پیپلز پارٹی انٹرنیشنل اور مقامی سٹیبلشمنٹ کے لیے فلیکسی بَل جماعت


”ڈیوَن“ انگلینڈ کی ایک پرانی کاؤنٹی تھی۔ وہاں 1210 ء میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کانام ”ہنری بریکٹن“ رکھا گیا۔ وہ بڑا ہوکر چرچ میں مذہبی رہنما اور قانون کا استاد بنا۔ ہنری بریکٹن نے اُس وقت ایک ایسا نظریہ پیش کیا جو آٹھ سو برس بیت جانے کے بعد بھی دنیا کے غیرجمہوری حکمرانوں کا پسندیدہ نظریہ ہے۔ ہنری بریکٹن کے اِس زہرِ جمہوریت نظریے کو ”نظریہ ضرورت“ یا ”ڈاکٹرائن آف نیسے سٹی“ کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس کی پہلی مشہور مثال 1954 ء میں فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر کی طرف سے گورنر جنرل ملک غلام محمد کے قانون ساز اسمبلی کو برخواست کرنے کے اقدام کو نظریہ ضرورت کے تحت درست قرار دینا تھا۔

ہم نظریہ ضرورت کو عموماً عدالتی فیصلوں میں ہی تلاش کرتے ہیں جبکہ نظریہ ضرورت عدالتوں سے باہر بھی موجود رہا ہے۔ آج کے اِس کالم میں اُس نظریہ ضرورت کو زیربحث لائیں گے جس کے تحت ہماری سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں۔ ہو سکتا ہے بہت سے لوگ نظریہ ضرورت کے تحت ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے وجود میں آنے کی بات کو مخصوص پراپیگنڈے کا نام دیں۔ بیشک تنقید اور اختلاف رائے کسی بھی شہری کا بنیادی جمہوری حق ہے۔ تاہم غوروفکر اور ہسٹری کی تحقیق سے ہماری سیاسی جماعتوں کی پیدائش نظریہ ضرورت کے تحت ہونے کے ثبوت سامنے آنے لگیں گے۔

آئیے چند بڑی سیاسی جماعتوں کو اس کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ عرب اور ہندوستان میں سوویت یونین کے اثرورسوخ اور کمیونسٹ نظریات کو بزورِ شمشیر روکنے کے لیے ایسے جتھوں کی ضرورت محسوس کی گئی جن کو دنیا کے سامنے قانونی حیثیت دی جاسکے۔ مصر میں اخوان المسلمین 1928 ء اور ہندوستان میں جماعت اسلامی 1941 ء میں وجود میں آئیں۔ اِن دونوں جماعتوں کے نظریات، پرچار کا طریقہ اور مخالفین سے نمٹنے کی منصوبہ بندی ملتی جلتی تھی۔

ہسٹری کے تانے بانے جوڑے جائیں تو جو تصویر ابھرتی ہے اُ س سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اِن دونوں مذہبی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے ریجن میں کمیونسٹ اثرات کو آگ بگولہ طاقت سے روکا۔ جماعت اسلامی کے کریڈٹ میں یہ نمبر بھی شامل ہیں کہ انہوں نے 1980 ء کی افغان جنگ جس میں سوویت یونین شکست کھاکر پاش پاش ہوگیا میں تلوار سے عملی جہاد میں حصہ لیا۔ اب یہ بتانا بریکنگ نیوز نہیں رہا کہ سوویت یونین اور کمیونزم کی شکست کا اصل فائدہ کس کو ہوا۔

اب یہ بتانا بھی اتنی اہم بات نہیں کہ اِس وقت امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور ہے۔ البتہ یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ کیا اخوان المسلمین اور جماعت اسلامی کسی نظریہ ضرورت کی پیداوار تھیں؟ نظریہ ضرورت کے تحت سیاسی جماعتوں کا وجود جہاں بڑی طاقتوں اور انٹرنیشنل سٹیبلشمنٹ کی ضرورت ہوسکتا ہے وہیں ملکی اور مقامی سٹیبلشمنٹ بھی اپنے نظریہ ضرورت کے تحت سیاسی جماعتیں معرضِ وجود میں لاتی ہیں۔ اس حوالے سے بھی ہمارے ہاں کئی چھوٹے بڑے بلیک ہول ملیں گے۔

انہی میں حالیہ دہائیوں کی بڑی اور موثر مثالوں میں ایم کیو ایم اور پی ایم ایل ہیں۔ دونوں جماعتوں کو پاکستان پیپلز پارٹی کے توڑ کے لیے نظریہ ضرورت کے تحت وجود میں لایا گیا۔ ملکی سطح پر نظریہ ضرورت کے تحت تیار کی جانے والی سیاسی جماعت کی تازہ ترین مثال پی ٹی آئی ہے جس کے بارے میں کوئی ثبوت نہ دینا بھی ایک ثبوت ہی ہے۔ اس کسوٹی پر پاکستان پیپلز پارٹی کا تجزیہ کریں تو سانس روکنے اور دل تھامنے والے نتائج بتاتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت کا سب سے زیادہ دم بھرنے والی یہ جماعت بھی انٹرنیشنل سٹیبلشمنٹ کے نظریہ ضرورت کے تحت معرضِ وجود میں آئی۔

