2010 کا خوفناک سیلاب اور ہمسائے ایران کا سلوک


پاکستان کی تاریخ کے خوفناک ترین سیلاب 2010 سے تقریباً ایک سال پہلے میں راجن پور کے علاقے کوٹ مٹھن میں ایک غیر سرکاری سماجی تنظیم کے ہمراہ قدرتی آفات سے مقامی سطح پرنمٹنے کی بروقت تیاری کے حوالے سے ایک منصوبہ میں کام کررہا تھا۔

ہمارے منصوبے کا مرکزی خیال مقامی افراد کو اپنے وسائل میں رہتے ہوئے سیلاب سے قبل از وقت تیاری، سیلاب کی پیشگی اطلاع، سیلاب آنے کی صورت میں مقامی آبادی کا انخلا، بچاؤ، بحالی، سیلاب کے بعد دوبارہ آباد کاری، تعمیر نو جیسے موضوعات پر مقامی لوگوں کی استعداد کار میں اضافہ کرنا تھا۔

عام مشاہدے اور تجربے کی بات ہے کہ حکومتی مساعی پر نظر دوڑائیں تو سطحی، وقتی اور آخری موقع پر ہڑبونگ کی حالت میں اقدامات کوفت کا باعث ہوتے رہے ہیں۔ حکومتی اداروں کی متوقع سیلاب اور بارشوں سے پیدا شدہ صورت حال سے نمٹنے کی تیاری کے دعوؤں کے باوجود نتیجہ صفر ہوتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ قدرتی صورتحال میں مقامی لوگوں کی شرکت پر جب تک توجہ نہیں دی جائے گی خالی خولی تیاریوں سے کچھ نہ ہوگا۔ اور یہ بھی درست ہے کہ موسم کی شدت اور قدرتی حالات نقصان کا باعث ضرور بنتے ہیں لیکن عین وقت پر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے اقدامات کی بجائے اگر منصوبہ بندی کے ساتھ مساعی کی جائیں تو ان کی روک تھام انسانی بس کی حد تک ممکن ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ جنوری 2010 میں عطا آباد جھیل کا واقعہ پیش آیا، یہ جھیل پہاڑ کے ایک حصے کے سرکنے یعنی لینڈ سلائیڈ کے نتیجے میں 2010 ء میں وجود میں آئی۔ یہ جھیل عطا آباد نامی گاؤں کے نزدیک ہے جو کریم آباد وادئی ہنزہ، صوبہ گلگت بلتستان، سے 22 کلومیٹر اوپر کی جانب واقع ہے۔ جون 2010 کے پہلے ہفتے میں جب پانی بند کے اوپر سے بہنے لگا تو نشیبی علاقوں کے لوگ سیلاب کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہونے لگے۔ تاہم حکومتی اور امدادی اداروں کے مطابق کسی بھی بڑے سیلاب کے امکانات بہت کم تھے، چند سرکاری افسران کا یہ اندازہ غلط نکلا کہ جھیل کے بھرنے کے بعد جو پانی بہے گا وہ 60 فٹ بلند لہر کی صورت میں ہوگا۔

اور اگر ہم سب کو یاد ہو کہ 2010 میں مون سون کی بارشیں بھی مقامی ماہرین موسمیات کے اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے بہت زیادہ ہوئیں، جوکہ خیبر پختونخواہ، پنجاب اور سندھ میں پاکستان کی تاریخ کے ا ب تک کے سب سے بڑے سپر فلڈ کا باعث بنیں اٹک سے لے کر میانوالی، لیہ سے لے کر ڈی جی خان، راجن پور سے لے کر گھوٹکی، سکھر، ٹھٹھہ تک ایک قیامت صغریٰ کے مناظر تھے۔ اس خوفناک سیلاب سے تقریبا 1600 انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ 2 کروڑ لوگ بلاواسطہ یا بالواسطہ متاثر ہوئے،

میں اور میرے ساتھی راجن پور میں Early Warningسیلاب سے بچاؤ کی پیشگی اطلاع، اور مقامی آبایوں کیEvacuation انخلا اور کیمپ قائم کرنے میں مصروف تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کوٹ مٹھن ریلوے اسٹیشن کے قریب مقامی ضلعی حکومت کی معاونت سے ہم نے جو پہلی خیمہ بستی قائم کی ”وہ تمام خیمے ایرانی حکومت کی طرف سے ملے تھے، اوراطلاعات کے مطابق جب پاکستان نے سیلاب کے چوتھے روز عالمی برادری سے مدد مانگی تو ہمسایہ ملک ایران سب سے پہلے پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ پاکستانی شہریوں کی مدد کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔

سیلاب کے پانچویں دن ایرانی ہلال احمر کی ٹیمیں امدادی سازوسامان (امدادی کشتیوں، امدادی ہیلی کاپٹرز ودیگر) کے ساتھ پاکستان کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئے۔ مجموعی طور پر 7 مختلف کھیپوں میں 330 ٹن پر مشتمل تقریبا 20 کروڑ مالیت کی اشیائے خورد و نوش، دوائیاں اور خیمے پاکستان پہنچے اور سیلاب متاثرہ علاقوں میں تقسیم ہوئے۔ ایرانی ہلال احمر کی ٹیمیں کئی مہینوں تک سیلاب متاثرہ علاقوں میں رہیں اور فوری امدادی کارروائیوں کے بعد تعمیر و مرمت کا کاموں میں مشغول رہیں پاکستانی حکام نے متعدد بار ایرانی قوم و حکمرانوں کا اس انسانی مدد پر شکریہ ادا کیا جو آن دی ریکارڈ ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے مطابق پاکستان کے سیلاب میں سب سے زیادہ امداد کرنے والے ممالک میں ایران تیسرے نمبر پر رہا۔ اور یہ سب انسانی بنیادوں پر تھا۔

ہم سب کے لئے باعث حیرت ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں سے ہمارا ہمسایہ ملک ایران اپنی تاریخ کے شدید ترین سیلاب کا سامنا کررہا ہے۔ اس صورت حا ل میں دو ہفتوں میں سال بھر کی مجموعی بارش سے زیادہ بارش برس چکی ہے۔ 2 لاکھ سے زیادہ لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر ہوئے ہیں۔ سینکڑوں انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ ہزاروں لوگ اب بھی سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایرانی حکومت نے عالمی برادری سے مدد تو نہیں مانگی لیکن کیا انسانی بنیادوں پر مدد کے لیے کسی درخواست کی ضرورت ہوتی ہے؟

آپ کا ضرور یہی جواب ہوگا کہ نہیں بالکل نہیں!

ہم پاکستانی اداروں کی سیاسی، ٹیکنکل و دیگر مشکلات سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن محسنوں کا احسان لوٹاتے وقت دل بڑا اور فوری اہم فیصلے لینا پڑتے ہیں۔

ایران میں آنے والا یہ سیلاب ہمارے اس جذبہ انسانی ہمدردی کا متحان ہے جو ہم نے 2005 کے زلزلہ میں دکھایا۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ جس خطے میں ہم سب بس رہے ہیں، ماحولیاتی تبدیلیوں کی جو خوفناک صورتحال ہے، ہم بھی کسی وقت کسی ناگہانی آفت سے دوچار ہوسکتے ہیں، اور ایسے میں سب سے پہلے ہمسائے ہی کام آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).