اکبر سومر و کے ناول ’کھماچ‘ پر تبصرہ


’کھُماچ‘ بَرّ صغیر کا ایک کلاسیکی رومانوی راگ ہے اور اکثر ہندوستانی فلمی گیت اس راگ میں کمپوز کیے جاتے ہیں۔ یہ اکبر سومرو کا دوسرا ناول ہے۔ اس سے پہلے اُن کا ایک ناول ’شہر جی گالھ‘ کا اردو ترجمہ ’تمہارے شہر میں‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔

یہ ناول سن 2000 ع کی دہائی کی عکاسی کرتا ہے جب دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ کا اثر پورے پاکستان اور خاص طور پر کراچی میں واضح نظر آتا ہے۔ کراچی میں ہرماہ دہشتگردی، خود کش حملوں اور فائرنگ کے واقعات میں سینکڑوں افراد اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں کراچی کے ایک کمپلیکس میں رہائش پذیر کچھ اپر مڈل طبقے کے خاندانوں پر یہ کہانی مرتکز ہے۔

ناول کا مرکزی کردارایک پر کشّش شخصیت کے مالک عماد حسنین ہیں جو اپنی بیوی رومیسا اور دو بچّوں کے ساتھ ایک اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں۔ رومیسا عماد کے ساتھ بہت خوش و خرم زندگی بسر کرتی ہے لیکن جب اسے عماد کا اپنی محّلہ دار لڑکی زارا کے ساتھ افیئر کا پتہ چلتا ہے تو وہ یہ کڑوا سچ نگل کر عبادات میں پناہ لیتی ہے۔ بعد میں ٹرین میں سفر کے دوران ربیعہ نامی ایک اور لڑکی سے عماد کی دوستی ہو جاتی ہے۔

ایک فلیٹ میں ہم جنس پرست اُنس رہتا ہے جس کی دوست مونا ہے۔ اُنس کے ساتھ کچھ ماہ گزارنے کے بعد مونا اس کی غیر سنجیدہ روّیے اور اُنس کے بوائے فرینڈ شہاب پوپی کے ساتھ اس کی اٹیچمینٹ سے بیزار ہوجاتی ہے۔ اسے اُنس کے ساتھ اپنی زندگی بے معنی لگنے لگتی ہے۔ کچھ روز بعد اُنس اپنے آپ کو شدید تنہائی کا شکار پاتا ہے۔ وہ مونا سے جھگڑا کر کے مونا کو گھر سے نکال دیتا ہے۔ آگے چل کر مونا عماد کی قربت بھی حاصل کرتی ہے۔

خاندان اور عزّت کے نام پر بلیک میل کر کے زارا کی منگنی زبردستی اس کے اَن پڑھ کزن سے کر دی جاتی ہے۔ منگنی کے دوسرے روز زار ا زہر کھا کر خود کشی کر لیتی ہے جس سے عماد کو شدید صدمہ پہنچتا ہے۔ زارا کی موت کے لئے عماد اپنے آپ کو بھی ذمیدار سمجھتا ہے۔ زارا کی یادوں سے چھٹکارا پانے کے لئے عماد ربیعہ سے تولقات استوار کر لیتا ہے۔ جب رومیسا کو عماد کے ربیعہ کے ساتھ بھی تعلقات کا پتہ چلتا ہے تو وہ پہلے کی طرح عماد کو محبتوں کے سیراب میں چھوڑ دیتی ہے۔

سندھی ناول کی روایتی صورت کے بر عکس اس ناول میں مصنّف نے ہر باب کو ایک عنوان دیا ہے جو کہ ہر باب کے مرکزی نقطے کوابھارنے کے ساتھ ساتھ کہانی کو بھیمزید آگے بڑھاتاہے۔ اکثر ابواب کے عنوانات کچھ گیتوں سے لئے گئے ہیں جیسا کہ ’ساکوں یار پلا کے اکھیاں دی‘ ، ’وہ نہ آئیں گے پلٹ کر انہیں لاکھ ہم بلائیں‘ ، ’مورا سیّاں مو سے بولے نہ‘ اور دوسرے کچھ عنوانات شاعری سے بھی لئے گئے ہیں جیسا کہ ’ایک بارود کی جیکیٹ اور نعرہئی تکبیر‘ وغیرہ۔ اکبر سومرو نے ناول میں شاعری اور موسیقی کا استعمال ابلاغیاتی میڈیم کے طور پر نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیا ہے۔ بہت سی جگہوں پر اردو اور انگریزی کے گیتوں کے ذریعے اپنی کہانی کو اور زیادہ مضبوط بنایا ہے۔

مصنّف نے نہایت خوبصورتی سے منظر نگاری کر نے کے بعد اپنے خیالات اور موضوعات کو کرداروں سے بخوبی کہلوایاہے۔ ناول کے مرکزی موضوعات میں پدر شاہی سماج، پاکستان میں طبقاتی نظام، کراچی کا سیاسی ماحول، انسانی نفسیات و خود غرضی اور شہروں میں مشینوں کی طرح کام کرتی انسانی زندگی شامل ہیں۔ پہلے باب میں زارا سے ملنے کے بعد اپنی بیوی سے بیوفائی پر افسوس کرتے ہوئے عماد سوچتا ہے کہ ’ہر فرد دوسروں کے جذبات سے کھیل رہا ہے۔

سب دن رات ایک دوسرے سے جھوٹ بول رہے ہیں اور اپنے لئے جو بہتر سمجھتے ہیں وہ کر تے رہتے ہیں ’۔ ملکی سیاست پر بات کرتے ہوئے ایک کردار کہتا ہے کہ‘ جنرل ضیاء کی لگائی گئی آگ بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی ’۔ دوسری جگہ پر ایک پروفیسر کہتے ہیں کہ‘ ملک میں دو شہر ہی تو ہیں جن کے کچھ مخصوص علاقوں میں انسان اپنے دل کی آگ ہلکی کر سکتا ہے۔ باقی تو پورے ملک کی رگوں میں افغانستان خون کی طرح دوڑتا پھر رہا ہے ’۔

اکبر سومرو نے فلسفے اور انسانی نفسیات پر بھی انتہائی نفاست اور مہارت سے لکھا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار عماد حسنین اپنے یکے بعد دیگرے معاشقوں کے بارے میں ارسٹوفینس کے نظرئیے پر یقین کرتا ہو دکھائی دیتا ہے۔ ایرسٹوفین کا کہنا تھا کہ ’کائنات میں پہلے مرد اور خاتون آپس میں جڑے ہوئے تھے پھر انہیں دیوتاؤں نے ایک دوسرے سے الگ کردیا۔ اب ہر مرد اپنے اُس دوسرے آدھے حصے کا متلاشی ہے‘ ۔ اسی وجہ سے انگریزی زبان میں بیوی کے لئے لفظ بَیٹرہاف استعمال ہوتا ہے۔ ’لیکن ایسے کتنے افراد ہیں جن کو واقعی اپنا بَیٹرہاف ملتا ہے‘ اکبر لکھتے ہیں ’لاکھوں میں شاید ایک یا دو۔ باقی سب کو سمجھوتا کرنا پڑتا ہے‘ ۔

ربیعہ سے پدر شاہی نظام پر بات کرتے ہوئے عماد کہتے ہیں کہ ’عورت میں کائناتی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یہ دنیا جتنی مرد کی ہے اتنی ہی عورت کی بھی ہے۔ عورت کو کم تر قرار دینے والے قوانین وروایات در اصل عورت کی شخصیت سے خوفزدہ ہیں۔ عورت ایک شاندار وجود ہے‘ ۔

کراچی میں مختلف دہشتگردی کے واقعات کے بارے میں حکومتی ارکان دہائیوں پرانے بے بنیاد دعوے اور ہمیشہ وہ ہی اسٹیریو ٹائیپ بیانات دیتے نظر آتے ہیں جیسا کہ ’پڑوسی ملک کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ ، ’ملک دشمن عناصر کی شرارت‘ ، عوام کی جانوں کی حتی الامکان حفاظت کرنے کا عزم ’وغیرہ وغیرہ۔

یہ ناول بہت سے اور سوالات بھی اٹھاتا ہے مثلاً کیا ہم سب فقط اس لئے زندہ ہیں کہ ایک دن بغیر کسی احتجاج کے مر سکیں؟ کیا انسان دنیا میں صرف ڈائننگ ٹیبل، بیڈ روم اور واش روم استعمال کرنے آیا ہے؟ کیا اِس کے علاوہ بھی انسان کا کوئی اور کام ہے دنیا میں؟ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہم سب کو اپنا نہیں لیکن اوروں کا وقت درکار ہے؟ کیازندگی میں فرد کی دلچسپی ختم ہو نے کے بعد اس کی مو ت جلد واقع ہو جاتی ہے؟

کتاب کا نام: کُھماچ

مصنّف: اکبر سومرو

صفحات: 203

اشاعت: 2017

ناشر : کویتا پبلیکیشنز، حیدرآباد

قیمت : 350 روپے

(محمد صدیق سومرو جامعہ سندھ کے شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹدیز میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).