اسلام، ہتھکڑی اور فواد چودھری


ہمارے وزیر اطلاعات فوادچودھری اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش پر برہم ہیں کہ محض الزام کی بنیاد پر ملزم کو ہتھکڑی لگانا انسانیت کی تذلیل اور غیر شرعی عمل ہے اور یہ کہ جُرم ثابت ہوئے بغیر ہتھکڑی لگانے سے بدنامی ہوتی ہے۔ وزیر اطلاعات نے اس پر پھبتی کسی ہے کہ کسی امیر کو ہتھکڑی لگے تو ’اسلام‘ یاد آجاتا ہے، وزیر اطلاعات کا یہ بیان بالکل اسی تسلسل میں ہے جس میں وزیر اعظم عمران خان نے حمزہ شہباز شریف کی محض دو روز کے لئے منظور ہونے والی ضمانت پر ٹوئیٹ کر دیا کہ پہلی قومیں اس لئے برباد ہوئیں کہ ان کے ہاں امیر، غریب کے لئے الگ الگ قانون تھا۔

سوشل میڈیا پر سوچ اور پروٹوکول کی پابندی نہیں لہذا انہیں ترنت جواب مل رہے ہیں جن میں شہباز شریف بھی بنی گالہ کا حوالہ دے رہے ہیں جس کی ناجائز تعمیر کو قانونی قرار دے دیا گیا مگر دوسری طرف کراچی سے خیبر تک ہزاروں غریبوں کی دکانیں اور مکانات گرا دئیے گئے۔ نواز شریف محض اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں جھوٹے اور خائن ٹھہرے مگر جناب عمران خان ذاتی، سیاسی اور کاروباری الزامات کے طوفان میں بھی صادق اور امین قرار پائے اور یہی سہولت ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانے والی ان کی بہن محترمہ علیمہ خان کو بھی دستیاب ہوئی۔

کیا اسلامی نظریاتی کونسل نے کوئی ایسی سفارش کی ہے جو آئینی ، قانونی رویوں اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے تو ایسی کوئی بات نہیں مگر حکمرانوں کو شوق ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو ہتھکڑیاں لگائی جائیں، انہیں رسوا کیا جائے، وہ ان کے گھروں پر ریاستی اداروں کے ذریعے حملے کروانا چاہتے ہیں، وہ وہا ں سیڑھیاں پہنچاتے ہیں کہ اگر دیواریں پھلانگ کے بھی اندر داخل ہوسکیں تو ہو جائیں مگر اس کے لئے سرکاری ملازم اسی طرح کی زبان استعمال کرتے ہیں جیسے وہ کسی ریاستی ادارے نہیں بلکہ مخالف سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہوں۔

مذہب اور قانون ہر شخص کو اس وقت تک معصوم اور بے گناہ تصور کرتا ہے جب تک اس پر جرم ثابت نہ ہوجائے اور یہی وجہ ہے کہ عدالتیں ہمیشہ شک کا فائدہ ملزم کو دیتی ہیں مگر مشرف دور سے پولیٹیکل انجینرنگ کے لئے استعمال ہونے والے نیب میں یہ معاملہ الٹ ہے۔ نیب کا قانون الزام لگنے کے بعد یہ ذمہ داری ملزم پر عائد کردیتا ہے کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرے۔ کیا ہمیں اسلام اور آئین کے ساتھ جانا چاہئے یا ایک ایسے قانون کے ساتھ جو متنازعہ ہے لہذا میں تو اس سے بھی آگے کی بات کرتا ہوں کہ آپ اس وقت تک کسی کو گرفتار بھی نہیں کر سکتے جب تک آپ اس پر کسی جرم کو ثابت نہ کر دیں۔

یہاں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ملزم، الزام لگنے کے بعد، فرار ہو سکتا ہے اور تفتیش میں رکاوٹ بن سکتی ہے تو قانون یہاں حوالاتی کا تصور پیش کرتا ہے مگر کسی بھی شخص کو محض الزام لگنے پرکسی خود کار طریقے سے حوالاتی بنانا بھی درست عمل نہیں بلکہ اس کے لئے آپ کو کسی مجاز قانونی ادارے سے درخواست کرنا پڑے گی کہ وہ آپ کے تحفظات کا جائزہ لے۔ اگر ہم یہا ں دوبارہ نیب ہی قانون اور اس کے تحت قائم عدالتوں کے عمل کا جائزہ لیں تو علم ہوتا ہے کہ خصوصی عدالتوں کے بیشتر جج انصاف کرنے کی بجائے محض ا س ادارے کی نوکری کرتے ہیں جس سے انہیں جوڑا گیا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ خصوصی عدالتوں کے فیصلوں کی اکثریت اپیلوں میں اپنا جواز اور مقام کھو بیٹھتی ہے۔

