عامر ہاشم خاکوانی اپنا موقف بیان کرتے ہیں


\"amirڈئیر ظفر اللہ خان ، شاعری کے حوالے سے میرا حافظہ میرا ناقابل اعتبار ہے، اللہ کے فضل سے کبھی کوئی شعر موقع پر یاد نہیں آیا، غلطی سے آ بھی گیا تو کبھی اس کا وزن درست نہیں تھا، ہمیشہ کچھ نہ کچھ رہ گیا، اس لئے اشارتاً ہی فیض صاحب کے اس شعر کا ”نثری حوالہ“ دے سکتا ہوں ، وہ جو انہوں نے پنڈی

سازش کیس کے حوالے سے کہا تھا کہ
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

بھائی میں نے کب کہا کہ پاکستانی ایجنسیاں ناقابل معافی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میں نے تو طنزاً اسفند یار ولی کے بارے میں کہا تھا کہ وہ پاکستانی ایجنسیوں اور حکومت کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں کہ ان کی وجہ سے روس کے خلاف افغان تحریک مزاحمت کو سپورٹ کرنے کی وجہ سے لاکھوں افغان جانیں گئیں وغیرہ وغیرہ، مگر امریکہ جس کی وجہ سے یہ سب جنگ ہوئی، جو اصل فنانسر اور باعث تنازع تھا، اسے معاف کر کے گلے ملنے پہنچ گئے۔ یہ بات میں نے طنزاً کہی تھی۔

جہاں تک طالبان کا تعلق ہے، میری ان کے بارے میں ایک رائے ہے، اس کے مختلف اجزا ہیں۔اگر کہتے ہیں تو بیان کر دیتا ہوں۔ میں طالبان کی فکر کا قطعی حامی نہیں ہوں، ان کا فہم دین، پالیسیاں،لائف سٹائل میرے لئے کبھی پرکشش نہیں رہا، کبھی اس کو پسند نہیں کیا میں نے۔ یہ ایک خاص سخت گیر دیوبندی فہم دین پلس قبائلی رسومات یا پختون ولی کا امتزاج سا ہے۔ طالبان افغان کمانڈروں کی چار سالہ خانہ جنگی کے باعث پیدا ہوجانے والے خلا کی وجہ سے ابھرے اور پھر چھاتے چلے گئے۔ اگر ظفراللہ خان یہ کہتے اور سمجھتے ہیں کہ چھیانوے کا افغانستان مستحکم تھا اور پاکستان کی موجودہ پوزیشن جیسا تھا تو…. مجھے شدید حیرت ہوگی، کہ نرم سے نرم لفظوں میں یہ اتنا بڑا مبالغہ اور دروغ گوئی کی حد تک اوور سمپلی فکیشن ہے۔ جب طالبان اٹھے تو کیا افغانستان میں کوئی حکومت موجود تھی؟ اس کا جواب نفی میں ہے، مسعود اور حکمت یار کابل میں بیٹھے ایک دوسرے پر راکٹ برسا رہے تھے۔ اس خلا میں طالبان کا گروہ اٹھا، حالات سازگار تھے، عوام خانہ جنگی سے تنگ تھے، طالبان کو قندھار میں پزیرائی ملی، پھر یہ لہر بنتی گئی، نصیراللہ بابر وزیر داخلہ تھے، انہوں نے طالبان کی سپورٹ کا فیصلہ کیا، مگر یہ کہنا کہ صرف اس وجہ سے طالبان کامیاب ہوئے، درست نہیں کہ پاکستان نے پہلے حکمت یار کو سپورٹ کیا، مجددی کی سرپرستی کی،مگر وہ کون سی حکومت لے سکے تھے؟

خیر طالبان کا آنا افغانستان کا اندرونی مسئلہ تھا۔ طالبان نے حکومت قائم کی، اچھی یا بری، اس پر مختلف آرا ہوسکتی ہیں۔ کسی گاﺅں کے امام مسجد کو حکومت بنانی پڑے تو اسی طرح کی فہم حکومت وہ لے کر آئے گا۔ طالبان کے بارے میں یہ بات مگر سب مانتے ہیں کہ انہوں نے ملک میں امن وامان قائم کر دیا، وار لارڈز سے بھرے افغانستان کو اسلحے سے پاک کر دیا اور منشیات کا بھی خاتمہ کر دیا۔ یہ پلس پوائنٹس ہیں، منفی نکات کی کمی نہیں۔ میں بھی طالبان کے بہت سی باتوں کا ناقد رہا ہوں، بے جا سختی، زبردستی پردہ کرانا، ڈاڑھی کے حوالے سے بے جا سختی، بچیوں کے سکول بند کرانا، بامیان کے مجسمے تباہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔ ایک لمبی فہرست ہوسکتی ہے ان چیزوں کی، جن میں القاعدہ پر کنٹرول نہ رکھنا بھی شامل ہے۔ میرے نزدیک اسامہ بن لادن کو افغانستان میں پناہ نہیں دینا چاہیے تھی، اگر دے بھی دیتے تو پھر فری ہینڈ نہ دیتے۔ بہرحال طالبان نے یہ غلطیاں کیں۔
طالبان کا دوسرا فیز۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کا افغانستان پر حملہ بدمعاشی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ نیٹو افواج کا افغانستان پر قبضہ اور پھر بارہ تیرہ برس تک ڈیرے ڈال کر بیٹھ جانا غاصبانہ قبضہ تھا۔ طالبان نے غیرملکی افواج کے خلاف مزاحمت کی۔ اس بنا پر اس خاص دورانئے میں ان کی لڑائی کی بنا پر میں انہیں فریڈم فائٹر کہتا ہوں۔ میرے نزدیک غیرملکی قابض افواج سے لڑائی جہاد ہے، اس کا شرعاً، اخلاقاً جواز موجود ہے، ایسا کرنے والوں کی حمایت کرنا بھی جائز ہے۔
تیسرا فیز پچھلے سال ڈیڑھ سے چل رہا ہے، جب افغان طالبان نے اپنے اہداف میں شہری علاقے، بازار، ہوٹل وغیرہ شامل کر لیے۔ یہ غلط ہے۔ نہتے عوام کو نشانہ بنانے کا کسی صورت میں کوئی جواز موجود نہیں۔ یہ ظلم اور دہشت گردی ہے۔ پچھلے چند ماہ میںیہ کارروائیاں بڑھی ہیں۔ امریکی افواج سے جنگ کے دوران بھی شہری نشانہ بنے، مگر وہ بنیادی طور پر ہدف نہیں تھے، اب تو بعض کارروائیاں براہ راست شہریوں کے خلاف تھیں، جیسے چند دن پہلے افغان چینل طلوع کے صحافیوں کی وین پر حملہ کرنااور سات صحافی مار دینا۔ یہ تو واضح قسم کی دہشت گردی ہے۔ میرے نزدیک طالبان کی حالیہ پالیسی غلط ہے، اس کی مذمت اور مخالفت ہونی چاہیے اور پاکستانی حکومت کو کھل کر کہنا چاہیے کہ اب مذاکرات کا دور ہے، یہ کارروائیاں فوری روکی جائیں ورنہ ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ طالبان کے حامی لکھاریوں کو بھی اس حوالے سے اپنا موقف واضح کرنا چاہیے۔ میں اس پر کل ہی ایک تفصیلی پوسٹ لکھ چکا ہوں، میری وال کا وزٹ کر کے افغآن طالبان کے حوالے سے میری تازہ ترین رائے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ ہم افغان طالبان کی جن وجوہات کی بنا پر حمایت کر رہے تھے،وہ غیرملکی افواج کے خلاف ان کی مزاحمت تھی، مگر جب وہ داعش کے مقابلے میںاپنی دہشت اور ہیبت کا سکہ جمانے کی کوشش کریں گے تو پھر ہم اس رویے کی کسی صورت حمایت نہیں کر سکتے۔ جو غلط ہے وہ غلط ہے۔
یہ رہی میری افغان طالبان کے بارے میں تفصیلی رائے۔ غلط ہوسکتی ہے، اس سے اختلاف بھی ممکن ہے، مگر میں دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں۔ اس پر غور کرتے رہتے ہیں، جب لگتا ہے کہ کہیں پر غلطی ہوئی تو علانیہ اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔
باقی وہ چند دلیلیں انتہائی کمزور اور بچگانہ حد تک سادہ ہیں کہ چونکہ ڈیرہ اسماعیل خان سے ڑوب تک سفر نہیں ہوسکتا، چونکہ قصور میں چند لوگوں نے بچوں سے زیادتی کی، چونکہ فلاں جگہ دہشت گردی ہوگئی تو پھر کیا اس سے پاکستان اور افغانستان ایک جیسے ہوگئے؟ کمال ہی کر دیا خان جی آپ نے۔ مبالغہ کی انتہا ہوتی ہے۔

مجھے لگتا تھا اور اب بھی لگتا ہے کہ اگر امریکی افواج نکل گئیں تو افغان آرمی اور حکومت طالبان کے حملوں کو نہیں روک سکے گی اور قندوز کی طرح کے کئی شہر ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے، مگر بعض شہروں پر کنٹرول رہ جائے گا۔ مجھے اب یہ اندیشہ محسوس ہو رہا ہے کہ بانوے سے چھیانوے تک کے افغانستان کا منظر دہرایا نہ جائے اور افغانستان شدید خانہ جنگی کا شکار نہ ہوجائے۔ اس کا علاج یہی ہے کہ طالبان افغان حکومت مذاکرات ہر صورت کامیاب ہوں، دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کو جگہ دیں اور مل جل کر اپنا ملک چلانے کی کوشش کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments