سیاست کا شمشان گھاٹ اور ادھ جلی ارتھی سے اٹھتا دھواں


آج عالم سیاست ایک بے زاری بھرا منظر پیش کرتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت ہے اور کیا مایوس کن کارکردگی ہے! پیپلز پارٹی ایک کھنڈر ہے جس سے مستقبل کے لئے کوئی اچھی امید نہیں وابستہ کی جا سکتی۔ نواز لیگ کے پاس ویسے ہی کون سا وژن تھا؟ اب تو الحمد للہ یتیم بھی ہو گئی۔ متحدہ مولوی اتحاد ایک پھس پٹاخہ ہے۔ اس لہسن کی گانٹھ کا ایک دانہ جماعت اسلامی بھی ہے۔ اب یہ جماعت الحمد للہ 500 اور 800 ووٹ لیتی ہے۔ پھر متحدہ قومی موومنٹ ہے جو بغیر انجن کی ٹرین ہے۔ پھر پاک سرزمین پارٹی ہے جو اب پی ٹی وی کی طرح ہے کہ غلطی سے یہ چینل لگ جائے تو بھی لوگ ایک سیکنڈ میں بدل دیتے ہیں۔ ایسے میں کون سی جماعت سے مسیحائی کی امید لگائی جائے؟

غور کیجئے تو اب کسی جماعت کی کوئی نظریاتی لائن ہی نہیں، بس وفاداریاں ہیں۔ پھر وفاداریاں بدلتی بھی ہیں۔ ماضی قریب میں متحدہ نے جس طرح الطاف حسین سے لاتعلقی اختیار کی، اس پر سلیم احمد کا قطعہ یاد آتا ہے …

کہاں تک ہو گی غم کی پاس داری

لہو اپنا بھلا کب تک پئیں گے

کئے تھے جب کسی سے عہد و پیماں

یہ اندازہ نہ تھا اتنا جئیں گے

یہ میدان سیاست ہے یا بھوسی ٹکڑوں کی دکان؟

یہ میدان سیاست ہے یا متروکہ قبرستان؟

یہ میدان سیاست ہے یا کچرا کنڈی؟

یہ سوالات دل کو پریشان کرتے ہیں، اب کوئی قائد، کوئی قیادت کچھ موجود نہیں۔ اب جو ہے وہ صرف ایک سو فیصد مصنوعی فضا ہے۔ پاکستان میں اقتدار کبھی عوام کے پاس تو خیر تھا ہی نہیں مگر اب یہ اقتدار کسی کے پاس بھی نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں حکومت کی جگہ ایک خلا ہے اور اس خلا کو پر کرنے کے تمام تر امکانات اس قدر جعلی جماعتوں، قیادتوں کے پاس ہیں کہ یہ خلا کبھی پر نہ ہو گا۔ جمہوری حکومتیں ہمارے وطن میں اکثر وقت محض ایک آرائشی چیز ہی رہی ہیں مگر اب تو یہ آرائشی جہت بھی جمہوری حکومت سے ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ اصل حاکم بقول شاعر ’’چلمن سے لگے بیٹھے ہیں۔ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس انجینئرنگ زدہ انتخابات کے بعد عوام کی جمیع اکثریت کو جو شدید بے بسی کا احساس دلایا گیا ہے جو اس حکومت کے قیام کے بعد سے ہونے والے عوام دشمن اقدامات سے سو گنا بڑھ گیا ہے، تو آخر ہمارے ملک کے حقیقی حکمرانوں کی عوام سے توقع ہے کیا؟

ہمارے ملک میں اکثر یہ بات بجا طور پر کی جاتی ہے کہ ہمارے ملک کے تمام ہی سیاستدان دراصل اسٹیبلشمنٹ کے دسترخوان کے ہی پروردہ ہیں۔ بھٹو صاحب ایوب کے بیٹے تھے، نواز صاحب جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء کے، الطاف حسین صاحب جنرل حمید گل کے بنائے ہوئے ’’فرینک انسٹائن‘‘ تھے۔ بینظیر کو بنایا تو اسٹیبلشمنٹ نے نہیں تھا مگر وہ اسٹیبلشمنٹ سے بڑے خوشگوار تعلقات ہر مرتبہ پیدا کر لیتی تھیں۔ جنرل ضیاء کے جہاز حادثے سے قبل یہ دلچسپ فضا ملک میں پیدا ہو گئی تھی کہ اگر جنرل صاحب دارفانی سے یوں کوچ نہ فرماتے تو وہ ملک کے صدر ہوتے اور محترمہ وزیر اعظم۔