تقسیم کے بعد بیس برس کے عرصے میں پاکستان کے لیے مستحکم اور پاپولر حکومتوں کے حوالے سے جب سب تجربے ناکام ہوگئے تو غریب عوام کی حکومت کا ایک ایسا نعرہ بلند کیا گیا جو انسانی نفسیات کے لیے پسندیدہ ہونے کے باعث ہردلعزیز ہوگیا۔ اس پاپولر بیانئے کے لیے 1967 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کا وجود عمل میں لایا گیا۔ یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ انٹرنیشنل سٹیبلشمنٹ کو پاکستان میں مستحکم اور پاپولر حکومت لانے میں کیا دلچسپی ہوسکتی تھی؟

غور کریں تو اس کا جواب بھی ہسٹری کے صفحات پر مل جائے گا کہ پاکستان کمیونزم کے خاتمے کے لیے مجوزہ میدان جنگ افغانستان کا سرحدی ہمسایہ ہونے کے باعث فرنٹ مین کی حیثیت رکھتا تھا۔ پاکستان کی کمزور حکومتیں سوویت یونین کے خلاف انٹرنیشنل سٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کو پورا نہیں کرسکتی تھیں۔ لہٰذا پاکستان پیپلز پارٹی ہر طرح سے فِٹ تھی۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو برطانیہ سے تعلیم یافتہ تھے۔ کسی بھی سیاسی رہنما کا برطانیہ یا امریکہ سے تعلیم یافتہ ہونا محض غیرملکی ڈگری ہولڈر ہونا نہیں ہوتا بلکہ اُس کا انٹرنیشنل سٹیبلشمنٹ کے لیے خودبخود قابل قبول لیڈر ہو جانا ہوتا ہے۔

یہ علیحدہ بات کہ اگر وہی قابل قبول لیڈر بعد میں انٹرنیشنل سٹیبلشمنٹ کو بائی پاس کرنے کی کوشش کرے تو اس کی سزا بھی عبرتناک بنا دی جاتی ہے۔ جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی مثال ہے۔ بینظیر بھٹو بھی امریکہ ہارورڈ اور برطانیہ اوکسفرڈ میں پڑھنے کے باعث انٹرنیشنل سٹیبلشمنٹ کے لیے خودبخود قابل قبول سیاسی لیڈر ہو گئی تھیں۔ انہوں نے اپنی دونوں حکومتوں میں انٹرنیشنل سٹیبلشمنٹ کے لیے کچھ پسندیدہ کام کرنے کی کوششیں کی تو ملکی سٹیبلشمنٹ ناراض ہو جاتی رہی جس کی سزا کے لیے صرف حکومت سے ان کی سبکدوشی کو ہی کافی سمجھا گیا۔

تاہم تیسری مرتبہ وہ جس ایجنڈے کے تحت واپس آئیں وہ شاید مقامی مخصوص حلقوں کو قابل قبول نہیں تھا۔ نظریہ ضرورت کے تحت قائم ہونے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اب آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں تھی جن کا انتخاب کرنے والے داد کے قابل تھے کیونکہ آصف علی زرداری نے اپنے آپ کو انتہائی مشاق اور ذہین سیاست دان ثابت کیا۔ باقی معاملات کے علاوہ انہوں نے روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کے مستقبل کے لیڈر بلاول کو برطانیہ میں تعلیم دلوائی۔

اس کا سب سے بڑا فائدہ یہی تھا کہ بلاول بھی اپنے دادا اور والدہ کی طرح امریکہ یا برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے باعث انٹرنیشنل سٹیبلشمنٹ کے لیے خودبخود قابل قبول ہو جائیں جو اَب ثابت ہورہا ہے۔ پیپلز پارٹی جہاں انٹرنیشنل سٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول ہوتی ہے وہیں مقامی سٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی ضرورت پڑنے پر قابل قبول ہونے کی صلاحیت حاصل کرچکی ہے۔ مقامی سٹیبلشمنٹ کے ساتھ فلیکسی بَل ہونے کی صلاحیت کو زیادہ تر نکھارنے کا سہرا آصف علی زرداری کے سر ہے۔

نظریہ ضرورت کے تحت بننے والی مندرجہ بالا جماعتوں کی تازہ ترین صورتحال دیکھیں تو جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم اپنا کام مکمل کرکے فی الحال اپنے وجود کی اہمیت کھوچکی ہیں۔ پی ٹی آئی کے تخلیق کار خود اپنے شاہکار پر شرمندہ محسوس ہورہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ اب ن لیگ کی صورت میں نیا جنم لے کر نظریہ ضرورت سے بغاوت کرچکی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی ابھی بھی انٹرنیشنل اور ملکی سٹیبلشمنٹ کے لیے ایک فلیکسی بَل اثاثہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).