پنجاب میں بچوں کا اغواء ہونا سنگین معاملہ


ارشد علی راؤ

\"arshadپاکستان کو اس وقت بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ پچھلے مسائل حل نہیں ہوتے آئے روز نئے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ پانامہ لیکس کا معاملہ حکومت کے گلے میں ہڈی بن کر پھنسا ہوا ہے جسے نگلنے کی حکومت لاکھ کوششیں کر رہی ہے مگر یہ ہڈی نگلی نہیں جا رہی۔ اپوزیشن جماعتیں پانامہ لیکس کے معاملے پر حکومت کو بظاہر کوئی ریلیف دیتیں نظر نہیں آرہی اور ٹی او آرز پر اتفاق نہ ہونے کے باعث اپوزیشن سڑکوں پر نکلنے کی دھمکی بھی دے چکی ہے۔ عمران خان نے تو اسی ماہ اگست میں ایک بار پھر سڑکوں پر دھرنے دینے کا اعلان کردیا ہے۔ اس کے علاوہ سندھ میں رینجرز کے اختیارات سے متعلق وفاق اسٹیبلشمنٹ اور سندھ حکومت میں سرد جنگ جاری ہے پیپلزپارٹی رینجرز کو صرف کراچی تک محدود رکھنا چاہتی ہے اور انہیں کراچی آپریشن اچھا لگ رہا ہے کیونکہ یہ آپریشن اپوزیشن اور پی پی پی کی مخالف سیاسی جماعت ایم کیو ایم کے خلاف ہو رہا ہے۔ کیا اندرون سندھ سب ٹھیک اور جرائم سے پاک لوگ ہیں؟ حالیہ لاڑکانہ میں پیپلزپارٹی کے بااثر وڈیروں نے سرکاری اہلکاروں کو اپنے اوپر ہاتھ ڈالنے پر یرغمال بناکر ریاستی رٹ کو واضع الفاظ میں چیلنج کیا اور ایک جرائم پیشہ شخص کو جو بقول وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال کے اسد کھرل پیپلزپارٹی کا کارکن ہے اسے ریاستی اداروں کی تحویل میں سے چھڑا کر بھگا دیا گیا۔ بس اپنے لوگوں کے جرائم اور دہشتگردی کو چھپانے کے لیے پیپلزپارٹی رینجرز کو اندرون سندھ اختیارات دینے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

یہ صورتحال تو سندھ کی ہے اگر پنجاب کی جانب رخ کیا جائے تو وہاں حکومتی نمائندوں کو مسائل سے زیادہ اپوزیشن کو جوابات دینے کی زیادہ فکر لاحق ہے۔اپنے اردگرد پیدا ہونے والے خطرناک مسائل کی جانب حکمرانوں کی توجہ ہی نہیں ہو پا رہی۔

پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ ملکی مسائل اور منصوبہ بندی پر سب سے زیادہ کم وقت خرچ کیا جاتا ہے۔ حکمراں بس اپنی نیک نامی کمانے کی عجلت میں رہتے ہیں۔ کالعدم جماعتیں اور دہشتگرد ایک بار پھر پنجاب میں سر اٹھا رہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کچھ روز میں دس سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں کی ایک بڑی تعداد پنجاب بھر سے اغواء ہوچکی ہے۔ گذشتہ پانچ ماہ میں تقریباً سات سو سے زائد بچے اغواء ہو چکے جن میں تین سو سے زائد بچے صرف لاہور سے لاپتہ ہوئے ہیں۔ اس انتہائی سنگین معاملے پر حکومت گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے۔ کسی حکومتی نمائندے نے اس پر پارلیمنٹ سمیت دیگر فورم پر اظہار خیال نہیں کیا۔ پنجاب میں گڈگورننس کا دعویٰ کرنے والی ن لیگ کی کیا یہ گڈگورننس ہے؟ کسی حکومتی نمائندے یا خادم اعلیٰ نے ان بچوں کے ورثاء کو تسلی دے کر انہیں بازیابی کی یقین دہانی کرا کے ان کے غم کا کو ہلکا نہیں کیا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ بچے کسی سابق وزیراعظم، گورنر اور کسی موجودہ چیف جسٹس کی اولاد نہیں تھی جو ملک کی فورسز تمام وسائل بروئےکار لاتے ہیں ان کے کھوج میں لگ جائیں۔ یہ تو ایک عام آدمی کی اولاد تھی اور ایک عام آدمی کی اس ملک میں سنتا کون ہے۔

ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے یہ معاملہ کتنا حساس نوعیت کا ہے اگر ہم گذشتہ دس برسوں میں ہونے والے خودکش دھماکوں کی تفصیلات میں جائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کے زیادہ تر حملہ آوروں کی عمریں سولہ سے چوبیس سال کے درمیان رہی ہیں۔ یہی وہ بچے ہیں جن کے کھیلنے کودنے اور پڑھنے کے دن ہوتے ہیں۔ ملک کے مستقبل کا معمار ان بچوں سے ان کا یہ حق چھین کر کر انہیں اغواء کر لیا جاتا ہے۔ پھر کسی کو  معذور کرکے فقیر کے روپ میں بھیک مانگنے پر لگا دیا جاتا ہے تو کسی کو نشہ آور ادویات دے کر ان کی ذہن سازی کر کے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں خودکش حملوں میں ان کا استعمال کر کے پوری انسانیت کو شرما دیا جاتا ہے۔

آج سات سو بچے نہیں بلکہ سات سو چاند ستارے چلے گئے ہیں جو بڑے ہوکر اس ملک کا مستقبل سنوار سکتے تھے ملک کی ترقی میں روشنی کا سبب بن سکتے تھے، اگر اب وہ ظاہر ہوں گے تو جرائم کی دنیا میں جرائم پیشہ بن کر یا سات سو خودکش بمبار بن کر سات ہزار افراد کے لیے موت کا پیغام بن کر اور اس سب کی ذمہ داری حکومت وقت اور ہمارے سیکورٹی اداروں پر عائد ہوگی۔ اگر بروقت اقدامات کرکے ان بچوں کو بازیاب کرلیا جاتا تو آج ملک میں خودکش بمبار نہیں بنتا کوئی لیکن مایوسی کن بات یہ ہے کے انتہاہی سنگین معاملہ ہونے کے باوجود حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات، اندرون سندھ کراچی میں اغواء برائے تاوان کے واقعات ہم نہیں بھولے تھے کے ایک اور دل دہلا دینے والے المیے نے جنم لے لیا۔ ان بچوں کے والدین کس اذیت اور کرب میں مبتلا ہوں گے اس کا اندازہ صاحب اولاد ہی لگا سکتا ہے۔ اگر آج عام لوگوں کے بچے لاپتہ ہورہے ہیں تو کل کسی بڑے کی باری بھی آسکتی ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور ان معصوم پھول جیسے مہکتے بچوں کو دہشتگرد بننے سے بچالیجیے اس معاملے پر سنجیدگی سے سوچیے ورنہ کل آپ کے وسیع پروٹوکول کو توڑتا ہوا آپ کی گاڑی کے سامنے پھٹنے والا خودکش بمبار ان بچوں میں سے ہی کوئی ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments