نتن یاہو: غربِ اردن میں یہودی آبادیوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا وادہ


نتن یاہو

منگل کو اسرائیل میں انتخابات ہیں جن میں نتن یاہو کا مقابلہ دائیں بازو کی ایسی جماعتوں سے ہے جو غربِ اردن کو ضم کرنے کی حمایت کرتے ہیں

اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامین نتن یاہو کا کہنا ہے کہ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو وہ غربِ اردن میں یہودی آبادیوں کو اسرائیل کا حصہ بنا دیں گے۔

منگل کے روز اسرائیل میں انتخابات ہیں جن میں نتن یاہو کا مقابلہ دائیں بازو کی ایسی جماعتوں سے ہے جو غربِ اردن کو ضم کرنے کی حمایت کرتی ہیں۔

یہ بستیاں بین القوامی قوانین کے خلاف ہیں، لیکن اسرائیل ان قوانین کو نہیں مانتا۔ گذشتہ ماہ امریکہ نے شام سے 1967 میں قبضہ کی ہوئی گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کر لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

گولان کی پہاڑیاں: صدر ٹرمپ نے سب بدل دیا!

مقبوضہ غربِ اردن میں کار حملہ، ایک ہلاک

اسرائیل نے نئی یہودی بستی کی تعمیر کی منظوری دے دی

اسرائیل نے تقریباً چار لاکھ یہودیوں کو غربِ اردن میں آباد کیا ہے اور دو لاکھ کو مشرقی یروشلم میں۔ غربِ اردن میں لگ بھگ 25 لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔

فلسطینی غربِ اردن، مشرقی یروشلم اور غزا کی پٹی پر مشتمل ایک ریاست بنانے کے خواہش مند ہیں۔

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان سب سے متنازعہ معاملہ ان آبادیوں کا مستقبل ہے۔ فلسطینوں کا ماننا ہے کہ ان آبادیوں کی موجودگی میں کسی بھی ریاست کی تکمیل ناممکن ہو گی۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی ان آبادیوں کے مسئلے کو وجہ بتا کر براہ راست مزاکرات سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ بستیاں امن کے راستے میں رکاوٹ نہیں ہیں اور ان پر گفت و شنید کی جا سکتی ہے۔

نتن یاہو نے کیا کہا؟

اسرائیلی ٹی وی پر ایک انٹرویو کے دوران وزیر اعظم نتن یاہو سے پوچھا گیا کہ انھوں نے ابھی تک غربِ اردن میں بڑی یہودی آبادیوں پر اسرائیل کی حاکمیت کیوں نہیں قائم کی ہے۔

انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا ’اگر آپ یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہم اس سلسلے کو اگلے مرحلے تک لے کر جائیں گے تو اس کا جواب ہے ہاں، ہم لے کر جائیں گے۔‘

غربِ اردن

‘کسی اعلان یا اقدام سے حقائق نہیں بدلیں گے۔ یہ بستیاں غیر قانونی ہیں اور ان کو ہٹایا جائے گا۔’

’میں اسرائیل کی حاکمیت کو بڑھاؤں گا اور اس حوالے سے بڑی آبادیوں کے بلاکس اور چھوٹی بستیوں کے بیچ فرق نہیں کروں گا۔‘

فلسطینی رہنما محمود عباس کے ترجمان نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی اعلان یا اقدام سے حقائق نہیں بدلیں گے۔ یہ بستیاں غیر قانونی ہیں اور ان کو ہٹایا جائے گا۔‘

خطرناک بیانات

سباسچیئن اشر، بی بی سی عرب امور ایڈیٹر

بنیامین نتن یاہو کی طرف سے ایسے موضوع پر بیان جس کی وجہ سے برسوں سے امن کا سلسلہ رکا ہوا ہے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ بیانات ایسی جماعتوں کے دلوں میں گونجیں گے جن کے ساتھ یہ جیت کی صورت میں اتحادی حکومت بنانا چاہیں گے۔

البتہ ضم کرنے کا خیال مزید فلسطینی غصے اور بین الاقوامی مزمت کی وجہ بنے گی۔

نتن یاہو کی ہمت میں اضافہ ٹرمپ حکومت کی وجہ سے ہو سکتا ہے جنھوں نے گذشتہ ماہ گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا۔

سیاسی پس منظر کیا ہے؟

نتن یاہو کی لیکود پارٹی کا سخت مقابلہ دائیں بازو کی بلو اینڈ وائیٹ سیاسی اتحاد سے ہے۔

تاہم دیگر پارٹیاں، جن میں سے کچھ ضم ہونے کی حمایت کرتی ہیں، شاید اتحادی حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کریں۔

لیکود پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے والے 29 میں سے 28 قانون سازوں نے اس نظریے کی حمایت کی ہے۔ پیچھے رہ جانے والے ایک ہی قانون ساز ابھی تک وزیر اعظم نتن یاہو خود تھے۔

امن مزاکرات کی صورت حال کیا ہے؟

صدر ٹرمپ کی حکومت مشرق وسطہ میں امن کے حوالے سے منصوبے کو وضح کرنے کی تیاریوں میں مگن ہے، جو کہ امریکی حکام کے مطابق عدل پر مبنی ہو گا۔

تاہم ٹرمپ حکومت نے حالیہ تاریخ میں ایسے کئی اقدامات اٹھائے ہیں جن سے فلسطین میں غم و غصہ پایا جاتا ہے جبکہ اسرائیل ہونے والی پیشرفت سے خوش ہے۔

سنہ 2017 میں ٹرمپ نے دہائیوں سے جو امریکی حکمت عملی تھی اس کو الٹاتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا۔

اس کے رد عمل میں محمود عباس نے امریکہ سے تعلق ترک کر دیا، یہ کہتے ہوئے کہ امریکہ امن کا ثالث نہیں بن سکتا۔

گذشتہ سال امریکہ نے اقوام متحدہ کے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کو پیسے دینا چھوڑ دیے، یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو فلسطینی پناہ گزین کی 1949 سے دیکھ بھال کر رہی ہے۔

گذشتہ ماہ مارچ میں انھوں نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی حاکمیت کو منظور کر لیا۔

ہفتے کے روز ریپبلکن جوئیش کولیشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے تنبیہہ کی کہ سنہ 2020 کی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جیت سے ’اسرائیل غیر محفوظ‘ ہو سکتا ہے۔

اسرائیل اور فلسطین کے مابین مزاکرات میں 2014 سے توقف آیا ہوا ہے، جب امریکہ کی طرف سے ایک کوشش ناکام ہوئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp