حسین نواز کے خلاف قابل اعتبار شواہد نہیں دیے گئے: انٹر پول


لندن (مرتضیٰ علی شاہ ) انٹرپول نے حکومت پاکستان کی جانب سے حسین نواز کے خلاف ریڈ وارنٹ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اسے گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کردیا ہے، انٹرپول کا کہنا ہے کہ حسین نواز پر لگائے گئے الزامات کے خلاف کوئی قابل اعتبار شواہد جمع نہیں کروائے گئے۔ نمائندہ جنگ کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق پاکستانی حکام نے حسین نواز کی تحویل کی درخواست بین الاقوامی ادارے انٹرپول کو دی تھی جو کہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف عدالت کے حالیہ فیصلے کے بعد دی گئی تھی۔

تاہم وہ انٹرپول کوریڈ وارنٹ جاری کرنے پر قائل نہ کر پائے۔ پاکستان نے یہ درخواست اسلام آباد میں نیشنل سینٹرل بیورو (این سی بی ) کے ذریعے سے دی تھی۔ اگر چہ فریقین کی جانب سے اس کیس میں سیکڑوں دستاویزات جمع کروائی گئی تھیں تاہم انٹرپول کمیشن نے 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا اور کہا کہ حسین نواز پر لگائے گئے الزامات کے خلاف کوئی قابل اعتبار شواہد جمع نہیں کروائے جاسکے۔ کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حسین نواز کے خلاف ریڈ وارنٹ جاری کرنے کے لئے دستاویزات غیر واضح ہیں۔

عمران خان کی حکومت نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ حسین نواز سے متعلق پاکستان سے ریڈ نوٹس کی درخواست ہے کیوں کہ ان پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے، جس کی بنیاد پر 10 جولائی، 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر 1 نے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ حکومت پاکستان نے انٹرپول کو بتایا کہ حسین نواز احتساب عدالت میں حاضر نہیں ہوئے، جس کی وجہ سے وہ 15 نومبر، 2017 کو احتساب عدالت کی جانب سے شتہاری ملزم قرار دیے گئے۔

اس حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی تھی کہ ملزم نواز شریف نے سرکاری عہدے پر فائز ہوتے ہوئے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور فلیٹس 16، 16۔ 1، 17 اور 17۔ اے آمدن سے زائد اثاثوں کی بنیاد پر حاصل کیے اور یہ ظاہر کیا کہ انہیں ملزم حسین نواز شریف کے نام پر حاصل کیا گیا ہے اور اس میں ملزمہ مریم نواز کو ٹرسٹی بنایا گیا تھا۔ جسے رپورٹ اور فارینزک رپورٹ سے جعلی ثابت ہوئی اور اس طرح ملزم اور حسین نواز بے نامی معاونین ثابت ہوئے۔

طرفین کو کیسز کو مدنظر رکھتے ہوئے انٹرپول نے نوٹ کیا کہ آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت اس کی سخت پابندی ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی حیثیت سے کوئی عہدہ یا حیثیت اختیار کرے۔ این سی بی پاکستان نے کمیشن کو بتایا کہ درخواست گزار کا 1973 کے آئین پاکستان کے آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل کیا جائے، این سی بی نے کہا کہ حسین نواز پر الزامات بے بنیاد ہیں اور نواز شریف، مریم اور ان کے شوہر کو ٹرائل کے بعد پورے حقوق ملے، کمیشن کو بتایا گیا کہ پاکستانی حکام نے انہیں ٹرائل کے لئے لندن کے پتے پر سمن بھیجے لیکن اسلام آباد کی احتساب عدالت میں وہ ٹرائل کی کارروائی کے لئے پیش نہ ہوسکے۔

انسانی حقوق کے معاملے پر کمیشن نے نوٹ کیا کہ اس کا کردار نہیں ہے کہ ملکی قوانین یا عدالتی نظام کی عملداری کرے لیکن درخواست پر خاص معلومات پر انٹرپول قوانین کے تحت جائزہ لے سکتی ہے۔ حسین نوازنے موقف اپنایا کہ ان کے خاندان کے خلاف کارروائی سیاسی مقاصد کے لئے کی گئی ہے اور پاکستان مسلم لیگ نواز اور شریف خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کے لئے اور عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچا نے کے لئے ہے۔ سی این بی نے موقف اپنایا کہ حسین نواز کا بیان بے بنیاد ہے اور اس پاکستان میں پراسکیوشن کی کارروائی سے بچنے کے لئے ہے۔
بشکریہ جنگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).