پھر یہ اے این پی اور دیگر قوم پرست کس طرح اسٹیبلشمنٹ کے آشیرباد سے اقتدار و اختیار کی جھلکیاں لیتے رہے، یہ کس سے پوشیدہ ہے؟ جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی جماعتوں نے بھی اس بڑے دستر خوان کا لنگر بڑے ذوق و شوق سے کھایا ہے۔ تھوڑی بہت لڑائی مشرف دور میں اسٹیبلشمنٹ سے نظر تو آتی تھی مگر وہ بھی بڑی کاسمیٹک قسم کی تھی۔ مشرف کے زیر سایہ جماعت اسلامی نے 5 سال اقتدار کی جھلکی دیکھی اور ضلعی یا سرحد کی صوبائی حکومت سے کبھی کسی اصولی معاملے پر بھی جدا نہ ہوئی۔ سچ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہر دکان میں ہی اپنا مال سجا رکھا تھا مگر ظاہر ہے کہ اقتدار بھلے نام کا ہی ہو مگر جس کے پاس آتا ہے اس کا دل یہ چاہتا ہے کہ بس اب سارا اقتدار مجھے ہی ملنا چاہئے۔ اتنی بڑی خواہش نہ بھی ہو تو بھی کہیں نہ کہیں نام کا حاکم بھی اپنی چلانا ضرور چاہتا ہے۔ انہی چکروں میں جونیجو اور جمالی کی چھٹی ہوئی، انہی چکروں میں زرداری آج رل رہے ہیں اور شریف صاحب جیل میں ہیں۔ انہی چکروں میں الطاف حسین کے ٹیلی فون کا تار کاٹ دیا گیا اور محترمہ گڑھی خدابخش بھٹو پہنچ گئیں۔

مگر اب جو پتلی تماشہ ملک میں جاری ہے وہ تو شوکت عزیز کے تماشے سے بھی زیادہ بورنگ ہے۔ اب تو فواد چوہدری اور فیاض الحسن چوہان جیسے لوگ کھلے اشاروں میں کہتے ہیں کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی ہیں۔ ’’کیا زرداری صاحب سی ایس ایس  کر کے ملک کے صدر بنے تھے؟ وہ ’’بھی‘‘ تو کونڈو لیزا رائس کی سیڑھی چڑھ کر صدر بنے تھے۔‘‘ اس بیان میں ’’بھی‘‘ اہم ہے، یعنی وہ کونڈو لیزا رائس کی سیڑھی سے حاکم بنے تھے اور ہم الحمد للہ اپنی اسٹیبلشمنٹ کی سیڑھی سے ۔

مگر یہ کتنا بھیانک تقابل ہے۔ مطلب دراصل یہ ہے کہ کوئی حقیقی حکمران ہے ہی نہیں۔ آخر یہ پیچھے سے ڈوریاں ہلانے والے سامنے آ ہی کیوں نہیں جاتے ہیں؟ کیونکہ عوام جس درجہ اپنی بے بسی سے مایوس ہیں ممکنہ طور پر یہ مایوسی کسی بڑے زلزلے کی شکل اختیار کر لے گی۔ یہ 1857ء سے پہلے والی خاموشی ہے۔ حکومت کمپنی کی اور نام بادشاہ کا۔ عوام محصولات کے وزن تلے دبے اور ہر لمحہ محکومی کے احساس سے دل تنگ ہوتے ہوئے۔۔۔ ایسی مایوسی طوفان لاتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ 1857ء میں ہند برطانوی اقتدار سے تو آزاد نہ ہو سکا تھا مگر کمپنی بہادر کے ہاتھ سے اقتدار ہند نکل گیا تھا بلکہ کمپنی ختم ہی ہو گئی تھی۔ پاکستان شاید کسی بہت بڑے طوفان کا متحمل نہ ہو سکے مگر کیا یہ ڈوریاں ہلانے والے جانتے ہیں کہ ایسے کسی بحران کے نتیجے میں ان کا ٹھکانہ کیا ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).