ریڈ کراس کی دوروزہ ہیومینیڑین بلاگنگ ورکشاپ


وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے تعاون سے سنٹر آف ایکسیلینس اِن جرنلزم IBA کراچی میں ہیومینٹیرین بلاگنگ کے حوالے سے دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر سے چیدہ چیدہ بلاگرز اورڈیجیٹل رپورٹرز کو مدعو کیا گیا۔ اس ورکشاپ کا بنیادی مقصدنمائندہ لکھاریوں کی توجہ انسانی مسائل اوران کے حل کی جانب مبذول کرانا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انٹر نیشنل کمیٹی آ ف ریڈ کراس کے نمائندے فرنود عالم، رمشہ قریشی اور یٰسین کامران مستعدی کے ساتھ دونوں دن کام کرتے نظر آئے۔

ان لوگوں نے ICRC کے ایجنڈا اور موجودہ دور کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بنیادی سرگرمیوں اور لیکچرز کا اہتمام کر رکھا تھا۔ دو نوں روز بلاگرز کی ٹریننگ کے لئے معروف صحافی سحر حبیب غازی کو بطور اتالیق مدعو کیا گیا۔ سحر حبیب غازی پندرہ سال سے عملی صحافت سے وابستہ ہیں۔ قومی سطح پر ڈان نیوز اور جنگ نیوز کے ساتھ کام کیا جبکہ عالمی سطح پر گلوبل وائسز کے ساتھ پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے چکی ہیں۔

دوروزہ ورکشاپ کے ابتدائی سیشن میں تمام شرکا کے تعارف کے بعد انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈکراس کا تعارف پیش کیا گیا۔ ICRC کی بنیاد 1883 ء میں جینیوا میں رکھی گئی جس کا بنیادی مقصد جنگوں سے متاثرہ لوگوں کی بحالی کے لئے کام کرنا تھا۔ آج تک جنگوں کی وجہ سے لگ بھگ ایک بلین لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ دیگر بنیادی انسانی حقوق کے لئے عالمی سطح پر کئی تنظیمیں کام کررہی تھیں مگر جس وقت ICRC کی بنیاد رکھی گئی، اُس وقت جنگی قیدیوں اور زخمیوں کی بحالی اور امداد کے لئے اس کے علاوہ کوئی دوسرا ادارہ نہ تھا۔

آ ج یہ عالمی تنظیم 80 ممالک میں کام کر رہی ہے۔ ریڈ کریسینٹ کا اداراہ قومی سطح پر مختلف آفات میں انسانوں کی بحالی کے لئے کام کرتا ہے جبکہICRC خاص طور پر جیلوں میں قیدلوگوں کی دیکھ بھال، ان کے رشتہ داروں سے رابطہ کار اور ان کی بحالی کے لئے معمور ہے۔ جنگی قانون، جینیواکنونشن کی منظوری بھی ICRC کا کارنامہ ہے۔

ICRC کے جامع تعارف کے بعد ورکشاپ ٹرینر سحر حبیب غازی نے رپورٹنگ کے لئے مختلف شعبہ جات کی تقسیم کی اور باہمی دلچسپی رکھنے والے لوگوں پر مبنی ٹیمیں تشکیل دے دیں۔ اس کے بعد ان ٹیموں سے مختلف اجتماعی سرگرمیاں کرائی گئیں جن کا مقصد ڈیجیٹل صحافت کا فروغ اور صحافتی اقدار کا پرچار تھا۔ ڈان کی بلاگنگ ویب سائیٹ۔ ۔ پرزم کے ایڈیٹر جہانزیب حسین کو ایک سیشن کے لئے بطور مہمان مقرر بلاگیا۔ انہوں نے اپنے سیشن میں بتایا کہ اُن کے پاس کس قسم کا مواد آتا ہے اور وہ کیسے مواد کو کن بنیادوں پر منتخب کرتے ہیں۔

ڈان کی بلاگنگ ویب سائیٹ پرزم پچھلے کچھ عرصہ سے شاندار کار کردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ جہانزیب حسین نے اپنی سائیٹ کھول کر سب کو اپنے کچھ منتخب کردہ بلاگز اور بلاگرز کا تعارف دکھایا اور بتایا کہ وہ ہمیشہ تجربے اور تجربہ کار شخص کی اہلیت کو دیکھتے ہیں کہ آیا بلاگ لکھنے والے شخص کو اس موضوع پر کس حد تک مَلکہ حاصل ہے۔

جہانزیب حسین کے بعد اگلا سیشن صحافتی اقدار و روایات کے حوالے سے تھا۔ اس سیشن کے مہمان مقرر سینٹر آف ایکسیلینس اِن جرنلزم کے ڈائریکٹرکمال صدیقی تھے۔ انہوں نے اپنے لیکچر کے دوران بتلایا کہ کسی بھی رپورٹر، صحافی یا بلاگر کو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لئے آزاد انہ طور پر کام کرنا چاہیے اور ذاتی ہمدردیوں کو پس پشت ڈال کر سچ کی تلاش کرنی چاہیے اور صرف حقائق کو ہی رپورٹ کرنا چاہیے۔ سب سے خوبصورت بات انہوں نے یہ کہی کہ ایک صحافی کو چاہیے کہ اس کی رپورٹنگ سے عوام الناس کو کم سے کم نقصان پہنچے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کی رپورٹ کی گئی خبر کسی کے لئے وبال جان بن جائے۔

پہلے دن کے اختتامی سیشن میں سحر حبیب غازی نے ایتھکس اور اخلاقی اقدار کے حوالے سے بات کی۔ انہوں نے بتایاکہ پیشہ وارانہ صحافی اور ایکٹوسٹ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ شرکاکے بلاگنگ کے حوالے سے کیے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ بلاگنگ ڈیجیٹل رپورٹنگ کی ہی ایک قسم ہے جس میں انسان حقائق اور تجربے کی بنیاد پر ذاتی رائے بھی دے سکتاہے۔

ورکشاپ کے دوسرے روز تمام شرکا کو خبر یا رپورٹ تیار کرنے کے لئے مستند ذرائع اور حوالہ جات کی تلاش پر کام کرنے کے لئے ایک عملی سرگرمی کرائی گئی جس میں شرکا کو اپنی پسند کی سٹوری بنانے کے لئے لگ بھگ بیس مجوزہ ذرائع اور حوالہ جات ڈھونڈنے کا کام دیا گیا۔ اس سرگرمی کے بعد ٹوئٹر پر کراچی کھٹمل کے نام سے جانے والے احمر نقوی کو بطور مہمان مقرر بلایا گیا۔ وہ اپنے پالتو کتے کے کاٹنے کی وجہ سے کافی ناگفتہ بہ صورتحال سے دوچار تھے۔

مگر ورکشاپ میں آن پہنچے۔ انہوں نے آتے ہی سب کو کہا کہ انہیں پہلی نظر دیکھ کر جوبھی صورتحال سب کے اذہان میں ابھری ہے، اُسے ایک خبر کی صورت میں لکھیں۔ سب کا نقطہ نظر الگ ہونے پر انہوں نے کسی بھی نئی خبر کے مختلف پہلوؤں، حقائق اور صداقت پر سیر حاصل گفتگوکی۔ تمام شرکا ان کے سیشن سے بہت محظوظ ہوئے۔ انہوں نے شرکا کو یہ بھی بتایا کہ جب بہت تیزی میں بہت ساری خبریں چل رہی ہوں تو حقائق کوکیسے مدِ نظر رکھا جاتا ہے یا اُن کی تلاش کیسے کی جاتی ہے۔

دوروزہ ورکشاپ کے آخری سیشن میں سحرحبیب غازی نے تمام گروپس کو پانچ گھنٹے میں اپنے موبائل میں کسی نئی کہانی بمع حقائق و ذرائع تیار کرانے کے تربیت دی اور پھر تمام گروپس کے مابین نئی سٹوری تیار کرنے کا مقابلہ کرایا۔ جو کہانی اس مقابلے میں اول انعام کی حقدار ٹھہری وہ کشمیر کی مقبوضہ اور آزاد جموں کشمیر میں تقسیم سے بارڈر کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو جانے والے خاندانوں کی کہانی تھی۔ فرحان علی خان، عمار احمد جان اور ان کے دیگر ساتھیوں نے اس کہانی کے ذرائع اور حقائق پر ٹھوس بنیادوں پرکام کیا تھا۔

اختتامی تقریب میں ورکشاپ ٹرینر سحر حبیب غازی نے تما م شرکامیں سرٹیفیکٹس اور گروپ فوٹوز تقسیم کیں۔ یو ں یہ دو روزہ ہیومینٹیرین بلاگنگ ورکشاپ اپنے اختتام کو پہنچی۔ اس ورکشاپ سے بہت کچھ سیکھنے، آئندہ انسانی مسائل کو حقیقی بنیادوں پر اجاگر کرنے اور بہت ساری یادوں کو ساتھ لئے سب اپنے اپنے شہرون کو لوٹ گئے۔

ورکشاپ کے کامیاب انعقاد پر سب بلاگرزنے انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے نمائندوں کا خصوصی شکریہ بھی ادا کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).