شیخ چلی، منگو خان اور دنیا کا بہترین گدھا


یہ اس زمانے کا ذکر ہے کہ جب ملک نیمروز پر چنگیز خان کے پوتے خاقان منگو خان کی حکومت تھی۔ منگو خان آدھی دنیا کا بادشاہ تھا مگر اس دنیا پر حکومت کرنے کے لئے اسے بے شمار گھوڑوں اور گدھوں کی ضرورت پڑتی تھی جو اس کی فوجیں اور ساز و سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکیں۔ ظاہر ہے کہ ان گدھوں گھوڑوں کو پالنے پر خرچہ بہت آتا تھا۔ منگول اپنے گھوڑوں سے بہت محبت کیا کرتے تھے۔ ہر برس ان کے راشن میں خوب اضافہ کر دیا کرتے تھے۔ مگر گدھوں کا معاملہ مختلف تھا۔ منگولوں کی رائے میں گدھے اس قابل نہیں تھے کہ ان کو زیادہ سر چڑھایا جائے۔ اس لئے گدھوں پر کیے جانے والے مصارف انہیں بہت چبھتے تھے۔

انہی دنوں شیخ چلی ولایت سے واپس ملک نیمروز آیا۔ اس نے منگولوں کی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے سوچا کہ اس مسئلے کا حل اس نے نکال کر دے دیا تو خاقان منگو خان اسے کسی بڑے صوبے کا حکمران بنا دے گا۔ شیخ چلی بہت عرصے تک سوچتا رہا اور مختلف تجربات کرتا رہا۔ اسی اثنا میں ایک روز بے آب و گیاہ صحرائے گوبی کو پار کر کے اونٹوں کا ایک قافلہ ملک نیمروز پہنچا۔ شیخ چلی قافلے والوں سے ملا اور ان سے پوچھا کہ صحرائے گوبی میں تو کئی دن سفر کرنا پڑتا ہے اور درمیان میں نہ کہیں پانی کی ایک بوند ملتی ہے اور نہ سبزے کی ایک پتی۔ تو پھر وہ یہ سفر کرنے میں کیسے کامیاب ہو گئے۔

قافلے والوں نے بتایا کہ ان کے پاس اونٹوں کی ایک ایسی نسل ہے جو ہفتہ بھر کھانا کھائے اور پانی پیے بغیر زندہ رہ لیتی ہے۔ صحرا میں چلتے چلتے وہ اپنے کوہان میں جمع چربی سے کام چلا لیتے ہیں۔ اور جب انہیں کھانا پانی ملتا ہے تو وہ دوبارہ موٹے تازے ہو جاتے ہیں۔ ان کے اجداد عرصے سے یہ نسل پال رہے ہیں۔

یہ سن کر شیخ چلی کے دماغ کی بتی جل گئی۔ وہ سیدھا گھر گیا اور اپنا سب سے قیمتی لباس پہن کر منگو خان کے دربار میں پہنچا۔ اس نے اذن باریابی چاہا تو علم ہوا کہ خاقان منگو خان ابھی نہیں مل سکتے کیونکہ اس وقت وہ سلطنت کے نامی گرامی سیانوں کے ساتھ اجلاس کر رہے ہیں کہ گدھوں کا خرچہ کیسے کم کیا جائے تاکہ گھوڑوں کو زیادہ سے زیادہ چارہ ڈال کر خوش کیا جا سکے اور حکومت کو استحکام نصیب ہو۔

یہ سنتے ہی شیخ چلی خوشی سے اچھل پڑے۔ انہوں نے دربان کو کہا کہ میں اسی مسئلے کا حل لے کر آیا ہوں۔ خاقان منگو خان کو اطلاع دو کہ شیخ چلی گدھوں کے مصارف کو نہایت کم کرنے کا ایک منصوبہ لائے ہیں۔ دربان فوراً انہیں خاقان منگو خان کے دربار میں لے گیا۔

منگو خان نے شیخ چلی کا حلیہ دیکھا تو بہت متاثر ہوا۔ جب شیخ چلی نے بتایا کہ وہ ولایت میں طویل عرصے تک جدید علوم کی تحصیل کرتے رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی شیخی مار دی کہ وہ ولایت کے شاہی اصطبل کے نگران تھے، تو منگو خان بہت خوش ہوا کہ ایسا نادر روزگار ماہر اسے ملا ہے۔

شیخ چلی نے منگو خان کو بتایا کہ اگر تمام سلطنت کے گدھوں کو اس کی نگرانی میں دے دیا جائے تو ان پر ہونے والا خرچ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا کیونکہ اس کے پاس ایسے طریقے ہیں جنہیں استعمال کر کے گدھوں کی خوراک نہایت کم ہو جائے گی لیکن ان کی صحت پہلے سے بہتر ہو گی۔ خاقان منگو خان شیخ چلی کی باتیں سن سن کر بہت متاثر ہو چکا تھا۔ وہ شاہی فرمان جاری کرنے والا تھا کہ وزیر نے اس کے کان میں کچھ کھسر پھسر کی۔ خاقان کچھ دیر تک سوچتا رہا اور پھر اس نے شیخ چلی کو کہا ”میں سلطنت کے ایک چوتھائی گدھے تمہارے حوالے کر دیتا ہوں۔ تم کب تک انہیں اس قابل کر دو گے کہ وہ بہت کم کھانا کھا کر بھی حکمرانوں کی خوب خدمت کریں؟ “

شیخ چلی نے آٹھ ماہ کی مہلت مانگی۔ خاقان منگو خان نے دے دی۔ شیخ چلی نے سلطنت کے ایک چوتھائی گدھوں کا اصطبل سنبھال لیا۔ آٹھ ماہ گزر گئے تو خاقان منگو خان نے شیخ چلی کے اصطبل کا رخ کیا۔ دروازے پر پہنچا تو دیکھ کہ شیخ چلی کی پگڑی زمین پر پڑی ہے، بالوں میں خاک ہے اور آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔ خاقان نے پوچھا کہ ”کیا ہوا، گدھے کیسے ہیں؟ “ یہ سن کر شیخ چلی نے اصطبل کا دروازہ کھولا اور منگو خان کو اندر لے گیا۔

منگو خان کی آنکھیں یہ دیکھ کر پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک مردہ گدھوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ اس نے گھبرا کر پوچھا کہ یا شیخ، یہ کیا ماجرا ہے؟

شیخ چلی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ ”گدھے نہایت ہی بے وقوف نکلے۔ میں انہیں گزشتہ آٹھ مہینے سے روز گھاس ڈال رہا تھا لیکن اہتمام یہ کیا تھا کہ ہر روز ہر گدھے کو ایک تنکا کم ڈالا جائے۔ اس سے وہ کم کھانے کے عادی ہوتے گئے حتی کہ ایک روز ایسا آیا کہ وہ کھانا کھائے بغیر زندہ رہنے کے عادی ہو گئے۔ لیکن ہماری حکومت کی قسمت ایسی خراب ہے کہ جیسے ہی ان کی تربیت مکمل ہوئی وہ فوت ہو گئے اور ہم دنیا کے بہترین گدھوں سے محروم رہ گئے جنہیں پالنے کا خرچہ صفر ہوتا“۔

اب شیخ چلی کے ساتھ منگول حکمران خاقان منگو خان نے جو سلوک کیا، وہ ننھے ننھے معصوم بچوں کو بتانا ممکن نہیں ہے۔ بہرحال حالات حاضرہ سے دلچسپی رکھنے والے بڑوں کو یہ بتایا جا سکتا ہے کہ یکم اپریل سے کامل چار روز بعد غربت ختم کرنے کا پلان دیتے ہوئے سپیکر پختونخوا اسمبلی نے کہا ہے کہ جو شخص دو روٹیاں کھاتا ہے وہ ایک روٹی کھائے تو اگلے دن وہ تین روٹیاں کھا سکتا ہے۔ ہماری رائے میں یہ اچھا منصوبہ ہے اور اگر حکومت کی قسمت خراب نہ ہوئی تو ایک روز ایسا آئے گا جب عوام کھانا کھائے بغیر زندہ رہنے کے عادی ہو جائیں گے اور یوں نہ صرف ان پر کیے جانے والے مصارف میں کمی ہو گی اور ملک سے غربت کا خاتمہ ہو جائے گا، بلکہ اس بچت کے نتیجے میں گھوڑوں کی مراعات میں مزید اضافہ کیا جا سکے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar