ہمارے نوجوان کتنی تاریخ جانتے ہیں؟


کرائسٹ چرچ کے سانحے کے بعد نیوزی لینڈ کے لوگوں اور ان کی وزیراعظم کا کردار اور اس کے علاوہ آسڑیلیا میں لوگوں کی روش نے کچھ فکری سوالوں کو جنم دیا ہے۔ اس واقعہ کے مجرم کے آسٹریلین ہونے کے باعث آسٹریلیا میں بھی لوگوں میں ایک غیر یقینی کا احساس دیکھنے میں آیا ہے، اکثر لوگ سوچ رہے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مجرم آسٹریلین ہے۔

آج کا آسٹریلیا مجموعی طور پر رنگا رنگ کی تہذیبوں کا مجموعہ ہے۔ دنیا کے ہر خطے سے لوگ ہجرت کرکے آسٹریلیا میں آباد ہورہے ہیں۔ ان مختلف تمدنوں میں یقینی طور پر قابلِ ذکر دنیا کی سب سے قدیمی اور مسلسل قائم ایب اوریجنل تہذیب ہے۔ آسٹریلیا میں کئی قدیمی مقامات پر چیزوں کی عمر کے تعین کے لیے کاربن تاریخ بندی کی سائنسی تحقیق کی گئی ہے جس میں ایک مادے میں موجود ریڈیو اکٹیو کاربن سے اس کی عمر کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

اس تحقیق کے مطابق ایب اوریجنل تہذیب چالیس ہزار سال سے ساٹھ ہزار سال پرانی ہے۔ دنیا نے اپنے اپنے وقت پر کئی طاقتور تہذیبیں دیکھیں جو ایک دور کے بعد مٹ گئیں۔ اس زندہ تہذیب کے مسلسل جاری رہنے کی وجہ پر ماہرین تحقیق کر رہے ہیں۔ اب اوریجنل تہذیب کی ایک نمایاں بات نیچر کے ساتھ ہم آہنگی ہے۔ یہ تہذیب فطرت کے مختلف مظاہر کے احترام کو ملحوظ رکھتی ہے اور باہمی اشتراک کے اصول پر نبادات، جمادات اور حیوانات کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہے۔ آج کی دنیا میں ماحولیات کی تحقیق یعنی انواریمنٹل سائنس اس تہذیب سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہے کہ یہ تہذیب اپنے چند سادہ ہتھیاروں اور اوزاروں کے ساتھ براعظم آسٹریلیا کے سخت آب و ہوا، صحراوں، زہریلے حشرات اور زمینی تغیرات کے ساتھ کئی ہزار سال سے زندہ ہے۔

اٹھارویں صدی میں کیپٹن کک کے آسٹریلیا دریافت کرنے کے بعد یورپی آبادکاروں نے اس براعظم کا رخ کیا۔ نتیجتاً اس پرامن خطے نے ظلم اور بربریت کا ایسا دور دیکھا جس کے اثرات آج بھی جاری ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا مقامی نسل کشی بڑا ظلم تھا کہ نسلِ انسانی کے تہذیبی ورثے کا نیست و نابود کرنا بڑا جرم تھا۔ کئی مقامی قبائل، ان کی زبانیں، ان کی تہذیب، ان کی صدیوں پر محیط جنگلی حیات کی آگاہی، پودوں سے علاج کا علم ہمیشہ کے لیے مٹ گیا۔

یورپی آبادکاروں کے نیچے 1967 تک ہزاروں سال سے اس زمین کے اصل باسیوں کے پاس آئینی طور پر اپنے وطن کی شہریت تک نہ تھی۔ حکومتی سرپرستی میں ان کے بچوں کی ایک بڑی تعداد کو ماں باپ سے چھین کر یورپی آبادکاروں اور سرکاری ہوسٹلوں کے حوالے کیا گیا، نتیجتاً ایک چرائی گئی نسل اپنے ماں باپ اور عزیزوں سے بالکل ناواقف ہے۔ اس تاریخی ظلم کے شدید نفسیاتی اثرات اس گم شدہ نسل، ان کے ماں باپ اور رشتہ داروں میں پائے جاتے ہیں۔

اپنے ہی ملک میں بے وقعت اب اوریجنل لوگوں اور ان کی نئی نسل میں جرائم، شراب نوشی، نشہ اور دوسرے مسائل آباد کار یورپی اور دوسرے آسٹریلین گروہوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ موجودہ سفید فام آسٹریلیا میں ماضی کے ان جرائم کا احساس ہے۔ اس احساس کو زندہ کرنے میں آسٹریلیا کے حقیقی باشندوں کی جدوجہد، عدالتوں کا کردار اور کئی سفیدفام باشندوں کی کوششیں شامل ہیں۔

جب آسٹریلین یونیورسٹی میں بحثیت استاد میری تعیناتی ہوئی تھی تو نئے سٹاف کو خوش آمدید کہنے کی تقریب کا آغاز صدیوں پرانے مقامی ساز ڈیڈگریڈو کو بجا کر کیا گیا تھا، اسے ایک مقامی نسل سے تعلق رکھتے استاد نے بجایا تھا۔ وائس چانسلر نے اپنی تقریر میں آسٹریلین معاشرے میں مختلف جداگانہ تشخص کو کھلے دل سے ماننے بلکہ ان سے مستفیذ ہونے کی اہمیت پر بات کی تھی۔ اس پس منظر میں کرائسٹ چرچ کے واقعے میں آسٹریلین مجرم نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

آسٹریلیا میں مختلف شہروں میں لوگ مسلمانوں کے دکھ میں شریک ہوئے ہیں، مساجد کے سامنے پھولوں کے ڈھیر لگ گئے، تعزیتی پیغامات اور کارڈز کے بڑی تعداد مساجد کے سامنے رکھی گئی ہے۔ سکولوں اور یونیورسٹیوں میں طالبعلم اپنے مسلمان ساتھیوں کے ساتھ مختلف سوگواری کی محفلوں میں شامل ہوئے ہیں۔ اجنبی آبدیدہ افراد مسلمانوں سے بغلگیر ہوکر اپنے دکھ کا اظہار کرتے نظر آئے ہیں۔

اس اندوہناک واقعے اور اس کے بعد کے معاملات نے معاشرتی سطح پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ پاکستان میں بھی اقلیتوں کے ساتھ کئی دفعہ ظلم بپا ہوا ہے، مگرحکومتی، ملکی یا عوامی سطح پر کبھی بھی مظلوم کا ساتھ نہیں دیا گیا۔ کوٹ رادھا کرشن میں ایک عیسائی جوڑے کو اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلانے کا واقعہ، لاہور میں قادیانیوں کی مسجد پر حملہ، گوجرہ اور بادامی باغ لاہور میں عیسائی بستیوں کی آتشزنی اور اس سے ملتے جلتے کئی واقعات ہیں جن کے بعد ایک دبی سی مذمت تو سننے میں آئی مگر ایک اونچی آواز کے لیے کان انتظار میں اور احتجاج کے لیے آنکھیں منتظر رہیں۔ مگر ایسا نہ ہوا کیونکہ آواز بلند کرنے والے کی حفاظت کی کوئی گارنٹی نہ تھی بلکہ نقصان کا پورا احتمال تھا۔

ایسا کیوں ہے؟ یہ مضمون اس حساس موضوع پر ایک رائے ہے اور بحث اور مختلف آراء کا متقاضی ہے۔ پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے تجربے سے یہ اندازہ ہوا کہ ہم نہ صرف اپنے تشخص کے بارے میں خود کنفیوز ہیں بلکہ ہم نے اپنے نظامِ تعلیم کے ذریعے یہ الجھاؤ اگلی نسلوں میں بھرپور طور پر منتقل کر دیا ہے۔ ایک یونیورسٹی، جو پاکستان میں تعلیم اور اپنے طالبعلموں کے اعتبار سے اعلی ترین مانی جاتی ہے، میں پڑھاتے ہوئے اپنی کلاس میں سوال پوچھا کہ ہماری تاریخ کتنی پرانی ہے؟

طالبعلموں کے جوابات سے اس الجھاؤ کا بھرپور اندازہ ہوا۔ کچھ کے نزدیک ہماری تاریخ 1947 سے چلتی ہے، چند کے نزدیک اس کا آغاز محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ ہوا، مگر کوئی بھی وادی سندھ کے کنارے 3300 قبلِ مسیح کی اُس شاندار تہذیب کو اپنانے کو تیار نہ تھا جو اس علاقے کی نہیں بلکہ انسان کی ابتدائی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ اس کا نہ جاننا کس کا نقصان ہے؟ یہ طالبعلم تو اس نقصان کے ادراک سے بھی عاری تھے۔

مختلف تشخصات پاکستانی معاشرے میں قابلِ قبول نہیں۔ معاشرے میں خیال ہے کہ خلفاء راشدین اور بعد کے ادوار کی فتوحات اسلام پھیلانے کے غرض سے تھیں۔ تاریخ اس کے بالکل برعکس بتاتی ہے۔ آغازِاسلام کی فتوحات بہت تیزی سے ہوئیں اور قلیل عرصے میں ساسانی اور رومن طاقتیں شکست سے دوچار ہوئیں، مگر حیران کن بات ہے کہ ان مفتوح علاقوں میں اسلام تیزی سے نہیں پھیلا۔ قرون اولی کے یہ مسلمان بڑے کھلے دل کے تھے، انہوں نے اپنے مفتوح علاقوں اور ان کے لوگوں کے تشخص کو کھلے دل سے قبول کیا بلکہ اس رنگارنگی سے فیض یاب ہوئے۔

آج کے دور میں دیے گئے تاثر کہ اُن مجاھدوں کے ہاتھ میں خون ٹپکاتی تلواریں تھیں جو وہ کافروں کے گلوں پر رکھ کر تیزی سے مسلمان کیے جارہے تھے، حقیقت سے کہیں دور کا فسانہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صدیوں کی حکمرانی کے باوجود مسلمان کئی علاقوں میں عددی اقلیت میں ہی رہے۔ ایک مثال مصر کی ہے جسے خلیفہ دوم کے دور میں رومی افواج کو شکست دے کر فتح کیا گیا، مگر آج بھی ایک اندازے کے مطابق مصر میں عیسائیوں کی تعداد 10 فیصد کے قریب ہے۔

تاریخ دان آج بھی اس سوال پر تحقیق کر رہے ہیں کہ مسلمان فاتح جو مذہب سے اپنے معرکوں کی تقویت لیتے تھے کیوں اپنی مفتوح آبادی کو مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کررہے تھے۔ کچھ تاریخ دانوں کے نزدیک انہیں اپنے مذہب کی بڑائی کا اتنا مضبوط یقین تھا کہ وہ اسے رعایا کی اپنی صوابدید پر چھوڑے تھے۔ ایک بات یقینی ہے کہ پرانے زمانے کی مسلم سلطنت میں غیر مسلم کے طور پر رہنا آج کے ماڈرن زمانے کی نسبت کہیں آسان تھا۔

یہ حکمران نہ صرف اپنے سلوک میں رواداری دکھاتے تھے بلکہ ساتھ ساتھ تحقیق پسند بھی تھے۔ انہوں نے مختلف مفتوح اقوام سے بھرپور فیض لے کر آگے منتقل کیا۔ انڈیا سے ریاضی کے عدد، یونان سے فلسفہ اور علم فلکیات، فارس سے قصہ گوئی۔ مفتوح اقوام سے علم لے کر انہوں نے اپنی تحقیق اس میں شامل کی۔ سائنس اور پریکٹیکل علوم کے لیے ان کی محبت اور محنت قابل قدر رہی۔ طب، ریاضی، فلسفہ، جغرافیہ، صنعت و حرفت، تعمیرات، جہاز رانی ان سب کی ترقی میں مسلمانوں کا کردار جھٹلایا نہیں جاسکتا، اور یہ سب مختلف تہذیبوں کو ماننے اور ان سے فیض یاب ہوئے بغیر ممکن نہ تھا۔ انہوں نے دنیا کو تہذیبی ترقی کی بہترین مثالیں پیش کیں، چاہے دائروں کی شکل میں بنایا گیا بغداد کا شہر ہو یا سپین میں علم اور صناعی کا کمال قرطبہ کا شہر جو دسویں صدی عیسوی میں غالباً دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ یہ غیر معمولی کامیابیاں رواداری اور کھلے دل کے باعث ہی ممکن ہوئی٘ں۔

تاریخ دان مسلم دارالحکومت کی اموی دور میں مدینہ سے سلطنتِ روم سے فتح شدہ شہر دمشق میں منتقلی کو بھی عربی تہذیب سے دوسری تہذیبوں کی جانب کے سفر کا ایک حصہ مانتے ہیں۔ ایک تاریخی رائے کے مطابق فتح کے بعد بھی عرصے تک دمشق میں سرکاری زبان یونانی رہی تھی۔ عباسی دور میں دارالحکومت کے لیے نئے شہر بغداد کے بنانے کا ایک مقصد بعض تاریخ دانوں کے نزدیک سلطنتِ فارس کے تمدن سے بہتر فائدہ اٹھانا بھی تھا۔

پاکستان میں رواداری کو ترویج دینے کے لیے ہمیں تاریخ کا بیانیہ افسانے سے بدل کر حقیقت پر لانا ہوگا۔ یہ آسان کام نہیں مگر یقیناً ہمارے فائدے میں ہے اور اس اجتماعی فائدے کا احساس ہمیں اس مشکل کام کے لیے ہمت بندھا سکتا ہے۔ ہمیں اسلام پھیلانے کے مشن سے پہلے خود اسلام پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرنا ہوگی۔ دوسری تہذیبوں اور مذاہب کے ماننے والوں کو بھی اسی رب کی تخلیق سمجھنا ہوگا جس کی بڑائی ہمارے احاطِہ گمان سے کہیں آگے ہے۔ رواداری، محبت، اخلاص کے عملی سبق کے لیے ہمیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، حیاتِ رحمت اللعالمین ہمارے سامنے مشعلِ راہ ہے۔

۔ ہمیں صرف تاریخ کا بیانیہ افسانے سے بدل کر حقیقت پر لانا ہوگا

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor