پیمرا: دفاعی تجزیہ کاروں کی ٹاک شوز میں شرکت آئی ایس پی آر کی اجازت سے مشروط


پیمرا

پاکستان الیکٹرانک میڈیا اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے چار اپریل کو تمام میڈیا چینلز کو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے متنبہ کیا تھا کہ وہ ریٹائرڈ فوجی افسران کو بطور دفاعی تجزیہ کار مدعو کرنے سے قبل فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر سے اجازت لیں۔

آل پاکستان ایکس سروس مین لیگل فورم کے کنوینر اور فوج کے سابق کرنل انعام الرحیم کے مطابق ان کی نجی ٹی وی کے ایک ٹاک شو میں کی گئی فوجی عدالتوں پر تنقید پیمرا کے نوٹیفیکیشن کا سبب بنی۔ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے ٹاک شو میں کہا تھا کہ ’فوجی عدالتوں میں دوبارہ توسیع نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس میں بہت سے قانونی تقاضوں کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔‘ انھوں نے کہ پیمرا کا نوٹیفیکیشن’سینسر شپ کی ایک کڑی ہے۔‘

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے، جو گذشتہ کئی سال سے متعدد ٹی وی چینلز ٹاک شوز میں بطور دفاعی تجزیہ کار شریک ہوتے ہیں، بی بی سی کو اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ ’پیمرا کے اس نوٹیفیکیشن نے وہ طریقہ کار وضح کیا ہے جو پہلے سے ہی موجود ہے کہ ریٹائرڈ افسران کو دفاعی امور پر بات کرنے سے قبل فوج سے اجازت لینا ہوتی ہے۔‘

جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے متن میں کہا گیا ہے کہ یہ ہدایت ’متعلقہ حلقوں میں تشویش‘ پائے جانے کے سبب جاری کی گئی ہے۔

ٹی وی چینلوں پر ریٹائرڈ فوجی افسران کو بیشتر اوقات پروگرام میں گفتگو کرنے کی دعوت دی جاتی ہے اور ان کا تعارف بطور دفاعی تجزیہ کار کرایا جاتا ہے۔ پیمرا کے مطابق یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مدعو کیے گئے افسران کو ریٹائر ہوئے ایک عرصہ ہو چکا ہوتا ہے اس لیے بعض اوقات وہ نیشنل سکیورٹی اور دفاعی امور پر ہونے والی پیشرفت سے آگاہ نہیں ہوتے۔

بی بی سی نے متعدد بار پیمرا کے حکام سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ان کی جانب سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی فوجی واٹس ایپ گروپ کیوں چھوڑ رہے ہیں؟

مذہبی چینلز: تفریق یا آزادیِ اظہار کا ذریعہ؟

پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم کی تعیناتی کالعدم قرار

پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم نے بتایا کہ ’یہ اقدام ممکنہ طور پر فوج کی غیرجانبداری کو بحال کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہو گا، مگر مجھے اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں کہ پیمرا کو اس حوالے سے کوئی شکایت موصول ہوئی ہے کہ نہیں۔‘

کیبل چینلز

اس نوٹیفیکیشن کی ضرورت اب کیوں پڑی؟

فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر افسر سے جب پیمرا کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن سے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود بھی بطور تجزیہ کار اور تبصرہ نگار اپنی رائے کا اظہار مختلف ٹی وی چینلز پر کرتے رہے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ اب اس نوٹیفیکیشن کی کیوں ضرورت پڑی ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں انھوں نے سمجھا کہ حالات ان کے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں جس کے باعث وہ اسے کنٹرول کرنا چاہتے ہیں،ان کو لگا ہوگا کہ لوگ ایسی باتیں کر رہے ہیں جو ان کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی۔‘

ان کا نوٹیفیکیشن سے متعلق مزید کہنا تھا کہ ’یہ سنسر شپ ہے، کافی سخت سنسر شپ ہے۔‘

کرنل انعام نے کہا کہ ’وہ سابقہ فوجی افسران جو مختلف میڈیا چینیلز پر آ کر سچی بات کرنا چاہتے ہیں انھیں بھی روکا جارہا ہے اور یہ نوٹیفیکیشن آزادی اظہارِ رائے پر ایک قدغن ہے۔‘

ان کے مطابق اس پروگرام کے نشر ہونے کے بعد جس میں انہوں نے فوجی عدالتوں کی مخالفت کی تھی، انھیں کسی میڈیا چینل نے اپنے پروگرام میں مدعو نہیں کیا۔ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اس نوٹیفیکیشن کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلینج کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نوٹیفیکیشن کی ضرورت اب اس لیے پیش آئی ہے کیونکہ ’ٹی وی چینیل اب بہت زیادہ ہو گئے ہیں جس کے باعث منجھے ہوئے دفاعی تجزیہ کار ہر جگہ نہیں جا سکتے۔ چینلوں نے دائیں بائیں سے لوگوں بلانا شروع کردیا جن کو نہ اتنا تجربہ تھا اور نہ ہی ان کی آرا غیر جانبدار ہیں۔‘

امجد شعیب نے مزید ایک سابق فوجی افسر کا نام لیتے ہوئے ان سے متعلق کہا کہ ’وہ شہرت چاہتے ہیں اور وہ کوئی نہ کوئی ایسا کھیل کھیلتے رہتے ہیں کیونکہ فوج کے خلاف بات کرنے کا ایک دور رہا ہے تو وہ اس میں ہاتھ رنگتے رہے ہیں۔‘

صحافی اور تجزیہ کار عمار مسعود کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ پانچ سال سے جب بھی کوئی ریٹائرڈ آرمی افسر ٹی وی پروگرام میں آتے تھے تو ان کی رائے کو انفرادی نہیں بلکہ ادارے کی رائے تصور کیا جاتا تھا۔ اگر کوئی ہدایت جاری کرنی تھی تو پہلے کیوں نہیں کی گئی؟‘

ٹی وی چینل

سابق فوجی افسران اور سیاسی گفتگو

نوٹیفیکیشن میں یہ تذکرہ بھی کیا گیا ہے کہ دفاعی تجزیہ کار ٹی وی پروگراموں میں دفاعی گفتگو کی بجائے سیاسی بحث میں الجھ جاتے ہیں اور یہ عمل ناپسندیدہ تصور کیا جاتا ہے۔ پیمرا نے تمام ٹی وی چینیلوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ اگر ریٹائرڈ فوجی افسران کو دفاعی امور کے علاوہ گفتگو کے لیے مدعو کیا جاتا ہے تو ان کا تعارف صرف بطور ’تجزیہ کار` کروایا جائے نہ کہ ’دفاعی تجزیہ کار‘۔

فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی سے گفتگو کی اور اس سوال کے جواب میں کہ سابق فوجی افسران پر سیاسی گفتگو کرنے کا کیا کوئی ضابطۂ کار موجود ہے ان کا کہنا تھا کہ ’انفرادی رائے پر کوئی قدغن نہیں مگر ریٹائرڈ فوجی افسران کو سروس کے بعد دو سال تک کسی بھی سیاسی یا دفاعی امور پر اپنی رائے دینے کی اجازت نہیں ہوتی۔‘

صحافی اور تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا کہ ’یہ کبھی نہیں ہوا کہ ان دفاعی تجزیہ کاروں نے در حقیقت دفاع کے امور پر بات کی ہو، وہ تو سارا وقت یہی کہتے رہتے تھے کے سارے سیاستدان کرپٹ اور بدعنوان ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ریٹائرڈ فوجی افسر کی ضرورت صرف دفاعی امور پر بات کرنے کے حوالے سے ہونی چاہیے نہ کہ سیاسی بحث کے پروگرام میں انھیں مدعو کیا جائے۔ ان افسران کا کردار سیاسی پروگرام میں ختم کر دینا چاہیے۔‘

البتہ لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا تھا کہ ’پیمرا کے نوٹیفیکیشن کو اس پیرائے میں نہ دیکھا جائے کہ سابق افسران کی سیاسی سوچ پر کوئی قدغن لگائی جارہی ہے۔‘

ابصار عالم

پیمرا کے سابق چئیرمین ابصار عالم

پیمرا کے نظام میں کیا ایسے نوٹیفیکیشن کی گنجائش ہے؟

پیمرا کے سابق چئیرمین ابصار عالم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پیمرا کا نظام شکایات موصول ہونے کی بنیاد پر کوئی بھی اقدام اٹھاتا ہے اور ہم نے اپنے دور میں اس پر اس لیے کوئی کارروائی نہیں کی کیونکہ ہمیں اس حوالے سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی تھی۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ اس نوٹیفیکیشن کو اب کیوں جاری کیا گیا ہے، ابصار عالم کا کہنا تھا کہ ’مجھے تو وجہ سمجھ نہیں آتی کہ اب یہ کیوں کیا گیا ہے کیونکہ آزادی رائے تو ایک بنیادی حق ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پیمرا نے بذات خود یہ کام کیا ہے تو ’میرے علم میں ایسا کوئی قانون نہیں جس میں ایسے نوٹیفیکیشن کی گنجائش ہو۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پیمرا کے پاس از خود نوٹس لینے کا اختیار ضرور ہے لیکن اس کے لیے بھی پیمرا ٹی وی چینیلوں کو مکمل موقع دیتا ہے کہ وہ اپنا موقف پہلے بیان کر سکیں اور یہ عمومی طور پر سنگین معاملات پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ نیشنل سکیورٹی یا جب مذہبی بنیادوں پر فتوے جاری کیے جاتے ہیں۔ میں پھر سے دہرا رہا ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ پیمرا کو کوئی شکایت موصول ہوئی ہو مگر مجھے اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp