یہ انجینئر تھا ’ائیروناٹیکل سائنس کا ماہر تھا اور نہ ہی جہاز اڑانے کا فن جانتا تھا‘ یہ غربت کی اس انتہائی پست سطح پر رینگ رہا تھا جہاں دو وقت کی روٹی بھی جوئے شیر لانے کے برابر ہوتی ہے لیکن آپ اس شخص کا عزم اور حوصلہ دیکھئے ’محمد فیاض نے جہاز بنانے کے لئے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کیے‘ اپنی چار کنال زمین بیچی ’دوست احباب سے قرض لیا اور یہ فیصل آباد چلا گیا۔

کباڑ مارکیٹ سے پرانا بڑا انجن ’جنریٹر اور بارہ وولٹ کی بڑی بیٹری‘ جہازوں کے شکستہ پرزے ’پرانی گاڑی کی پرانی سیٹ اور پٹرول کے دو کین خریدے اور یہ سامان اپنے گھر میں ڈھیر کر دیا‘ محمد فیاض اب دن کو پاپ کارن بیچتا تھا ’رات کو چوکیداری کرتا تھا اور درمیان میں جو وقت بچ جاتا تھا یہ اس میں جہاز بناتا تھا‘ یہ چھ ماہ تک اس کام میں جتا رہا یہاں تک کہ اس نے ایک سیٹ کا چھوٹا سا جہاز بنا لیا ’یہ جہاز کو کھیتوں میں لے گیا‘ پٹرول کے دو کین پائلٹ کی سیٹ کے پیچھے باندھے اور جہاز سٹارٹ کر لیا۔

جہاز نہ صرف سٹارٹ ہو گیا بلکہ یہ اڑنا بھی شروع ہو گیا ’یہ بہت بڑی کامیابی تھی تاہم جہاز میں ایک دو چھوٹے چھوٹے نقص تھے‘ محمد فیاض نے یہ نقص دور کیے ’اسے یہ نقص دورکرنے میں مزید چھ ماہ لگ گئے‘ اس نے 31 مارچ 2019 ئکوعارف والا کے گاؤں 50 ای بی میں جہاز اڑانے کا اعلان کر دیا ’لوگ اس اعلان کومذاق سمجھنے لگے لیکن محمد فیاض کے پریقین لہجے نے انہیں تماشا دیکھنے پر مجبور کر دیا‘ محمد فیاض نے اپنا جہاز سٹارٹ کیا۔

چھ سو لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کیں ’جہاز اڑنے کے لئے تیار ہوا لیکن پھر اچانک پولیس پہنچ گئی۔ فیاض کا جہاز بنانا اور جہاز اڑانا بہت بڑا جرم تھا اور حقیقت میں بہت بڑی غلطی کر دی‘ یہ اپنی اوقات دیکھے اور پھر جرم دیکھے ’پیشے کا چوکیدار اور جہاز بنانے کا جرم اور یہ جرم بھی اگر بنانے تک محدود رہتا تو شاید محمد فیاض سزا سے بچ جاتا لیکن پاپ کارن بیچنے والے اس انڈر میٹرک شخص نے جہاز اڑا بھی لیا‘ ہوا میں کرتب بھی دکھا دیے اور جہاز کو چھوٹی سی سڑک پر اتار بھی لیا ’یہ ہم جیسے ملکوں اور معاشروں میں ناقابل معافی جرم ہے۔

میں حکومت پنجاب کے ترجمان شہباز گل کی تعریف کرے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ جس طرح انہوں نے فوراً بیان دیا کہ 9 فٹ لمبی جہاز نما چیز بنا کر اڑانے والے کو نہ تو کوئی تجربہ ہے نہ کوئی سند اور یہ عمل شہریوں کی جان کو خطرہ ہے اس کو قانون کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا ہے۔ اس سے مجھے تبدیلی حکومت کی عوام دوست پالیسیوں اور ان پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی نیت صاف دکھائی دے رہی ہیں کیسے تبدیلی حکومت نا تجربہ کاروں کو عوام کی زندگی سے کھیلنے پر قانون کے شکنجے میں جکڑ رہی ہے، ویسے وزیر اعلیٰ پنجاب تو ابھی سیکھ رہے ہیں، سوچیے جس دن حکومت کرنے کے ماہر ہو گئے تو کیا سے کیا کردیں گے۔

ویسے ا اگر پنجاب حکومت امریکہ میں ہوتی تو یقین کیجیے انسانی جانوں کے دشمن رائٹ برادران کو کئی فٹ لمبی جہاز نما چیزیں بنا کر اڑانے کی کوشش کے نتیجے میں حراست میں لے لیتی کیونکہ ان کے پاس نہ تو کوئی تجربہ تھا نہ کو ئی سند اور پھر دنیا میں نہ تو کوئی جہاز آتا اور نہ لوگوں کی جان کو خطرہ ہوتا۔ ویسے جہاز سے یاد آیا جہانگیر ترین صاحب کے پاس بھی ایک جہاز تھا، اور خان صاحب بھی تو جہاز میں سفر کرتے ہیں جہاز بناتے یا اڑاتے نہیں ہیں ویسے دنیا بھر میں سائینسدانوں بجلی، گاڑی، نما چیزیں بنانے پر ابتدا میں سزا دی گئی ہوتی تو اج نہ کوئی کرنٹ لگنے سے مرتا نہ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ویسے دنیا کی حکومتیں بھی کتنی عجیب ہیں وہاں اگر ایسے کوئی جہاز وغیرہ تخلیق کرتا تو انسانی کاوش کو سراہا جاتا تھا اس کو کسی تجربے کار ادارے میں نوکری دی جاتی اس کے ٹیلینٹ سے ٖ فائدہ اٹھایا جاتا خیر ہماری حکومت، ہماری مرضی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).