بے حرمتی کا مطلب کیا؟


گذشتہ دو مہینوں کے دوران واقعات و واقعات وقوع پذیر ہوئے جن پر عوام خاص طور پر سوشل میڈیا کے خود ساختہ دانشوروں اور کم علم علماء صاحبان کے تبصرے پڑھتے پڑھتے اور ایک ہی تصویر کے دو چار نہیں ان گنت رُخ دیکھتے ہوئے ذہن الجھ گیا، سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے، کیوں لوگ صرف منفی پہلو دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔ تین بہت اہم واقعات جن کی وجہ سے لوگوں نے فیس بک، ٹوئٹر اور دوسرے سماجی ویب سائٹس کی دیواروں کو اپنی سوچوں سے پراگندہ کر ڈالا۔

پہلا واقعہ عورت مارچ۔ میں بہت غیر جانبدار ہو کر بات کروں تو عورت مارچ میں کچھ پوسٹرز غلط بھی ہوسکتے ہیں یا ہوں گے بالکل کیونکہ ہر چیز ہر مرحلے میں بہتری اور غلطی کی گنجائش ہوتی ہے پر مجھے سمجھ نہیں آیا کہ آخر کیوں انہی لوگوں نے وہ پوسٹرز اپنی وال پر نمایاں نہیں کیے جس میں عورت کے حقوق کے حوالے سے لکھا گیا تھا، کیوں صرف ان عورتوں کو نمایاں دکھایا جن کے جینے کا طریقہ ان دانشوروں سے الگ ہے وہ عورتیں کیوں نہیں دکھائی گئیں جو ان کے مقرر کیے ہوئے معیار کے حلیے میں تھیں پر اپنے حقوق سے غافل نہیں تھیں وہ بھی ان حقوق کے مطالبے کے ساتھ میدان میں تھیں جو ابھی نہیں میرے۔

کیوں ایک خواجہ سرا کے اٹھائے ہوئے پوسٹر کے ساتھ اس کے وجود کو بھی تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اُس کی کردار کشی کی گئی۔ ایک صاحب نے تو حد ہی کردی ایک مرد کے نکاح کے خلاف دیے گئے بیان کو عورتوں کا قصور بتا کر کہا کہ ان عورتوں نے نکاح کو روکنے کی بات کر کے سنتِ رسول کی بے حرمتی کی ہے۔ مجھ جیسے کئی ناقص العقل لوگ اس بات پر حیران ہوئے ہوں گے کہ ایک مرد کے دیے ہوئے بیان جو کہ سو فیصد اُس کی ذاتی رائے کا مظہر تھا میں عورت نے کیسے بے حرمتی کر دی۔

اور وہ بے حرمتی تب کیوں نہیں ہوتی جب اسے عورت کے تمام وہ حقوق چھین لئے جاتے ہیں جو اسے دین بھی دیتا ہے۔ یہ بے حرمتی تب کیوں نہیں ہوتی جب عورت سے تعلیم حاصل کرنے کا حق چھینا جاتا ہے جبکہ تمام عورتوں اور مردوں پر تعلیم فرض کی گئی ہے چاہے اُس کے لئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے، یہ بے حرمتی تب کیوں نہیں ہوتی جب عورت کو وراثت میں حصہ اس لئے نہیں دیا جاتا کیونکہ اُسے شادی میں جہیز دے دیا گیا تھا۔ یہ بے حرمتی تب کیوں نہیں ہوتی جب اسے اسلام میں دیا گیا اپنی مرضی سے اپنا شریکِ حیات چننے کا حق نہیں دیا جاتا اور اگر وہ حق وہ خود استعمال کرنا چاہے تو غیرت کے نام پر قتل کر کے اُس کی لاش تک کا تماشا لگایا جاتا ہے یا کسی بے گناہ عورت کو صرف اپنی کسی غلطی کو چھپانے کے لئے قربان کیا جاتا ہے اور پھر سزا سے بچنے کو اسے کاری قرار سے کر بے دردی سے مار دیا جاتا ہے۔

یہ بے حرمتی تب کیوں نہیں ہوتی جب ہر دو گھنٹے بعد کسی نہ کسی معصوم بچی کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کی خبر آتی ہے اور سن کر محض مذمتی بیان دے دیا جاتا ہے، یہ بے حرمتی تب کیوں نہیں ہوتی جب جس بیٹی کو رحمت قرار دیا گیا ہے اسی بیٹی کو پیدا کرنے کو جرم قرار دے کر پیدا کرنے والی عورت کا گلا کاٹ دیا جاتا ہے، جب گلی میں نکلنے ہوئے اسی بیٹی کو چھیڑا جاتا ہے۔ یہ بے حرمتی تب بھی نہیں ہوتی جب کسی جرگے کے غیر قانونی فیصلے کی پاداش میں اسے ونی جیسی ظالمانہ رسم کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ بے حرمتی تب کیوں نہیں ہوتی جب وہ اسی گھر میں ہراسمنٹ اور تشدد کی زد پر ہوتی ہے جہاں اسے نکاح کر کے لایا جاتا ہے اور نکاح کرنے والے ہی اسے اُس کے ازدواجی سے بھی محروم رکھتے ہیں اور معاشی نان نفقے سے بھی۔ یہ سب حقوق بھی تو اسلام کے دیے ہوئے ہیں پھر کیوں ان کوغصب کرتے ہوئے بے حرمتی نہیں ہوتی۔

بے حرمتی اور عورتوں کے قصور ابھی صحیح سے واضح نہیں ہوئے تھے کہ نیوزی لینڈ کی مسجد میں نماز کے دوران مسجد میں دہشتگردی کے واقعے نے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی بے شک وہ ایک تکلیف دہ وقت تھا اتنی زیادہ انسانی جانوں کا زیاں اور عبادت گاہ کے تقدس کا پامال کیا جانا دہشتگردی اور انتہا پسندی ہی تھی پر اُس وقت بھی کچھ لوگوں نے عجیب ہی تبصرے شروع کر رکھے تھے اُن کے لفظ انتہا پسندی لئے ہوئے تھے کہ کیونکہ قاتل عیسائی تھا اس لئے میڈیا نے دہشتگرد کا لفظ استعمال نہیں کیا اور جب خود نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم مرنے وانوں کے لواحقین کے پاس جاکر معافی مانگی اس دہشتگردی کو اپنی غلطی مانا اور بروقت کارروائی کی اورآُن کے اس روئیے نے پوری دنیا کے دل جیت لئے تب بھی اُن میں سے کچھ لوگوں کو یہ دکھاوا لگا۔

اور پھر وہ یادگار لفظ استعمال ہونا شروع ہوا جی ہوں بے حرمتی، جس وقت نیوزی لینڈ کی عوام مرنے والوں کی یاد میں مسجد کے باہر پھول رکھ رہی موم بتیاں روشن کر رہی تھی اور جب نمازیوں کے پیچھے اُن کی حفاظت کے لئے صف بنا کر کھڑے تھے تب کسی اولین اقدار کے فلسفی کی نظر ان لوگوں میں سے کسی کی آدھی کھلی ٹانگوں پر پڑ گئی اور پھر کیا تھا بس برآمد ہوا ایک لفظ بے حرمتی۔ جی ہاں کہا گیا کہ ان لوگوں نے مسجد کی بے حرمتی کی ہے کیونکہ یہ ننگی ٹانگیں لے کر مسجد میں آئے۔

مزید حیرت تب ہوئی جب لوگوں نے اس عظیم رہنا کو سراہنے کا بھی عجیب انداز نکالا، کہیں اس کے شجرے اور عقیدے کو کھنگالا گیا اور حد تب ہوئی جب اُس کو براہ راست کہا گیا کہ آپ مسلمان ہوجائیں۔ اُس کی انسانیت اور انسانوں سے محبت کو مشروط کردیا گیا کہ اگر آپ نیک عمل کرتی ہیں آپ کی سوچ عظیم ہے تو آپ کو مسلمان ہو جانا چاہیے کیونکہ اچھے عمل کرنے کے لئے مسلمان ہونا ایک لائسنس ہے، بجائے اس کے کہ اُس کے اچھے عمل کو اپنایا جاتا اپنے قومی لیڈران اور رہنماؤں کو کہا جاتا کہ خدارا ایسا طرزِ عمل اپنائیں اِس معصوم عورت کو کہا جانے لگا کہ آپ اپنے نیک عمل پرمسلمان ہونے کا ٹھّپہ لگوا کر جنت کی ضمانت لے لیں۔

ہم ابھی سوچوں میں غرق ہی تھے کہ اندرونِ سندھ کے شہر گھوٹکی سے خبر آئی کہ دو نابالغ ہندو لڑکیوں کو اغوا کر لیا گیا ہے اور اُن کو مسلمان کر کے اُن کی شادی پہلے سے شادی شدہ مردوں سے کروا فی گئی ہے۔ کسی اور نے یہی خبر اپنے انداز میں مبارک باد دیتے ہوئے لگائی تھی کہ اسلام سے متاثر ہوکر گھوٹکی کی رینا اور روینا نے اسلام قبول کیا ہے اور اُن کا نکاح اُنہی دو مسلمان لڑکوں کے ساتھ کروا دیا گیا ہے جو اُن کے اسلام سے متاثر ہونے کی وجہ بنے۔

دوسرے دن انہی لڑکیوں کے خوف سے پیلے پڑتے ہوئے چہرے اور لرزتی ہوئی آوازوں میں بیک وقت ایک ہی جیسے الفاظ دہراتے ہوئے ایک ویڈیو بیان دیکھنے کو ملا جو صاف بتا رہا تھا کہ یہ سب متاثر ہو کر کیا جا رہا ہے یا متاثرہ ہوکر۔ پھر اِن بچیوں کی ماں اِن کے غم میں اِس دنیا سے ہی چلی گلی اور باپ سراپا احتجاج ہے۔ جو لوگ جبری تبدیلئی مذہب کے خلف بشمول میرے کسی بھی پلیٹ فارم سے آواز اٹھا رہے تھے ان کو کہا جانے لگا کہ آپ ملحد ہیں بے حرمتی کر رہے ہیں۔

پھر بے حرمتی۔ میں پھر سوچ میں پڑ گئی، پہلے اپنے بارے میں مشکوک ہوئی خود پر غور کیا اور اپنی نیت کو جانچا تو سمجھ آیا کہ میرا ارادہ بالکل یہ نہیں کہ اگر کوئی عاقل بالغ واقعی میں اسلام قبول کرے تو میں اسے غلط جہاں پر زبردستی صرف نابالغ لڑکیوں کو اغوا کرکے مسلمان کرنا اور کلمہ پڑھنے کے ساتھ ہی اِن کا نکاح بھی پڑھادینا کیا یہ صحیح ہے؟ صرف لڑکیاں ہی کیوں متاثر ہوتی ہیں اسلام سے لڑکے کیوں نہیں؟ کوئی بوڑھی عورت کیوں نہیں جیسے انڈونیشیا میں ایک 90 سالہ خاتون اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر مسلمان ہوئی، کوئی درمیانی عمر کا مرد مسلمان کرکے نکاح کسی مسلمان لڑکی سے کیوں نہیں پڑھایا جاتا؟

اور مسلمان ہونے کے بعد فوراً نکاح کرنا ہی کیوں ضروری ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ نکاح کا مقصد اُن لڑکیوں کو پابند کرنا ہے۔ جب کم عمری کی شادی قانونی طور پر جرم ہے اور اسلام کے بعض مسالک کے قانون میں بناء ولی کے نکاح بھی نہیں ہوتا تو پھر اِن دونوں کا نکاح کیسے؟ اتنے سوال ذہن میں اور سب سے بڑا سوال کہ آخر دین کی بے حرمتی ہے کیا؟ اگر ہم آپ کے بیان پر ہی یقین کریں تو بھی کیا یہ دین کی بے حرمتی نہیں جب ایک نابالغ ناسمجھ لڑکی جس کو دین کی صحیح سمجھ بھی نہیں وہ کسی مرد کی محبت میں اسلام سے متاثر ہوئی اسلام کی محبت میں نہیں۔

کیا یہ دین کی بے حرمتی نہیں جب غریب ماں باپ اپنی بیٹیوں کی جدائی میں غم و غصہ میں مبتلا ہوکر اسلام یا مسلمانوں کے لئے منفی سوچ رکھیں؟ گزشتہ دو ماہ میں تیرہ لڑکیوں کو سندھ کے مختلف علاقوں سے اغوا کرکے مذہب تبدیل کیا گیا، ان کا کوئی اتا پتہ نہیں کیا اس طرح اسلام کو جابر وظالم مذہب کے روپ میں پیش کرنا بے حرمتی نہیں؟ کیا ایک پُر امن مذہب کو دوسرے مذاہب کے لئے باعثِ خوف بنانا اُس مذہب کی بے حرمتی نہیں؟ میری سوچ اور عقل جواب دیتی جا رہی یاور کس طرح بے حرمتی کے معنی اِن نام نہاد دینی ٹھیکیداروں کے سامنے واضح کیے جائیں۔ کیا ہے بے حرمتی ہے کوئی جواب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).