انڈیا کے انتخابات میں واٹس ایپ جعلی خبروں کا بلیک ہول


سوگوار

سنہ 2014 کے شدت پسند حملوں کے شکار افراد کو غلط طور پر بالاکوٹ حملے میں مرنے والے شدت پسند کے طور پر پیش کیا گیا

انڈیا کا مقبول ترین میسجنگ پلیٹفارم واٹس ایپ انڈیا کے عام انتخابات سے قبل غلط معلومات فراہم کرانے اور پروپگینڈا کا ذریعہ بن گیا ہے۔ فیس بک کی ملکیت والے ایپ نے اس کے تدارک کے طور پر نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔

مارچ کے اوائل میں، انڈیا وطن پرستی کے جذبے سے سرشار تھا جب واٹس ایپ گروپس پر انڈیا کی جانب سے بالاکوٹ میں مبینہ کامیاب حملے کے ثبوت کے طور پر تصاویر کا سیلاب دیکھا گیا۔

حکومت ہند کا کہنا تھا کہ 26 فروری کے حملے میں بڑی تعداد میں شدت پسند ہلاک ہوئے جبکہ اسلام آباد کا موقف تھا کہ کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔

لیکن بی بی سی کی ٹیم نے معلوم کیا کہ ہلاک شدہ شدت پسندوں اور تباہ شدہ تربیتی کیمپ کی یہ مبینہ تصاویر پرانی تھیں اور انھیں غلط سرخیوں کے ساتھ شیئر کیا جا رہا تھا۔

ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا تھا کہ مسلم خواتین اور مرد تین لاشوں کے گرد کھڑے ہیں لیکن درحقیقت یہ تصویر سنہ 2014 میں پاکستان میں ہونے والے ایک شدت پسند حملے میں مرنے والوں کی تھی۔ جبکہ کچلی ہوئی لاشیں، ملبے کے ڈھیر اور کفن میں لپٹی لاشوں کی متعدد تصاویر جو واٹس ایپ پر گردش کر رہی تھی وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سنہ 2005 کے زلزلے کی تھیں۔

واٹس ایپ اور فیس بک کو ‘فیک نیوز’ یعنی جعلی خبروں کے اثرات کو کم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ ان کے ذریعے تصاویر، پیغامات اور ویڈیوز کی شکل میں گمراہ کن یا بالکل ہی غلط معلومات دنیا بھر میں پھیلائی جا رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’مسئلہ واٹس ایپ کا نہیں، سوچ کا ہے‘

واٹس ایپ پر’بچوں کی فحش تصاویر‘ پر گرفتاریاں

انڈیا یا لِنچستان؟

لیکن انڈیا کے آنے والے عام انتخابات جو کہ سب سے بڑا جمہوری عمل ہیں جعلی خبروں کے اعتبار سے ایک بڑا امتحان ہے۔ سنہ 2014 کے گذشتہ انتخابات کے بعد سے انڈیا کے دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کا استعمال تیزی سے پھیلا ہے کیونکہ انڈیا میں موبائل ڈیٹا کی قیمت دنیا میں سب سے کم ہے۔

انتخابات سے قبل فیس بک نے گمراہ کرنے والے صارفین کے سینکڑوں اکاؤنٹس اور صفحات کو ہٹا دیا ہے۔ جبکہ واٹس ایپ نے تصدیق کے لیے اپنی نئی خدمات پیش کی ہیں تاکہ غلط معلومات کے پھیلاؤ کا مطالعہ کیا جاسکے۔

مسئلہ کتنے بڑے پیمانے پر ہے؟

انڈیا فیس بک کے لیے پیچیدہ مسئلہ پیش کرتا ہے۔ یہ واٹس ایپ کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ 20 کروڑ سے زیادہ ہندوستانی اس کا ایپ کا استعمال کرتے ہیں اور یہاں دنیا کے کسی حصے سے بھی زیادہ مواد شیئر کیا جاتا ہے۔

اس میں زیادہ سے زیادہ 256 افراد ایک چیٹ گروپ کا حصہ ہو سکتے ہیں اور اسی وجہ سے بڑے خاندان اور دوستوں کے گروپ میں یہ بہت مقبول ہے۔ اس میں روزانہ کی باتوں، منصوبوں کے علاوہ لطیفے شیئر کیے جاتے ہیں جبکہ سیاسی پیغامات اور ویڈیوز بھی بڑے پیمانے پر شیئر کیے جاتے ہیں۔

بی بی سی کی گذشتہ سال کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئي کہ قوم پرستی کی نئی لہر میں ہندوستانی جعلی خبریں شیئر کر رہے ہیں۔ اس میں شامل لوگ سمجھتے ہیں کہ اہل خانہ یا دوست کی جانب سے بھیجے گئے پیغامات قابل اعتماد ہیں اور وہ بغیر اس کی تصدیق کیے آگے روانہ کر دیتے ہیں۔

ٹکنالوجی پر لکھنے والے مصنف پرسانتو کے رائے 100 سے زیادہ کلاس میٹس والے دہلی کے ایک سکول کے پرانے طلبہ کے گروپ میں شامل ہیں۔ اس گروپ میں ہندو، مسلم اور مسیحی سب ہیں۔

انھوں نے بتایا: ‘سنہ 2014 سے ہمیں ایک جانب جھکاؤ نظر آ رہا ہے۔ تقریباً دس افراد مسلسل جعلی چیزیں بھیج رہے ہیں۔ ہمارے جیسے کئی لوگ صداقت معلوم کرکے انھیں بتا رہے ہیں لیکن ہمیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔’

بہت سے ہندوستانیوں کا انٹرنیٹ سے رابطہ سمارٹ فون کے ذریعے بنا۔ انڈیا میں انگریزی زبان میں روئٹرز انسٹی ٹیوٹ کے ایک حالیہ سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ 52 فیصد لوگوں کو خبریں واٹس ایپ سے حاصل ہوتی ہیں۔ اتنے ہی فیصد لوگوں نے بتایا کہ انھیں خبریں فیس بک سے حاصل ہوتی ہیں۔

لیکن واٹس ایپ پر شیئرکیے جانے والے مواد سے قتل بھی ہوئے ہیں۔ بی بی سی کے ایک تجزیے میں پایا گيا ہے کہ سنہ 2017 اور 2018 کے درمیان کم از کم 31 افراد واٹس ایپ اور دوسرے سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہ کے سبب ہجومی تشدد کا شکار ہوگئے۔

واٹس ایپ

انڈیا میں 20 کروڑ سے زائد لوگ واٹس ایپ استعمال کرتے ہیں

انتخابات سے قبل کیا ہو رہا ہے؟

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمراں جماعت بی جے پی اور حزب اختلاف کی کانگریس پارٹی دونوں واٹس ایپ کی قوت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر انڈیا کے 90 کروڑ اہل ووٹرز کو متاثر کرنے میں لگے ہیں۔

انڈیا کے اہم اخبار دی ہندوستان ٹائمز نے خبر دی کہ انتخابی مہم کے آغاز سے قبل بی جے پی کا منصوبہ تھا کہ وہ نو لاکھ افراد کے ساتھ مقامی سطح پر واٹس ایپ کے ذریعے انتخابی مہم چلائیں گے۔

نہرو اور گاندھی کی سیاسی وراثت والی کانگریس پارٹی فیس بک پر اپنے انتخابی مواد اپ لوڈ کر رہی ہے اور واٹس ایپ کے ذریعے اسے پھیلا رہی ہے۔

دونوں پارٹیوں پر غلط یا گمراہ کن معلومات پھیلانے یا انٹرنیٹ پر غلط نمائندگی کے الزامات ہیں۔ یکم اپریل کو فیس بک نے 687 صفحات کو یہ کہتے ہوئے ہٹا دیا کہ یہ کانگریس پارٹی سے منسلک تھے اور ’غیر مصدقہ‘ طریقے سے کام کر رہے تھے۔

اطلاعات کے مطابق بی جے پی کی ہمنوا تقریباً 200 صفحات کو بھی ہٹا دیا گيا ہے لیکن فیس بک نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے (سوشل میڈیا کمپنی نے وضاحت طلب خط کا جواب نہیں دیا)۔

بی جے پی کے لیے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے والے سابق اینالسٹ شیوم شنکر سنگھ نے کہا کہ بی جے پی نے سنہ 2016 کے آس پاس بڑے پیمانے پر واٹس ایپ گروپ بنانے شروع کر دیے تھے۔ انھوں نے سنہ 2017 اور 2018 کے درمیان بی جے پی کے لیے علاقائی انتخابات میں کام کیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ نام اور فون نمبر حاصل کر کے ووٹر لسٹ سے نام ملا کر وہ ذات اور مذہب کے نام پر گروپ بناتے اور انھیں اپنے منصوبے کے مطابق پیغام بھیجتے۔

مسٹر سنگھ جو اب بی جے پی مخالف پارٹیوں کے ساتھ ریاست بہار میں کام کر رہے ہیں انھوں نے بتایا کہ تقریباً 20 ہزار بی جے پی حامی واٹس ایپ گروپ انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اترپردیش کے شمالی علاقے میں سرگرم تھے۔

بی جے پی کے نیشنل ترجمان گوپال کرشن اگروال نے پارٹی کی جانب سے واٹس ایپ گروپ بنانے کے باضابطہ منصوبے سے انکار کیا ہے سوائے اس کے کہ پارٹی ورکرز کو پیغام دینے کے لیے بنائے جانے والے گروپ کے۔

بہرحال انھوں نے کہا کہ حامیوں اور ارکان کو مقامی سطح پر گروپ بنانے کی اجازت تھی لیکن ان کا پارٹی کے ساتھ کوئی باضابطہ رابط نہیں تھا۔

انھوں نے کہا: ‘ہم اسے کنٹرول نہیں کرنا چاہتے یہ ایک کھلا میڈیا پلیٹفارم ہے۔’

واٹس ایپ

واٹس ایپ نے غلط معلومات پھیلانے کے خلاف انڈیا میں سٹریٹ پلے کیے

واٹس ایپ انوکھا مسئلہ کیوں پیدا کرتا ہے؟

انڈیا کی آلٹ نیوز اور بوم جیسی فیکٹ جانچنے والی ویب سائٹ فیس بک یا ٹوئٹر پر پوسٹ کی جانے والی سیاسی پوسٹ کو مسلسل مسترد کرتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر انڈیا کے انتخابات کے ایک برطانوی تجزیہ نگار نے کانگریس لیڈر کو ‘بے وقوف’ کہا ہے یا پھر قومی ہیرو کی طرح دیکھے جانے والے پائلٹ نے کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی ہے وغیرہ۔

یہ پوسٹ ہر چند کہ پارٹی کے آفیشل اکاؤنٹ سے شیئر نہیں کی جاتیں لیکن انھیں بڑے پیمانے پر پارٹی کی حمایت کرنے والے گروپس کی جانب سے شیئر کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بعض اوقات اسے سیاست دان شیئر کرتے ہیں۔

بوم کے بانی جینسی جیکب نے کہا: ‘فیس بک اور ٹوئٹر ایسے پلیٹفارم ہیں جو بہت زیادہ رازاداری کی اجازت نہیں دیتے اور ہم جیسے فیکٹ چيک کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ بہت سے معاملے میں ہم برے کردار والے کو ڈھونڈ نکالیں۔’

واٹس ایپ کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ پوسٹ پرائيوٹ ہوتے ہیں اور انکرپشن میں محفوظ ہوتے ہیں۔ مسٹر رائے نے اسے بلیک ہول جیسی کسی چیز سے تعبیر کیا۔

انھوں نے بتایا کہ ‘واٹس ایپ سمیت کوئي بھی نہیں جانتا کہ اس میں کیا ہے۔’

اس میں تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اس بات میں بہت زیادہ یقین رکھتی ہے کہ ‘لوگ ذاتی طور پر ایک دوسرے سے آن لائن بات کر سکیں۔’

کمپنی نے کیا کیا ہے؟

گذشتہ سال جب ہجوم کے ہاتھوں اموات پر شور اٹھا تو واٹس ایپ نے کسی میسیج کو پانچ افراد تک شیئر کرنا محدود کر دیا۔ اب وہ فارورڈ کیے جانے والے پیغام کی نشاندہی کر دیتا ہے۔

کمپنی نے ملک گیر سطح پر دس زبانوں مین ایک اشتہار جاری کیا ہے جو اس کے مطابق کروڑوں ہندوستانیوں تک پہنچ چکا ہے۔ اس نے کہا کہ وہ ہر ماہ دنیا بھر میں 20 لاکھ اکاؤنٹس بند کرتا ہے جو از خود سپیم پیغام بھیجتے ہیں۔

اب پرائیویسی سیٹنگس میں یہ اختیار حاصل ہے کہ آپ کو کون اپنے گروپ میں شامل کر سکتا ہے۔ پہلے کوئی بھی کسی بھی شخص کو اپنے گروپ میں شامل کر سکتا تھا۔ لیکن اب آپ یہ منتخب کر سکتے ہیں کہ کون آپ کو گروپ میں شامل کر سکتا ہے یا کوئی نہیں۔

دو اپریل کو کمپنی نے ‘چیک پوائنٹ’ نامی ایک نیا پروجیکٹ لانچ کیاہے جس میں صارف کوئی مشتبہ پیغام انگریزی یا چار دیگر زبانوں میں واٹس ایپ کو تصدیق کے لیے بھیج سکتا ہے۔ صارف کو بتایا جاتا ہے کہ یہ پیغام درست ہے یا غلط ہے، گمراہ کن ہے یا متنازع ہے۔

اسے وسیع پیمانے پر نئی فیکٹ چیکنگ سروس کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس کا زور ابھی صرف غلط معلومات پر ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ہر صارف کو جواب دیا ہی جائے۔

بی بی سی

بی بی سی کو ابھی بھی اپنے سوالات کے جواب کا انتظار ہے

کیا یہ کام کر رہا ہے؟

واٹس ایپ نے کہا ہے کہ ان کے اس اقدام سے فارورڈڈ پیغام میں 25 فیصد کمی آئی ہے لیکن ایک دوسرے پلیٹفارم کا کہنا ہے کہ ابھی بھی فیک نیوز وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ جن افواہوں کو وہ غلط ثابت کر چکے ہیں وہ بار بار سر ابھارتی ہیں جیسے نہرو گاندھی خاندان کا سرا مسلم خاندان سے ملتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب تک کہ واٹس ایپ اپنی انکرپشن اور پرائیویسی کی سیٹنگ میں تبدیلی نہیں کرتا اور فیس بک جیسے فیچرز نہیں متعارف کرتا تب تک جعلی مواد کا روکا جانا ممکن نہیں۔

ناقدین کا خیال ہے کہ پلیٹفارم کا نیا قانون وسیع پیمانے پر پہلے سے پھیلے ہوئے چیٹ کو متاثر نہں کرے گا اور پارٹی کے وزیر اعظم کو اس طرح سبقت حاصل رہے گي۔

مسٹر سنگھ نے کہا کہ ‘بی جے پی ہی واحد ایسی پارٹی ہے جس کے اس بڑی سطح پر واٹس ایپ گروپس ہیں۔ دوسری پارٹیاں اب ایسا نہیں کر سکتی ہیں کیونکہ واٹس ایپ نے اپنی پالیسی بدل دی ہے۔’

اضافی معلومات اپرنا الیوری کی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp