تم نے ایسا کیوں کیا عالمگیر؟


پہلی ہی سطر میں مجھے کہہ لینے دیجیے کہ حالیہ عرصے میں شائع ہونے والے ناولوں میں سید کاشف رضا کا ناول ”چار درویش اور ایک کچھوا“ دل کو چھو کے نکل گیا۔ اس کی سطریں مجھے ازبر ہوگئیں اور اس کے اشارے مجھ پر بیت گئے۔

کالام سے آگے گھبرال نام کا یک گاؤں آتا ہے۔ بلند پہاڑوں میں گھرا ایک گاؤں جس کے گھر شیشم کی لکڑیوں کے بنے ہیں۔ کبھی یہاں مندروں میں گھنٹیاں بجتی تھیں اب میناروں سے حی علی الفلاح کی بزرگ صدائیں آتی ہیں۔ میناروں کے اس پار چترال کے پہاڑ دکھتے ہیں جو اکثر برف کی سفید چادر اوڑھے رہتے ہیں۔ اس گاؤں سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ایک مقام شاہی باغ ہے۔ یہ قدرتی طور پر بنا زمین کا ایک وسیع ٹکڑا ہے جس کے اطراف میں پانی ایک گولائی میں بہتا ہے۔

باغ کے بیچ میں جس رخ بھی بیٹھ جائیں آپ کو بل کھاتی ہوئی کوئی آبشار نظرآئے گی۔ ہلکی سی خنکی میں کسی بھی ایک آبشار کو دیر تک دیکھیے۔ آپ محو ہوجائیں گے۔ گم ہوجائیں گے۔ بہتے پانی کی نغمگیں دل کی دھڑکوں میں بندھ کردماغ کو اپنے سحر میں لے لے گی۔ اور اس کے بہاؤ میں خود کو بہتا ہوا محسوس کریں گے۔ ایک سرد آہ بھر کر جب آپ واپس اپنے منظر میں آجائیں گے تو محسوس کریں گے کہ ہلکی ہلکی پھوار میں آپ کا بدن بھیگ چکا ہے اور سردی کا احساس بڑھتا جارہا ہے، مگر آپ یہاں سے جانا نہیں چاہتے۔ آپ پوچھیں گے، یہ سب کیا ہے۔ میں کہوں گا، سید کاشف رضا کی نثر ہے!

شاہراہ فیصل پر ہونے والے دو خونریز ریلیوں کا میں عینی شاہد ہوں۔ ایک وکلا تحریک کی ریلی جو جسٹس افتخار چوہدری کے استقبال کے لیے نکلی تھی۔ ایک پیپلز پارٹی کی ریلی جوجلاوطنی کاٹ کے لوٹنے والی بے نظیربھٹو کے استقبال کے لیے چلی تھی۔ بے نظیر بھٹو کی ریلی میں فاروق اعوان اپنے چار بھائیوں سمیت گیا تھا۔ محترمہ پرجوش انداز میں ہاتھ لہرارہی تھیں کہ زوردار دھماکہ ہوا۔ ایک گرد اڑی اور پل بھر کو سناٹا چھا گیا۔

یکلخت قیامت کا منظر کھلا جس میں بھگدڑ تھی، چیخیں تھیں اور اپنے ہی خون میں نہائے ہوئے انسان تھے۔ گرد بیٹھ گئی تو پتہ چلا کہ فاروق کا ایک بھائی شہید ہوچکا۔ دوسرے بھائی کا آج تک علم نہ ہوسکا کہ آسمان نے اچک لیا یا زمین نے پاوں کھینچ لیے۔ بے نظیر بھٹو پر راولپنڈی میں حملہ ہوا تو ہم کچھ دوست حیدرآباد سے کراچی کی طرف آرہے تھے۔ یہ خبر ان مشتعل کارکنوں سے ہوئی جو ڈنڈے اٹھائے ہائی وے کی طرف نکل آئے تھے۔ جہاں ٹرکوں اور بسوں سے شعلے لپٹے ہوئے تھے اور لوگ گاڑیاں چھوڑ کر کھیتوں میں پناہ لیے ہوئے تھے۔

رات سڑک کے کنارے گزار کر صبح جب ہم حیدرآباد میں داخل ہوئے تو انسانوں کا ایک ہجوم پیادہ پا شہر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ انیس سو سینتالیس کی ہجرت کا جو منظر ہم نے سنا اور پڑھا ہے، وہ کچھ ایسا ہی ہوگا۔ ایک طرف بے نظیر کی لاش تھی۔ ایک طرف جہاد تھا۔ یہ لاش ہم نے آہوں اور سسکیوں میں اٹھائی۔ یہ جہاد میں نے اپنے گھر میں پھلتے پھولتے دیکھا تھا۔ شاید اس لیے یہ ناول دل پہ نقش ہوگیا!

بے نظیرسے نسبت رکھنے والے دو سانحات کا پل بناکر جس طرح سے کاشف رضا ہماری سیاسی شورشوں اور سماجی المیوں کی تاریخ کو جس مہارت سے گزارتے گئے، مجھ کو ہر پانچ قدم بعد کسی حیرت کدے پر رکنا پڑا، کاشف رضا کو تصور میں مخاطب کرنا پڑا، کاشف! تم کیا چیز ہو یار۔ جتنے بھی کردار کاشف رضا نے تخلیق کیے سب اقبال کے ہوتے سوتے ہیں۔ کوئی اقبال کا بھائی ہے کوئی اقبال کا بیٹا تو کوئی اقبال کا باپ۔ محمد حنیف نے ادب میلے میں بجا طور پر ان سے پوچھا، اتنے اقبال ایک جگہ جمع کرکے کیا آپ قوم کو کوئی خاص پیغام دینا چاہتے تھے؟

اول آپ سوچتے ہیں کہ اتنے اقبال کیوں؟ پھر آپ کا دل گواہی دیتا ہے کہ ان میں ہر اقبال کے پاس اپنے اقبال ہونے کا کوئی نہ کوئی دلچسپ جواز موجود ہے۔ اس میں ایک راوی بھی ہے جو چرواہوں کو قرۃ العین طاہرہ کے مصرعوں کی طرح ایک سمت اور ایک ردھم میں یم بہ یم جو بہ جو ہانکتا ہوا لے جارہا ہے۔ مگر جہاں ناول کا سب سے منفرد کردار کچھوا سامنے آتا ہے وہ راوی کوبھیگی بلی بناکر جہلم کنارے بٹھادیتا ہے۔ راوی اور کچھوا جب توتکار کرتے ہیں تو قاری کے پاس خالق کی خلاقیت پر رشک کے سوا کوئی چارا نہیں ہوتا۔

کھانے کے بعد جیسے پشاوری قہوے کی طلب ہوتی ہے، کاشف کے ناول کے بعد طبعیت میں میلان کنڈیرا کی طرف پھر سے میلان پیدا ہوتاہے۔ ہزار پرہیز کے باجود چٹخارے جس طرح آپ کو کولڈ ڈرنکس پینے پر اکساتے ہیں کاشف کا ناول آپ کو بورخیس کی کہانیوں پرسے گرد جھاڑنے پر ابھارے گا۔ کاشف رضا جس آہنگ کے ساتھ انترے اٹھاتے ہیں اورجن راگوں سے گزر کر جہاں لے جاکر تان توڑتے ہیں، یہ انہی دو بزرگوں کا خاصہ ہے۔ میلان کنڈیرا اور بورخیس بلاتے ہوں گے، مگر یہاں اسی عرصے میں زیف سید کا ناول ”گل مینہ“ شائع ہوگیا ہے۔

چار درویش اور گل مینہ کے مصنفین کا خمیر ایک ہی سیارے سے اٹھا ہے۔ دونوں کا رزق صحافت کے شعبے سے وابستہ ہے اور زندگی کتاب سے۔ دوچیز یں دو نوں کے ہاں بطورخاص مشترک نظر آتی ہیں۔ عالمی ادب پر گہری نظر اور خاموش مزاجی۔ کاشف رضا اور زیف سید سنتے زیادہ ہیں اور بولتے کم ہیں۔ جب بولتے ہیں تو پھر سننے والوں کے پاس سننے کا ہی آپشن رہ جاتا ہے۔ یہ اتفاق بھی ذرا دیکھیے کہ ”چار درویش“ اور ”گل مینہ“ مدت تک خالقوں کی کوکھ میں رہے اور احباب کو منتیں کرنی پڑیں کہ خدا کا واسطہ ہے اب زچگی کی کوئی تاریخ لے ہی لو۔

کفر ٹوٹا تو یہ اتفاق دیکھ کر خوش گوار سا جھٹکا لگا کہ دونوں ناول نائن الیون کے بعد کی دنیا میں پیدا ہونے والی جنگی و سیاسی صورت حال کا ثر لیے ہوئے ہیں۔ دونوں ناولوں میں افغانستان اور قبائلی علاقوں سے لے کر شہری آبادیوں تک کے صورت حال کا ایک خاکہ بہرحال موجود ہے۔ گل مینہ برطانوی راج سے بات شروع کرتا ہے نائن الیون کے بعد کے منظرنامے کی طرف آتا ہے۔ کچھوا اپنی بات کا آغاز نائن الیون کے بعد سے کرتا ہوا پیچھے کی جانب چلتا ہے۔ دونوں ہی نالوں میں دو بہت اہم کردار دو مختلف صورت حال کے پیش نظر جہادی سرگرمیوں سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ اور کیا ہی خوب اتفاق ہے کہ دونوں ناولوں کے یہ دو کردار آپ کو راولپنڈی کے اس لیاقت باغ میں نظر آتے ہیں جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو نے خون سے اپنی زندگی کا تتمہ لکھاتھا۔

کاشف رضا کے ناول کی خاص بات وہ لہجے ہیں جو منظر کو تقریبا فلم کے فیتے پر چلاکر دکھادیتے ہیں۔ ناول کے الفاظ وحروف ٹوپیاں پہنتے ہیں اور نہ ٹوپیاں پہناتے ہیں۔ ماحول بے تکلف ہو تو الفاظ چڈی بنیان میں چلے آتے ہیں۔ بے غبارمعانی درکار ہوں تو الفاظ اپنے زیر جامے بھی کھسکادیتے ہیں۔ درس گاہ جیسا پرتکلف ماحول ہو توالفاظ نقاب اوڑھ لیتے ہیں مگر اس طرح کہ قاتل نگاہوں کی جادوگری متاثر نہیں ہوتی۔ جسموں کی ہم آہنگیوں میں الفاظ ٹانگ نہیں اڑاتے۔

لہجے اتنے واضح ہیں کہ کرداروں کے حسب نسب تک اپنے آپ کھلتے چلے جاتے ہیں۔ گالم گفتار سن کر آپ بتاسکتے ہیں کہ کردار گلشن اقبال کارہنے والا ہے یا اس کی صحبتیں لانڈھی لالوکھیت کی ہیں۔ جیسے جیسے علاقے، شہر اوراحوال بدلتے جاتے ہیں ویسے ویسے زبان لہجے بدلتے چلے جاتے ہیں۔ پان بیڑی کا کوئی ذکر نہیں، لیکن ناول کے کچھ کردار جب کراچی میں بول رہے ہوتے ہیں تو ان میں سے کچھ کے منہ سے مین پوری کے بھپکے آرہے ہوتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2