سورۃ الاحزاب کا مطالعہ کیجئے، محض اٹھارہ آیات ہیں، آپ کو انسان کی عزت اور شرف بارے رہنمائی ملے گی، آپ کو کسی برے لقب سے پکار نہیں سکتے، آپ کسی کے بارے میں تجسس نہیں کرسکتے، آپ کسی کے بارے میں برا گمان نہیں کر سکتے، آپ کسی کی غیر موجودگی میں وہ برائی بھی بیان نہیں کر سکتے جو واقعی اس میں موجود ہو، مجھے بتائیے کہ اس سے بڑھ کے انسانی حقوق آپ کو کس چارٹر میں ملیں گے لہذا میں اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے سے بھی آگے جاتا ہوں اور ایک میڈیا پرسن ہونے کے حوالے سے کہتا ہوں کہ محض الزام لگانے پر گرفتاری اور ہتھکڑی لگانا تو دور کی بات، آپ اس شخص کے نا م اور چہرے کی تشہیر بھی نہیں کر سکتے اور ہمارے مذہب کا دیا ہوا یہ بنیادی اصول اس وقت مغرب میں لاگو ہے۔

میں نے بہت ساری خبروں میں یہ دیکھا کہ جب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف مختلف الزامات میں کارروائی ہو رہی تھی تو متعلقہ ادارو ں نے محض یہی اطلاع دی کہ اس عمر کے ایک شخص کے خلاف تحقیق ہو رہی ہے اور اس کے علاوہ اس کی کوئی شناخت جاری نہیں کی۔ یہ ہمارے ادارے تھے جنہوں نے اسے الطاف حسین کے ساتھ جوڑا اور نام نشر اور شائع کیا۔

میں مختلف علمائے کرام کی رائے سے استفادہ کرتے ہوئے یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ اگر کسی ملزم کو تحویل میں نہ لینے سے نقص امن یا تحقیق متاثر ہونے کا خدشہ ہے تو آپ اسے گرفتار کر سکتے ہیں اور اگر یہ خطرہ ہے کہ ملزم بھاگ سکتا ہے تو اس کے لئے بھی اقدامات تجویز ہوسکتے ہیں یعنی یہاں جواز مل سکتے ہیں مگر الزام ثابت ہونے سے پہلے ملزم کی شناخت ظاہر کرنے اس پر پروپیگنڈے کا کوئی جواز نہیں جیسے نیب کے ایک اہلکار نے حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری کے لئے ناکام کوشش کے دوران یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ قائداعظم، علامہ اقبال اور سرسید احمد خان کا حقیقی وارث ہے اور یہ کہ پاکستان غریب ہوتا چلا جا رہا ہے اور کچھ لوگ امیر ہوتے چلے جار ہے ہیں اور ان لوگوں پر منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں حالانکہ اپنے مکالموں سے کسی سستے ہیرو کا تاثر دینے والے اس شخص کو یاد کرنا چاہئے تھا کہ اس کے ادارے نے اس سے پہلے میاں نواز شریف پر پاکستان کی پوری معیشت کے برابر رقم کی لانڈرنگ کے الزامات بھی عائد کئے تھے اور پھر اس مجہول حرکت پر کسی قسم کی معذرت بھی نہیں کی گئی تھی۔

نواز شریف پر بھارت میں منی لانڈرنگ کے الزامات جیسے بہت سارے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ محض الزامات کی رپورٹنگ پر پابندی ہونی چاہئے اوریہ پابندی اس حد تک ہونی چاہئے کہ ملزم کا نام، چہرہ، رہائش اور ذریعہ روزگار تک واضح نہ کیا جائے، ہاں، یہ سب اسی صورت میں کیا جائے کہ جب جرم ثابت ہوجائے اور اس کا مقصد بھی معاشرے میں قانون اور انصاف کے ذریعے جرم سے نفرت اور سزا کا خوف پیدا کرنا ہو۔ میں جانتا ہوں کہ اسے بہت سارے لوگ جرائم پیشہ افراد کے حقوق کی وکالت کے نام سے کنفیوژ کریں گے مگر میں اب اتنی تفصیل سے بات کرنے کے بعد ان کے آئی کیو لیول کا ماتم نہیں کر سکتا۔

حیرت کی بات ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں ہونے کی بات کرتے ہیں مگر ساتویں صدی عیسوی میں نازل ہونے والے اس چارٹر پر بھی عمل نہیں کر پاتے جو اسلام سے قبل ہم سے کہیں زیادہ سخت اور اجڈ بلکہ خونخوار طبیعت رکھنے والوں کو معاملات اور اخلاقیات کی اعلیٰ ترین تعلیم دینے کے لئے نازل کیا گیا تھا۔ ہم تو صرف کنیٹینر پر کھڑے ہو کے الزام لگاتے ہیں جبکہ وہ معاشرہ تو ایسا تھا جس میں مخالف کا کلیجہ تک نکال کے چبا لیا جاتا تھا ،یہ بہیمانہ کام عورتیں تک کرتی تھیں مگر دوسری طرف رحم و کرم کا یہ عالم تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ مشرکین کو رسیوں سے باندھ کر پیش کیا گیا تو انہوں نے رحمت اللعالمین ہونے کے ناطے ان کی رسیاں کھول دینے کا حکم دیا۔

میں نے فواد چودھری کے بیان کے بعد جناب وزیراعظم کا ٹوئیٹ بھی دیکھا تو خیال آیا کہ ہم اسلام کو محض اپنے ذاتی، سیاسی اور گروہی مفادات کے لئے استعمال کیوں کرتے ہیں اور جب اسلام ہمیں اپنے اخلاق اور عمل کو درست کرنے کا حکم دیتا ہے تو ہم علمائے کرام پر پھبتی کس دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).