تم نے ایسا کیوں کیا عالمگیر؟


اگربتیوں کا کوئی بیان نہیں، مگر منظر نگاری ہو رتن تلاؤ کے مندر کی تو مزاروں جیسی مہک وہاں محسوس ہوتی ہے۔ کردار جب پنجاب آتے ہیں تو جملوں سے ساگ، مکئی کی روٹی اور نمکین لسی کی مہک آرہی ہوتی ہے۔ وٹس ایپ یا میسنجر میں چیٹ ہوتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ آپ کتاب نہیں پڑھ رہے بلکہ کسی کے ہاتھ لگے سکرین شاٹس پڑھ رہے ہیں۔ جاوید زرینہ کی زلف سرکرتا ہے تو زبان اور ہوتی ہے۔ قاری حسین خود کش بمبار کا ازاربند ڈھیلا کرتا ہے تو زبان بدل جاتی ہے۔ یہ زبان وبیان کاہی اعجاز ہے کہ اب کسی بھی کھچوے پر مجھے صدیوں پرانی کسی خانقاہ کے مست الست درویش کا گمان گزرتا ہے۔ ایک درویش، جو گھیان بانٹتا ہے اور بات بتاتا ہے۔ زبان اور لہجے کا یہ التزام اسد محمد خان کی کہانیوں میں ملتا ہے جس کی انتہائی مثال ”باسودے کی مریم“ ہے۔

ناول ابواب کی شکل میں ہو تو قاری کعبہ اور کلیسا کے بیچ پھنس کے رہ جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک باب کسی کھڑوس پروفیسر کی طرح نہایت بور کردینے والا ہوتا ہے اور ایک باب خرابوں میں بولنے والے کسی رند کی طرح باغ وبہار ہوتا ہے۔ ناول کا خشک والا حصہ پنڈ دادن خان کے بائی پاس جیسا ہوتا ہے۔ ہردو قدم کے بعد سائن بورڈ غور سے پڑھنا پڑتا ہے کہ موٹروے شروع ہونے میں کتنی دیر ہے۔ خوشگوار باب کے آخری صفحات کا مزا اس لیے ختم ہوجاتا ہے کہ آگے جی ٹی روڈ شروع ہونے والا ہوتا ہے۔

میں اس ناول پر تنقید اس لیے نہیں کررہا کہ میں کوئی ادیب یا نقاد نہیں ہوں۔ ستائش سطی سہی، مگر بغیر کسی مبالغے کے عرض کروں گا کہ چار درویش کا کوئی ایک بھی کردار کوئی ایک بھی باب کوئی ایک بھی حصہ ایسا نہیں ہے جہاں آپ یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ چلو یار باقی بعد میں پڑھ لیتا ہوں۔ آپ باقاعدہ محسوس کرتے ہیں کہ کہانی چلتے چلتے ایک جگہ نہایت تیز رفتار ہوگئی ہے اور بجلی کی طرح گزرتی ہوئی اچانک سے یوں سمٹ گئی ہے کہ آپ کہتے ہیں ابھی تو یہ چلنی تھی، مگر سوچتے ہیں کہ کہانی کچھ ایسے سمٹ گئی ہے کہ کوئی تشنگی نہیں رہی۔ یعنی کاشف رضا یہ تو جانتے ہی ہیں کہ مجھے کیا کہناہے۔ اس سے کہیں زیادہ ادراک وہ اس بات کارکھتے ہیں کہ میں نے کیا نہیں کہنا!

نثر کی روانی اور مربوط کہانی آپ کی ترجیح ہو، عقیدت اور محبت کے بیچ کی ناہمواریوں کو سمجھنے میں دلچسپی ہو، ایک ہی وقت میں مختلف جنسی تعلقات کے معانی سمجھنے ہوں، جنسی ناہمواریوں میں نارسائی کی نفسیات کو سمجھنا ہو، فرد کی آزادی کے معانی جاننے ہوں، ثقافتی گھٹن کے پیچھے کارفرما عوامل سمجھنے ہوں، ناکامیوں اور محرومیوں کو جہاد وقتال کی خیمہ بستیوں میں پناہ لیتے دیکھنا ہو، عقیدوں کی بالادستی کی جنگ میں عقل کو محو تماشا دیکھنا ہو، بڑی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ بنامِ خدا ہوتا دیکھنا ہو، ہاتھیوں کی لڑائیوں میں بچوں کے کھلونے ٹوٹتے دیکھنے ہوں، خوابوں کو جنریشن گیپ کے بھینٹ چڑھتا دیکھنا ہو، خانگی الجھنوں کے پیچھے تہذیب مشرق کے دوہرے فلسفے سمجھنے ہوں، روایتوں کے آگے محبتوں کی بے بسی دیکھنی ہو، المیوں کے پیچھے قومی تضاد کو کارفرما دیکھنا ہو، ریاست کی جڑوں سے پھوٹتے ہوئے قومی المیے دیکھنے ہوں، مذہب اور انسانیت کے مباحث کو عملی جاموں میں دیکھنا ہو، انجامِ کار فن اور حقیقت کے بیچ کے پرپیج فاصلوں کو با آسانی محسوس کرنا ہو، پھر آگہی کی آگ میں جلنا ہو اور آخرت برباد کرنی ہو تو سید کاشف رضا کا ناول ”چار درویش اور ایک کچھوا“ کھولنا چاہیے اور پڑھنا چاہیے کہ عالمگیر نے ایسا کیوں کیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2