آپریشن رد و بدل، انوکھا لاڈلا اور لے پالک دانش فروش


خواب آگیں اور خوش کن امیدوں کی زمین پر بیٹھ کر سہانے اور مسحور کن مستقبل کا خیالی پلاؤ پکانے والوں کی معصومیت اپنی جگہ۔ موہوم خبر کو اپنی خواہش کا زرق برق لباس زیب تن کروا کر خاکی سامراج سے خالص جمہوری راج و رواج کی برآمدگی کی دلکش لفظی پیکر تراشی بھی کوئی جرم نہیں۔  نو ماہ میں ہی بہار آفریں گلشن کی بربادی کے نوحے سنا کر صیّاد کو اپنے کیے پر کفِ افسوس ملتے ہوئے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے ارادے کا خوش نما و دل افروز خیال بھی کچھ برا نہیں۔

گھرکو گھر کے چراغ سے آگ لگا کر تماشا دیکھنے والوں کی حیرانی وپشیمانی کی خوش رنگ امید پر بھی کوئی قید نہیں۔  عین عالم شبا ب میں جمہوری سفر کی منزل کوکھوٹا کر کے دیکھی ان دیکھی آمریت کے مہیب اور آسیب زدہ سائے کو مسلط کرنے والوں کے حوالے سے پسپائی اور جگ ہنسائی کی باتیں کرنے پر بھی پابندی نہیں۔  تین سو ایام سے بھی کم مدت میں کاروبار سلطنت کو قعرِ مذلت میں گرانے والوں کی جبینوں پر عرقِ ندامت کے قطرے دیکھنے والوں کی دیدہ وری پر بھی کسی کو کلام نہیں۔  کھیل کے تمام اصول بدل کر منجھے ہوئے اورتجربہ کار کھلاڑی کے خلاف اپنی ذاتی دشمنی کی بھڑاس نکالنے کے لیے ایک اناڑی اور نکھٹو کو میدان میں اتار کر سیاسی و عوامی کھیل کا بیڑہ غرق کرنے والوں کا اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے کی تکرار کا راز افشا کرنا بھی بہت خوش آئند سہی۔

چہار طرف پھیلے گھٹا ٹوپ اندھیرے اور ظلمت شب کی پچھل پائی کے اندھے رقص میں امید کی ضیاپاشیوں کو عام کرنے والوں کی سادہ لوحی پر بھی اعتراض نہیں مگر یہاں تھوڑا سا رک کر اپنے درماندہ، افسردہ اور دل گرفتہ ماضی پر تو نظر ڈال لیجیے۔  جمہوریت کی بحالی کے لیے درجنوں سویلین وزرائے اعظم کی عزت نفس اور خودداری کی کٹی پھٹی لاشوں کو تو دیکھ لیجیے۔  سویلین بالا دستی کے لیے لڑے جانے والے معرکوں کے ہنگام آمریت کے جلاّدوں کے خون آلود ہاتھوں سے تین وزرائے اعظم کے صلیب پر جھولتے جسم تو ملاحظہ کر لیجیے۔

مملکت خداداد کے تین بار منتخب وزیر اعظم کہ جس نے تعمیر و ترقی اور خو شحالی کے نئے آفاق دریافت کیے، ذرا آمرانہ جمہوریت میں اس حرماں نصیب اور سیاہ بخت کردار کے ساتھ روا رکھے جانے والے انسانیت سوز اور وحشت ناک سلوک کا کچھ تو ادراک کیجیے۔  اور کچھ نہیں نہیں تو مطلق العنان اور جاہ پسند اقتدار و اختیار کے طلب گاروں کے پنجہء خونیں میں سسک سسک کر دو لخت ہوتے قائد اعظم کے پاکستان کی آہ و زاری اور سینہ کوبی پر تو کان دھریے۔

ستر سال سے آپریشن ادل بدل کرنے والے نو ماہ میں راہ راست پر کیسے آ سکتے ہیں؟ ابھی تو پہلی محبت کے خمار کی مانند تبدیلی کا نشہ ہی کہاں اترا ہے؟ ابھی تو سیاست کو رومان بنانے والے اپنی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔  ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ قرض کی مے پینے والے وزیر اعظم سے بادشاہ گروں کو اب بھی معجزوں کی امید ہے۔  پشاور میٹرو کے لیے منگوائی گئی بسوں کے دروازے اسٹیشن کی مخالف سمت لگوانے والوں سے اب بھی نئے پاکستان کی نیو رکھنے کی توقع ہے۔

کچھ لوگ آپریشن ردو بدل کرنے والوں کی طرف سے چند قلم فروش صحافیوں اور بکاؤ اینکرز کو میدان میں اتارنے کے عمل کو حقیقی تبدیلی کا نقطہ آغاز قرار دے کر بغلیں بجا رہے ہیں۔  سب جانتے ہیں کہ ہم جیسے لوگوں پر قلم فروشی، لفافہ برداری کا الزام لگانے والے قلم کے بیوپاری خود ”انقلاب“ کے حقیقی سر چشموں کے درباروں کے حاشیہ بردار اور ناز بردار رہے ہیں۔  دانش فروشوں کے اسی دلالی قبیلے کے ایک لفظوں کے بیوپاری نے موجودہ حکمرانوں کی نا اہلی اور نالائقی پر تبرا کرتے ہوئے انہیں چھوٹے دماغوں اور بڑی زبانوں والی عجیب مخلوق قرار دیا ہے۔

کمین گاہوں کے لے پالک نجات دہندہ اور قائد اعظم ثانی کے حق میں قصیدہ خوانی اور شعلہ نوائی کے نئے اسلوب ایجاد کرنے والے اور ان کے دستر خوان سے خوشہ چینی کرنے والے یہ شہ دماغ اور روشن چراغ کیا اس تبرا بازی سے قبل برملا یہ اعتراف کریں گے کہ انہیں اپنی دیدہ وری، کوتاہ اندیشی اور بے بصیرتی پر سخت ندامت ہے کیونکہ وہ اونچی بارگاہوں کی مسندوں پر براجمان شکاریوں کے کہنے پر ایک اناڑی کو کھلاڑی، جواریوں کے نمائندے کو نجات دہندہ، بے ہنر کو ہنر مند، مریضانہ ذہنیت کو مسیحائے وقت، ہٹلر، نپولین، مسولینی اور سٹالن جیسے فاشسٹ کو قائد اعظمِ ثانی قرار دیتے رہے ہیں۔

انہیں یہ بھی مان لینا چاہیے کہ عدل و انصاف کی سب سے اونچی کرسی پر بیٹھے دلال کو عدل و انصاف کا روشن ستارا، عیب زدہ نیب کے پیادے کو احتساب کے لبادے میں ملبوس شرفا کی عزتوں کا قاتل و پگڑی اچھال بریگیڈ کے ادنٰی ترین ہرکارے کو احتساب و محاسبے کا شاہکار کہتے رہے ہیں۔  انہیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ جواریوں کے کہنے پر انہوں نے تاریخ پاکستان کی بدترین سلیکشن کو منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف الیکشن قرار دے کر لوگوں کو ورغلایا اور جمہوریت کا تماشا لگایا۔

ابھی تو مملکت خداداد کے مفلوک الحال اور پسے ہوئے عوام کی ہڈیوں کا گودا اور مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کے مارے حرماں بختوں کے نچڑے ہوئے جسموں میں چند بوند خون باقی ہے۔  ابھی ہم یہ کہنے کے قابل نہیں ہیں کہ اک ذرا صبر کہ جبر کے تھوڑے ہیں۔  ابھی تو کہنہ مشق جواریوں کو طیور کی زبانی یہ اڑتی سی خبر بھی ہضم نہیں ہوئی کہ ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے پنجاب میں حمزہ شہباز کے و زیراعلیٰ بننے کی راہ ہموار ہوتی نظر آ رہی ہے۔  سو انہوں نے اپنی زر خرید عیب زدہ نیب کو شہباز پر چھوڑ دیا۔ اس ظرف کے مالک شکاری اپنے درماندہ گھوڑے کو لمبی ریس کے آغاز ہی میں دوڑ سے باہر ہوے ہوئے کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ لاڈلوں کے لاڈلے کی رخصتی اس وقت ہو گی جب زندگی کے عذابوں کی ماری خلق خدا جواریوں اور شکاریوں کی مہربانی پر سرعام شکوہ سنج ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).