جرگہ پاکستان : جو میں نے دیکھا، جو میں نے سنا


کراچی کے ایک اخبار سے میں وابستہ تھا۔ واقعہ بھول گیا، مگر وزیرستان میں ہوا تھا۔ طبعیت پر بہت گہرا اثر چھوڑ گیا تھا۔ فوجی آپریشن کی میں نے ایک کالم میں حمایت کی۔ عابد آفریدی نے مجھ سے کہا، آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟ اس نے بات کہی، میں نے جواب دیا۔ اس نے دلیل دی، میں چپ ہوگیا۔ میرا موقف بدل گیا۔ عابد آفریدی کے پاس محض دلیل نہیں تھی۔ ایک درد بھی تھا جس کے آگے ہردلیل ہیچ ہے۔ ایک دھماکے میں اس کا بھانجا مارا گیا۔ اس درد نے ماں کے اعصاب ایسے چٹخا دیے کہ گھر میں اسے زنجیروں سے باندھنا پڑا۔

عابد آفریدی نے جرگہ پاکستان کی بنیاد رکھی ہے۔ غرض وغایت یہ بتائی گئی ہے کہ ہم نے ریاست اور پی ٹی ایم کے بیچ تصادم کے امکانات کو ختم کرنا ہے۔ گاڑی کو دھکا دینے کے لیے سات اپریل کو اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں فریقین کا ایک اکٹھ رکھا۔ اس اکٹھ میں ملک بھر کے مختلف الخیال دانشوروں، قلم کاروں، اخبار نویسوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ کچھ ایسے لوگ بھی آئے ہوئے تھے جنہوں نے جنگ کی شعلوں کو براہ راست سہا ہے۔ عمران فارق قتل کیس میں نامزد ملزم معظم خان کی اہلیہ بھی آئی ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنے تعارف میں صاف کہا، میں قائد تحریک الطاف حسین بھائی کی پیروکار ہوں۔

میں پہنچا تو اباسین یوسفزئی صاحب گفتگو فرما رہے تھے۔ آپ پختونوں کے نمائندہ شاعروں اور ممتاز اساتذہ میں سے ہیں۔ پختونخوا کے حجرہ و بازار میں جب انسانی چیتھڑے اڑ رہے ہوتے تھے تب ان کی ایک نظم کا بند زبان زد عام ہوا

خود بتاؤ
خون تمہارا ارزاں ہوا کہ نہیں
آدھی رات ہجرت پہ رواں ہوئے کہ نہیں
بچوں کی درس گاہیں بند ہوئیں کہ نہیں
تم نے احتجاج کیا؟
نہیں!
کیوں؟
کہاں ہیں، دریا خان اور ایمل خان کہاں ہیں
تم میں وہ جرات وہ ایمان کہا ں ہے!

یہ بتاو
تمہاری تاریخ کا ہر نشان مٹایاگیا کہ نہیں
تمہیں خود تمہاری نظر میں گرایا گیا کہ نہیں
ہر درد کا شور اٹھایا گیا کہ نہیں
تم نے احتجاج کیا؟
نہیں!
کیوں؟
کہاں ہے، پیرروخان اور باچا خان کہاں ہیں
تم میں وہ غیرت وہ ایمان کہاں ہے!

لٹے پھٹے قافلوں کے لیے یہ نظم مزاحمت کا استعارہ ہوگئی تھی۔ مزاحمت کا ناقوس بجا تو شاعر سہم گیا۔ گفتگو کا ایک حصہ قبائل کی قربانیو ں پر تھا۔ دوسرا حصہ اس یقین دہانی پر مشتمل تھا کہ پختون کبھی پاکستان کا دشمن نہیں ہوسکتا۔ تیسرے حصے میں تقاضا کررہے تھے کہ اس سرزمین پر جو کچھ ہوا اسے کسی نامعلوم جنگ کے فطری نتیجے کے طور پر قبول کرکے آگے بڑھ جانا چاہیے۔ ان کی اس بات میں اورکہی گئی نظموں میں وہی فاصلہ پیدا ہوگیا ہے جو تجدیدِ علومِ الہیات اور ضرب کلیم میں ہے۔

آصف محمود موقر روزنامے کے کالم نگار ہیں۔ ٹی وی شو کے میزبان ہیں اور حالات حاضرہ پر لکھی کتابوں کے مصنف ہیں۔ دو ٹوک انہوں نے فاٹا میں ہونے والے جبر و قہر کی مذّت کی۔ پختونوں اور پنجابیوں کے بیچ کسی بھی قسم کی کشیدگی کے امکان کو انہوں نے مسترد کیا۔ خیبر ٹی وی کے میزبان حسن خان کی بات انہیں ناگوار گزری۔ حسن خان نے کہاتھا، ریاست ماں جیس ہوتی ہے مگر اس نے کردار بہرحال نائکہ کا ادا کیا ہے۔ آصف محمود نے فرمایا، مظالم کا اعتراف ہے، مگر ریاست ماں جیسی ہوتی ہے اس کو گالی برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا، جب فاٹا میں ڈرون حملے ہورہے تھے تو بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں پہلی کتاب بھی آپ کے اِس پنجابی بھائی نے لکھی تھی۔

پی ٹی ایم کی نمائندگی اولس یار وزیر اور مجید داوڑ کررہے تھے۔ اولس یار پی ٹی ایم کے کور کمیٹی کے ممبر ہیں۔ علم، دانش اور مزاحمت ان کی شناخت ہے۔ انہوں نے گفتگو کے آغاز میں ہی کہا، مجھے نہیں علم کہ یہاں کتنے سینئر صحافی موجود ہیں۔ اگر کوئی ہے تو میں پوچھنا چاہوں گا کہ ان میں کتنے ہیں جنہوں نے کبھی قبائلی علاقوں کا دورہ کیا۔ آج تک جتنے صحافی وہاں آئے ہیں، وہ آئی ایس پی آر کے ہیلی کاپٹروں میں آئے ہیں۔ اول تو انہیں وہ منظر دکھایا نہیں جاتا جس سے ہماری زندگیوں کا تعلق ہے۔ پھر وہ اخبار نویس آپ کو وہ نہیں دکھاتے جو انہوں نے دیکھا ہوتا ہے۔ وہی دکھاتے ہیں جو انہیں بتادیا گیا ہوتا ہے۔ اولس یار نے کہا، ہمارے خون سے چراغ جلاکرلوگوں نے اپنی دنیا روشن کی ہے۔ ہماری موت کچھ لوگوں کے لیے جینے کی وجہ بن گئی تھی۔

پروگرام ابھی جوبن پرتھا کہ بتایا گیا، پختونخوا کے گورنر شاہ فرمان تشریف لارہے ہیں۔ گورنر صاحب کی گفتگو ففتھ جنریشن وار کے گرد رہی۔ اس باب میں اسی نقطہ نظر کو انہوں نے بیان کیا جو ان دنوں ریاستی بیانیے کا لازمی باب ہے۔ فاٹا میں جنگ کا شکار ہونے و الے شہریوں کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے مطالبہ کیا کہ سوشل میڈیا پر آج کے بعد فاٹا کے پختونوں کو محسن پاکستان کے عنوان سے یاد کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اس بات کا تقاضا بھی کیا کہ فاٹا میں جو کچھ ہوا اسے کولیٹرل ڈیمیج کے طور پر قبول کرلیا جائے۔ انہیں احساس تھا کہ اس تقریب میں یک رویہ ٹریفک بہہ رہی ہے۔ اس لیے وہ مزاحمتی سیاست سے وابستہ کارکنوں کو بے فکری سے چٹکیاں بھرتے چلے جارہے تھے۔

ان کی گفتگو ختم ہوئی تو عابد آفریدی نے کہا، آپ تشریف رکھیے مجھے ایک سوال کرنا ہے۔ عابد نے تین باتیں کہیں۔ ایک یہ کہ آج کی تقریب میں پی ٹی ایم سمیت تمام نقطہ ہائے نظر کی نمائندگی موجود ہے۔ دوم یہ کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ریاست اور پی ٹی ایم کو باہم گتھم گتھا ہونے نہیں دیں گے۔ سوم یہ بتائیے کہ آج کے اس دن کے لیے آپ کے پاس ایسا کیا اعلان ہے کہ ہمیں یقین ہو چلے کہ بات آگے بڑھے گی۔ گورنر صاحب نے اعلان کیا کہ وقت اور تاریخ آپ لوگ طے کرلیں، گورنر ہاؤس کے دروازے میں کھول دوں گا۔ جرگے کے لیے نمائندوں کا تعین آپ کردیں، ارباب اختیار سے بات میں کرلوں گا۔ جاتے جاتے انہوں نے پی ٹی ایم کے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے ہمدردی کا یقین دلایا۔ یہ ان چٹکیوں کا ازالہ تھا، جو کچھ دیر پہلے وہ بے دھیانی میں کاٹ گئے تھے۔

کبھی بی بی سی کے پردوں سے ایک مدبر سی آواز ملک بھر میں سنائی دی تھی۔ یہ رحیم اللہ یوسفزئی کی آواز تھی جو بلاشبہ صحافت کی آبرو ہیں۔ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ جرگہ پاکستان کے جوانوں کوحوصلہ انہوں نے ہی دیا ہے۔ جرگہ کنونشن میں وہ میر محفل تھے۔ ان کی ہی گفتگو ایسی تھی جس کی روشنی میں راستہ ناپا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ان جوانوں نے جس پتھر کو ہاتھ لگایا وہ بہت بھاری ہے۔ یہ ایک بڑا سفر ہے جس کے لیے حوصلہ چاہیے۔ کیونکہ جرگے کی کوششیں پہلے بھی اعلی سطح پر ہوچکی ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ جرگے ناکامی کا شکار کیوں ہوگئے۔

رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا، فاٹا والوں کا رونا اس لیے بجا ہے کہ پچھلے دس برسوں میں فاٹا کی نصف آبادی کو اپنے علاقوں سے نکلنا پڑا۔ جو سامان ہاتھ آیا لے گئے، جو رہ گیا سو رہ گیا۔ دربدرد ہونے والے ان شہریوں کی زندگی مکمل طور پر بدل گئی ہے۔ ان کے لیے اب وہ رہنا قطعاً ممکن نہیں ہے جو وہ کل تک تھے۔ سو ان کے ساتھ بہت سوچ سمجھ کر بات کرنی پڑے گی۔ لینڈ مائنز کا مسئلہ اب تک حل نہیں کیا جاسکا ہے اور ٹارگٹ کلنگ کا بڑھتا ہوا سلسلہ اس کے سوا ہے۔ حالات کا سد باب کیے بغیر ان جوانوں کو خاموش کرنا تقریبا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا، ماضی میں بھی جرگے کی کئی کوششیں ہوئیں۔ ایک کوشش کامیاب بھی ہوئی۔ جس کے لیے شاہ فرمان بھی سرگرم تھے اور حاجی گل آفریدی کے گھر اس کا اہتمام ہوا۔

اس جرگے کا کوئی نتیجہ اس لیے نہیں نکل سکا کہ پی ٹی ایم نے تقاضا کیا تھا کہ پہلے کوئی نوٹیفیکیشن جاری ہوجانا چاہیے کہ یہ جرگہ مکمل طور پر با اختیار ہے۔ چونکہ یہ یقین دہانی نہیں کروائی جاسکی اس لیے جرگہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ اب دوبارہ صوبائی حکومت کے زیراہتمام جرگے کی کوشش جاری ہے، جو اسی صورت کامیاب ہوپائے گی جب اختیار کا یقین انہیں دلایا جائے گا۔

رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا، پی ٹی ایم کی طرف سے ٹروتھ اینڈ ریکینسی لئیشن کمیشن کے قیام کا مطالبہ نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ یہ مسئلے کا حل بھی ہے۔ یہ مطالبہ عالمی سیاسی تاریخ میں پہلی بار نیلسن منڈیلا نے کیا تھا اور قومی سیاسی تاریخ میں پہلی بار بے نظیر بھٹو نے کیا تھا۔ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے صحافی وتجزیہ کار سبوخ سید نے کہا، حکومتوں کی طرف سے نیک عزمی کا اظہار توہمیشہ ہی ہوتا ہے مگر مسئلہ اختیار کا ہے جو ان کے پاس ہوتا نہیں ہے۔ کوئی بھی جرگہ با اختیار فریق کی شمولیت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ اگر ملٹری اسٹبلشمنٹ اس وقت طاقت کا مرکز ہے تو کوئی حرج نہیں کہ انہی سے اختیار کی ضمانت لے لی جائے۔ اگر شہریوں کی دلجوئی اور سیاسی استحکام کے لیے ملٹری اسٹبلشمنٹ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرلے تو یہ کچھ ایسا برا سودا بھی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).