افغان طالبان سے عہد نبھانا سیکھیے


پاکستان کے میڈیا میں اس سال کے اوائل تک افغان طالبان کے بارے میں بہت کم خبریں شائع ہوئیں۔ پہلی بار جون میں ان کا ایک وفد عزیزم اعجاز الحق سے ان کے چچا کی تعزیت کے لیے آیا اور انہیں تفصیل سے بتایا کہ 80 فی صد افغانستان پر ان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ اس وفد نے پہلی بار برملا اعتراف کیا کہ ہم نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے اور اب ہم طاقت کے بجائے مذاکرات اور سیاسی مفاہمت پر گامزن ہیں اور تمام نسلی اور قبائلی گروپس کو اقتدار میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ وفد کے ارکان نے یہ عزم بھی دہرایا تھا کہ ہم کسی فرد یا طبقے سے انتقام نہیں لیں گے۔ میں نے اس ملاقات کی روداد روزنامہ جنگ میں شائع کر دی جس کی توثیق امیر طالبان مولوی ہبۃ اللہ اخوند زادہ نے عید قرباں کے پیغام میں فرمائی تھی جو ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے شمارہ اگست میں شائع ہوا تھا۔

اس پیغام کے ذریعے انہوں نے ملک سے بڑی تعداد میں بیرونی افواج کے انخلا اور حالیہ کامیابیوں پر تمام ہم وطنوں کو مبارک باد پیش کی تھی۔ ان کا ارشاد تھا کہ پوری قوم وطن کی آزادی کی جدوجہد میں برسوں سے ہمارے ساتھ شریک ہے۔ پیغام میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ہم نے مذاکرات اور سیاسی عمل کی پیش رفت کے لیے سیاسی دفتر کھولا ہے اور مضبوط مذاکراتی ٹیم تیار کی ہے۔ ہم غیرملکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد امریکہ سمیت دنیا کے ساتھ مضبوط سفارتی، معاشی اور سیاسی تعلقات چاہتے ہیں۔

ہم اپنے پڑوسی، خطے اور دنیا کے ممالک کو مکمل یقین دہانی کراتے ہیں کہ ہماری سرزمین ان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی اور ان کے سفارت خانے، قونصل خانے، فلاحی ادارے اور ان کے سرمایہ کار پوری طرح محفوظ ہوں گے۔ ہماری آرزو ہے کہ جن افراد کو جنگ پر اکسایا جا رہا ہے، وہ عام معافی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پرسکون زندگیوں کی طرف لوٹ جائیں۔ یہ ملک ان تمام باشندوں کا گھر ہے جو یہاں آباد ہیں۔

چشم فلک نے دیکھا کہ عوام کی حمایت سے طالبان وادی پنج شیر کے سوا چند ہفتوں ہی میں پرامن طریقے سے پورے افغانستان کو آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے عام معافی کا اعلان کر دیا۔ یہ عصری تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب آفریں واقعہ تھا۔ جیلوں سے 23 ہزار قیدی رہا کیے اور انہیں بحفاظت گھروں تک پہنچایا۔ اقتدار میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنے کے لیے گروپس سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ خواتین کو طالبان اپنی حفاظت میں تعلیمی اداروں اور دفتروں تک پہنچا رہے ہیں اور میڈیا اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے بڑی حد تک آزاد ہے۔

ابھی تک ایک بھی شخص ریاستی انتقام کا نشانہ نہیں بنا ہے۔ بینک، دکانیں اور کاروباری مراکز کھل گئے ہیں اور کابل ائرپورٹ پر داعش کے دھماکوں میں 180 ؍افراد کی ہلاکت کے باوجود کابل کی رونقیں لوٹ آئی ہیں۔ طالبان کی قیادت نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے سے پہلے جو وعدے کیے تھے، ان پر حرف بہ حرف عمل ہو رہا ہے۔ انقلاب پر فخر محسوس کرنا اور آئندہ کے لیے اچھی امیدیں وابستہ کی جانی چاہئیں۔ کم از کم ہمارے حکمرانوں کو ان کی عزیمت، استقامت، عملی فراست اور وعدوں کی پاسداری سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے جو وعدہ خلافی کو حکمرانی کا زریں اصول قرار دیتے ہیں اور سیاسی مذاکرات کو اپنی سبکی محسوس کرتے ہیں۔

افغان طالبان جنہیں مغربی دنیا اجڈ، گنوار اور خونخوار کہتے آئے تھے، انہوں نے دنیا کے طاقت ور ترین 54 ممالک کی افواج کو شکست دی ہے اور انسانی رواداری اور غیرمعمولی فیاضی کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ بہترین سفارت کاری کے ذریعے عالمی برادری سے اچھے تعلقات استوار کر لیے ہیں۔ چین، روس، ایران، ترکی اور پاکستان ان کی عظمت کے قائل ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغان طالبان کو دہشت گردوں کی تنظیموں سے خارج کر دیا ہے۔

بلاشبہ انہیں بہت گمبھیر چیلنجز کا سامنا ہے۔ ابھی سلامتی اور معیشت کے سنگین مسائل درپیش ہیں جن پر وہ غیرمعمولی و فراست سے قابو پا لیں گے، مگر ہمارے ’آزاد خیال‘ صحافی اور تجزیہ کار یہ تاثر دینے میں ہلکان ہو رہے ہیں کہ افغانستان سیاسی اور معاشی طور پہ عدم استحکام کا شکار نہیں رہے گا اور شریعت کے نام پر گردنیں کاٹی جاتی رہیں گی۔

سفر آخرت

یہ خبر بجلی بن کے گری کہ کشمیری راہنما، پاکستان کے شیدائی اور جدوجہد آزادی کشمیر کی زندہ جاوید علامت سید علی گیلانی 92 سال کی عمر میں اپنے رب حقیقی سے جا ملے۔ وہ ان انقلابی شخصیتوں میں سرفہرست تھے جنہوں نے اپنی جوانی میں سرکاری ملازمت چھوڑ کر جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان کی زندگی کا ایک تہائی حصہ قیدوبند کی صعوبتوں میں گزرا۔ وہ اسمبلی کے رکن تھے، تو انہوں نے بھارت کی طرف سے پھیلائی ہوئی دہشت گردی کے باوجود پہلی بار کشمیر کا مسئلہ اسمبلی میں اٹھایا جس سے حکومت پر سکتہ طاری ہو گیا تھا۔

1991 کے اوائل میں ’مقدمۂ الحاق‘ کے عنوان سے کتابچہ شائع کیا جس کے بعد کشمیری عوام اپنی آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ بھارتی حکومت اس شیر دل بزرگ سیاست دان سے اس قدر خوف زدہ تھی کہ غاصب بھارتی فوج نے ان کے جسد خاکی کو چھین کر رات کی تاریکی میں ایک نامعلوم جگہ دفنا دیا۔ پوری وادی میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ یہ اوچھے ہتھکنڈے اب آخری سانس لے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سید علی گیلانی کے درجات بلند فرمائے اور ان کی جدوجہد کو فتح مندی عطا فرمائے!

انہی دنوں ہمارے قابل فخر دوست اور ہمارے عہد کے ممتاز دانش ور جناب مجیب الرحمٰن شامی کے بڑے بھائی صاحبزادہ ضیاء الرحمٰن شامی کراچی میں دار فانی سے کوچ کر گئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دے۔ وہ خوداعتمادی، فرض شناسی اور بے مثل کامیابیوں کا استعارہ تھے۔ انہوں نے کلرک کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور پاکستان اور حکومت کے اعلیٰ ترین گریڈ پر فائز ہوئے۔ مجھے ان کے ساتھ ملاقاتیں کرنے اور ان کی رہائش گاہ میں قیام کرنے کے مواقع ملتے رہے۔ وہ ہمیشہ ایک مشفق بھائی کی طرح پیش آتے تھے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ دوسروں کے کام آنے میں بڑی راحت محسوس کرتے تھے۔ ان کی شخصیت کا یہی جوہر زندہ رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments