حفاظِ کرام نعمتِ حفظِ قرآن کی قدر کریں


قرآن کریم کا حفظ کرنا ایک عظیم سعادت ہے

یہ وہ عظیم سعادت ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی تمام نعمتیں اور سعادتیں ثانوی درجہ رکھتی ہیں۔ حافظ قرآن کے لئے یہ فخر کیا کم ہے کہ وہ کسی اور کا نہیں بلکہ اللہ جلّ شانہ کے کلام کا حافظ ہے، اس کا سینہ اُسی سے معطر ہے، دل اُسی سے آباد ہے اور زبان اُسی کی تلاوت سے تر ہے، کم از کم میرے نزدیک تو حفظِ قرآن کی نعمت دنیا وما فیہا سے بہتر ہے۔

اس سعادت کا حقیقی صلہ تو اللہ جل شانہ آخرت میں اپنی شان کے مطابق عنایت فرمائیں گے ( اللہ تعالی تمام حفاظ کو نصیب فرمائے، مگر اس دنیا میں بھی جو عزّت اور محبت ایک حافظِ قرآن کے حصے میں آتی ہے بہت کم کسی کو ملتی ہے

حدیث میں آتاہے ”اللہ تعالی کان لگا کر کسی چیز کو اتنے غور سے نہیں سنتے جس طرح وہ زور سے پڑھنے والے خوش آواز پیغمبر کی تلاوت کو کان لگا کر غور سے سنتے ہیں، صحیح بخاری“ جب اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو سنتے ہیں، تو ایک عام قاری کو بھی یقیناً سنتے ہوں گے کیونکہ وہ بھی تو اُنہی حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ کلام کو پڑھتا ہے، یہ وہ عظیم کتاب ہے جس کے صرف ”الم“ پڑھنے پر قاری کے نامہ اعمال میں تیس نیکیاں جمع ہو جاتی ہیں، جس کے قاری پر اُس کی تلاوت کے وقت سکینت اور رحمت کا نزول ہوتا ہے، جس کے قاری کو حدیث میں قابلِ رشک کہا گیا ہے اور جو سینہ اس سے فارغ ہو اُس کو اُس ویران گھر سے تشبیہ دیگئی ہے جو خیر و برکت سے خالی ہو، جس کے ماہر کو قیامت کے دن عزت مند اور نیکو کار فرشتوں کی رفاقت کی نوید سنائی گئی ہے، اور تکلیف و مشقت سے پڑھنے والے کو دگنے اجر کا مستحق قراردیا گیا ہے، یہ وہ کتاب ہے جو منافق بھی پڑھے تو دنیا میں خوشبودار پودے سے اُ سکی مثال دی جاتی ہے، جس کے سیکھنے سکھلانے والے کو اُمت کا بہترین فرد ٹہرایا گیا ہے، جو اس کو مضبوطی سے تھامے گا نجات پائے گا، جو چھوڑے گا ہلاک ہوجائے گا، کلامِ برحق ہے مذاق نہیں، بار بار پڑھنے سے دل کا میلان اُس کی طرف بڑھتا تو ہے دل اُکتا تا نہیں، وہ جس میں پچھلوں کے قصے بھی ہیں اور اگلوں کی خبر بھی، جس دھرتی پہ نازل ہوا وہ طاہر، جس دل کو کھٹکٹایا وہ بھی اطھر، جس مہینے میں اترا وہ بھی مبارک، اور سب سے بڑی بات یہ کہ قیامت کے دن یہ اپنے پڑھنے والے کی نہ صرف یہ کہ سفارش کرے گا بلکہ اُس کی طرف سے جھگڑا کرے گا یہاں تک کہ اُس کو جنت میں داخل کر دے، پس مبارک ہے وہ جو خود حافظ ہے، خوش نصیب ہے وہ جس کا بچہ حافظ ہے اور آفریں صد آفریں دین کے اُن خدمت گاروں کے لئے جو اپنی خاطر نہیں بلکہ غریب، نادار اور یتیم بچوں کی خاطر در در کی خاک چھانتے ہیں، دوسروں کی جلی کٹی سنکر اُن کے لئے بھیک مانگتے ہیں، ادارے قائم کرتے ہیں، اور پھر ان محتاجوں، لاچاروں کو اُن اداروں میں ٹہرا کر ٹھکانہ دیتے ہیں، اُن کے سروں پر دستِ شفقت رکتھے ہیں، اور اُن کو اس عظیم کتاب کا حافظ بناتے ہیں، ہاں ہاں، وہ غریب اور یتیم بچہ جس پر معاشرے نے ترقی کے سارے دروازے بندکر دیے تھے، جس پر زندگی تنگ کردی گئی تھی، جس کے گھر کا چولھا ٹھنڈا پڑا تھا، اور جس نے بوسیدہ پوشاک سے جسم ڈھانپ کر ننگے پاؤں، آبلہ پا ان کے درپر حاضرہوا تھا۔

بلا شبہ قرآن بھی عظیم اور حفظِ قرآن کی نعمت بھی عظیم، لیکن افسوس صد افسوس اُس حافظ پر جو یہ بھول جاتا ہے کہ مجھے اللہ تعالی نے کتنی عظیم نعمت سے نوازا ہے میں نے قرآن کو یاد کرتے ہوئے کتنی محنت کی تھی، ایک ایک آیت کی رٹ لگا لگا کر میں کتنا ہلکان ہوجاتا تھا، حفظ کرتے ہوئے کتنے سال لگائے تھے، والدین نے کتنی قربانیاں دیں تھیں اُستاد نے میرے ساتھ کتنی محنت کی تھی، یخ ٹھٹرتی راتوں میں فجر سے بھی سویرے اٹھنا میرے لئے کتنا مشکل تھا، صبح سے دوپہر، ظہر سے عصر اور مغرب سے عشاء تک شدید گرمی میں سر ہلا ہلا کر میں کتنا پسینہ پسینہ ہو جاتا تھا۔ جی ہاں قرآن بھلاتے ہوئے وہ یہ سب کچھ بھول جاتاہے!

بھول جاتا ہے قرآن کو اس حقیر دنیا کی خاطر، وقتی خواہشات کی خاطر اور آج کل فیس بک، ٹویٹر، واٹسپ اور مختلف میسنجرز کی خاطر، دنیا کے ہر کام کے لئے اُس کے پاس وقت ہے، فرصت نہیں ہے تو صرف قرآن کے لئے نہیں ہے

میں اس بحث میں بالکل نہیں پڑتا کہ قرآن کریم کو بھلا دینا گناہ کبیرہ ہے یاصغیرہ؟ کس حدتک وہ بھول جائے تو عند اللہ مجرم ٹہرے گا؟ وغیرہ وغیرہ، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ جس نے قرآن کو جان بوجھ کر بھلا دیا اُس نے اللہ تعالی کی طرف سے عنایت کی ہوئی ایک عظیم اور بہت عظیم نعمت کی ناقدری کی، کلامِ پاک سے بے وفائی کی بد ترین مثال قائم کی، اور اس بات میں شاید کسی کو اختلاف بھی نہ ہو، کاش بھلانے والا حافظ اس بات کو سمجھ جاتا کہ اللہ تعالی نے بے شمار لوگوں میں سے اُس کو منتخب کرکے کتنا قیمتی تحفہ عطاء فرمایا تھا، لیکن شاید غفلت میں ڈوبا حافظ یا تو اس لئے قرآن کو بھلا دیتا ہے، کہ اُس کے پیٹ کا مسئلہ حل ہو چکا ہوتا ہے، امامت مل چکی، مدرس بن چکا، ٹیوشن سے کام چل جاتا ہے اور یا پھر تجوید کے پوسٹ پر سرکاری سکول میں ٹیچرلگ چکا ہے، یا پھر اس لئے بھلادیتا ہے کہ نام کے ساتھ اب قاری، شیخ یاحافظ صاحب کا سابقہ یالاحقہ ایسا پیوست ہوچکاہے، کہ اب اُس کوقرآن یاد نہ بھی ہو تب بھی وہ قاری، شیخ القراء اورحافظ جی، بہرحال کہلائے گا، شہرت مل چکی خاندان والوں کو پتہ لگ چکا، نام خوب کما چکا اور بھرپور طریقے سے چرچا ہوچکا۔ اب کون ہے قاری صاحب سے دنیا میں امتحان لینے والا اور آخرت میں تو قرآن نے (بزعم خود) اُسکی سفارش کرنی ہے شکایت تھوڑی کرنی ہے،

میرے خیال میں قرآن حفظ کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا کہ اسے یاد رکھنا مشکل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”قرآن کی خبرگیری کیا کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں، میری جان ہے، قرآن سینوں سے اتنی جلد نکل جاتا ہے کہ اونٹ بھی اتنی جلدی اپنی رسی سے نہیں نکلتا۔ (بخاری ومسلم

قرآن مجید کا بھول جانا بعض اوقات کسی بیماری یا حادثے کی وجہ سے ہوتا ہے، ایسی صورت میں، ان شاءاللہ، ربِ کریم کے ہاں کوئی پکڑ نہیں ہوگی لیکن بعض دفعہ ایک حافظ اپنی سستی، کاہلی، اورغفلت کی وجہ سے قرآن کو بھلا دیتا ہے

اس صورت میں اُس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے، حافظہ کے کمزور ہوجانے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہے لیکن ایک وجہ گناہوں پراصرار بھی ہے، اسی کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

میں نے (اپنے استاد ) وکیع سے اپنے حافظہ کے کمزور ہونے کی شکایت کی تو انہوں نے مجھے گناہوں کو چھوڑ نے کی ہدایت کی، فرمایا: اس لیے کہ صحت مند حافظہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل گناہگاروں کو نہیں دیاجاتا۔

اے میرے غفلت میں ڈوبے حافظِ قرآن بھائی، لوٹ جا اپنے بھولے ہوئے قرآن کی طرف، اس سے اپنا رشتہ اتنا مضبوط کرکہ رمضان اور غیرِ رمضان میں کم اور زیادہ تلاوت کافرق اگر ہو تو ہو لیکن تعلق ٹوٹے نہیں، کم اور زیادہ سے اتنا فرق نہیں پڑتا لیکن ناغہ کرنے سے ضرور بے برکتی ہوتی ہے، نہ کر اس عظیم کتاب سے بے وفائی، پڑھ اِس کو قبل اس کے کہ یہ تیرے ایصالِ ثواب کے لئے پڑھا جائے، یا پھر خود تجھ سے قرآن ایسا روٹھ جائے کہ پھر تمہاری صلح ہی اس سے نہ ہوسکے، اور روزِ قیامت جب تجھ سے کہا جائے کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا تو تم پڑھنے پر قادر ہی نہ ہو سکو۔ ماہِ رمضان کی طرح ماہ شعبان بھی حافظ قرآن کے لیے بہترین مہینہ ہے۔

اس کو بھی بعضِ اھل علم نے شھر القرآن سے تعبیر کیا ہے، اس میں ماحول سازگار ہونے لگتا ہے نیکی کی طرف میلان بڑھ جاتا ہے اور رمضان کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں، اس ماہ میں کی جانے والی محنت رمضان میں کام آئے گی، شعبان کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کاشکار ہوجاتے ہیں جو رجب اور رمضان کے درمیان ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں ( صحیح النسائی)

محترم قاری صاحب: کیا آپ یہ پسند فرمائیں گے کہ آپ کے اعمال رب العالمین کے در بار میں اس حال میں پیش ہوں کہ آپ قرآنِ کریم کی تلاوت میں مشغول ہوں اور فرشتے آپ کے رب کے ہاں آپ کی تلاوت کی گواہی دے؟ قدر کر اس نعمت کی! یہ نعمت بڑے نصیب والے کو ملتی ہے، اللہ تعالی تیرا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).