ہندوستانی سول سروسز: مسلمانوں کا کردار اور لائحہ عمل



ہندوستانی مسلمان بہت جذباتی واقع ہوئے ہیں، ممکن ہے اس کا سبب آزادی کے بعد سے ملک میں ان کے ساتھ جاری ظلم و تشدد ہو یا پھر ان کی اپنی پس ماندگی، بے بضاعتی اور بے وقعتی۔ یہ ایک الگ بحث کا موضوع ہے۔

اکثر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ہندستانی مسلمانوں کو کہیں بھی اگر تھوڑی سی امید کی کوئی کرن نظر آتی ہے تو اس کے لئے وہ پلکیں بچھانا شروع کر دیتے ہیں، خوشی سے سر شار قوم اس کے لیے سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہو جاتی ہے، ایسے افراد کی کام یابی کے ہر جگہ چرچے ہوتے ہیں۔ یہ بہت اچھی اور خوش آیند بات ہے لیکن تکلیف اس وقت دو چند ہوتی ہے کہ وہ افراد جن کے لیے قوم نے خوشی کے آنسو بہائے ہوتے ہیں، جن کے اوپر انھیں فخر ہوتا ہے، لیکن جب قوم کو کچھ دینے کا وقت آتا ہے، اپنی قوم کو ان کی ضرورت پڑتی ہے یا مظلوم، دبے کچلے اور پسے ہوئے لوگوں کے ساتھ حق و انصاف کے لیے سامنے آنا ہوتا ہے، تب وہ امیدیں اور آرزوئیں خاک میں مل جاتی جو ایسے افراد کی ذات سے وابستہ تھیں۔ بسا اوقات وہ منافق یا پھر میر جعفر کا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے ہی لوگوں کا خون چوسنے، انہیں نقصان پہنچانے اور اپنے معمولی مفادات کی خاطر قوم کا سودا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

اس حوالے سے بہتیری مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ چوں کہ ابھی حال ہی میں سول سروسز کا نتیجہ آیا ہے۔ اس حوالہ سے مسلم حلقوں میں بحث مباحثہ اور مسلم نوجوانوں کی اس میں کام یابی اور شمولیت کے موضوع پر بات چیت کا سلسلہ جاری ہے، لہذا بہتر ہو گا کہ اسی پس منظر میں گفتگو کی جائے۔

آر بی سری کمار [R. B. Sreekumar] آئی پی ایس (ریٹائرڈ)، گجرات کیڈر نے 2016 میں ‘گجرات بیہائنڈ دی کرٹین [Gujarat, behind the curtain]’ (پس پردہ گجرات) کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ جس میں انھوں نے گجرات میں ہوئے 2002 کے فسادات اور پھر اس کے پس پردہ پیش آنے والی دل دوز کہانی کے ساتھ حکومت، پولس اور انتظامیہ یہاں تک کہ عدلیہ کی داستان بیان کی ہے۔ یہ ایک با عزم آئی پی ایس کے ہاتھوں لکھی ہوئی ایسی کتاب ہے جس کو پڑھتے ہوئے آپ اس کی عظمت کو سلام کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ وہی آفیسر ہے جو فسادات کے وقت نہ صرف حق و انصاف کی بالا دستی کے لئے لڑتا رہا بلکہ بعد کے دنوں میں بھی وقت کے فرعون کے سامنے اکیلا موسیٰ بن کر ڈٹا رہا۔ اس با ہمت نوکر شاہ نے گجرات فساد کے بعد مسلم نوکر شاہوں کے رویے اور حالات کے بارے میں جس قسم کا انکشاف کیا ہے وہ ہمیں خون کے آنسو رلانے کے لئے کافی ہے، آر بی سری کمار نے لکھا ہے:

’’مسلم فرقے سے تعلق رکھنے والے سات آئی اے ایس اور آٹھ آئی اے ایس افسران نے کم سے کم مزاحمت اور مدد کی راہ اختیار کی۔ انھوں نے نہ تو خود تفتیش کاروں کو کار آمد شواہد فراہم کیے اور نہ فساد زدگان کی مدد میں شامل لوگوں سے معاونت کی۔ ان میں بہت سے افسر، فساد زدگان کو یہ مشورے دے رہے تھے کہ جو نقصان عزت آبرو اور جان و مال کا ہوا، جو بربادی مسلط کی گئی، اس کو بھلا دو اور نریندر مودی کے ڈیولپمنٹ کے مشن میں شریک ہو جاؤ۔ انھوں نے کئی شکایت کنندگان اور سنگین جرائم کے اصل گواہوں کو ورغلایا اور بہکایا کہ وہ غلط کاروں کے ساتھ سمجھوتا کر لیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایس آئی نے جن کیسوں کی از سر نو تفتیش کی، ان کے سوا باقی تمام کیس کافی قابل اعتماد شہادت نہ ہونے کی وجہ سے بند کر دیے گئے یا ملزمان بری کر دئے گئے۔‘‘
(دیکھیے مذکور کتاب کا صفحہ نمبر 147)۔

اسی طرح مصنف نے اجتماعی جرم میں معاون و شریک نوکر شاہی اور نفاذ قانون میں مستعد افسران کے عنوان سے با ضابطہ ایک باب تحریر کیا ہے جس میں انھوں نے تقریباً 21 ایسے افسران کی کہانی بیان کی ہے جنھوں نے با ضابطہ طور پر حکومت کے دباؤ میں آ کر شواہد مٹائے اور کھلم کھلا حکومت کی پشت پناہی کی۔ اس حوالے سے سری نواسن نے با ضابطہ ایک مسلم آئی پی ایس افسر اے آئی سید (1978) کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’انھوں نے مسلمانوں میں مودی کی حمایت و مقبولیت پیدا کرنے کی غرض سے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کو ڈی جی پی کے دفتر میں اے ڈی جی پی کے منصب پر ترقی دی گئی۔ ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی۔‘‘
(تفصیل کے لئے دیکھئے صفحہ نمبر 158)۔

اس حوالے سے کتاب کے مقدمہ میں مصنف نے مزید لکھا ہے کہ:
’’اکثر اعلیٰ افسران، جن پر قانون کی حکمرانی کی نگرانی کی ذمہ داری ہوتی ہے، بڑے محتاط انداز سے سرکار کے چہیتوں کے خلاف کارروائی سے کترا جاتے ہیں اور فساد بھڑکانے، فرضی انکاونٹر اور بد عنوانی جیسے فرائم کے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ (گجرات میں 2002 سے 2007 تک فرضی انکاونٹروں کا سلسلہ بے روک ٹوک چلتا جس میں پولیس افسروں کا ایک گروہ ملوث تھا۔ لیکن پولیس کے معمول کے نگراں نظام نے اس پر اس وقت تک کوئی گرفت نہیں کی جب تک کہ عدلیہ کی مداخلت کے بعد 2007 میں خطار کار گرفتار نہ کر لیے گئے)۔‘‘

یہ رجحان اور انداز اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے مشاہد سکھ افسروں نے اور 2002 کے گجرات قتل عام کے بعد مسلم افسروں و اہل کاروں نے تفتیش کنندگان کے سامنے فساد کی سازش رچنے والے اور اس کا نفاذ کرنے اور کرانے والے اعلیٰ سیاسی، انتظامی اور پولیس اہل کاروں کے خلاف حق کی گواہی کیوں نہیں دی؟ اس کے بر خلاف گجرات میں تین سینئر آئی پی ایس افسر (اے ڈی جی پی آر۔ بی۔ سری کمار، ایس پی راہل شرما اور سنجیو بھٹ) نے بغیر کسی انتقام کے، واضح ارادے کے ساتھ 2002 کے فساد میں ریاستی حکومت کے ذمہ داروں اور متعدد افسران کے ملوث ہونے کے ثبوت تفصیلی اعداد و شمار اور شواہد کے ساتھ پیش کیے۔ لیکن 6 مسلم آئی اے ایس اور ساتھ آئی پی ایس افسران دہلی کے سکھ افسران کی طرح اجتماعی جرائم کے کار پردازوں کے بارے میں قطعی خاموش رہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے صفحہ نمبر 18-19)۔

یہاں پر نسل پرستی کو بڑھاوا دینے یا کسی خاص فریق یا کمیونٹی کی بے جا حمایت کی بات نہیں کی جا رہی ہے، لیکن عمومی مفاد عامہ کی خاطر ایک نوکر شاہ کا کردار کیا ہونا چاہیے یہ سوال تو کیا ہی جا سکتا ہے اور بات اگر اپنوں کی ہو تو ذمہ داری بہرحال بڑھ جاتی ہے۔

اس تحریر کے ذریعے عمومی طور پر سارے نوکر شاہوں کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا جانا اصل مقصود ہے۔ ساتھ ہی قوم کا ایک فرد ہونے کے ناتے سے مسلم افسران سے بھی یہ گزارش ہے کہ قوم کو جب آپ کی ضرورت پڑے تو شخصی مفاد یا معمولی فائدہ کی خاطر قوم کا سودا کرنے سے گریز کریں، قوم کو آپ سے بہت امیدیں وابستہ ہیں، آپ انھیں بے یار و مدد گار نہ چھوڑیں۔ ایک اونچے مقام پر فائز پڑھے لکھے فرد کی حیثیت سے آپ کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے قوم سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بجائے ان کے ساتھ مناسب ربط و ضبط کو برقرار رکھیں۔

انھیں یہ مشورہ بھی دیا جانا بہتر ہو گا کہ ماضی قریب کی دو تین شخصیتوں کی زندگی کا ضرور مطالعہ کریں جن میں ایک سید حامد، دوسرے سید شہاب الدین اور زندوں میں ڈاکٹر سید ظفر محمود شامل ہیں۔

قوم اور خصوصی طور پر ملی تنظیموں کے سربراہان سے بھی ایک اپیل کرنے کی ضرورت لاحق ہے کہ وہ ایسے افراد کی با ضابطہ فہرست بنائیں، ان سے منسلک ہوں، قوم کے مسائل سے انھیں آگاہ کریں اور سرکاری طور پر قوم کی ترقی اور بڑھوتری کے لیے انھیں خود سے جوڑیں۔

آخری بات یہ کہ سول سروسز کی جانب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد راغب ہونے لگی ہے، لیکن دوسرے میدانوں میں بھی توجہ کی ضورت ہے۔ خاص کر قانون کے میدان میں بڑی تعداد میں رہنمائی اور توجہ کی ضرورت ہے، ملی تنظیمیں اس جانب دھیان دیں اور جس طرح سے سول سروسز کی تیاری اور امتحانات کے لیے بڑی تعداد میں کوچنگ سینٹروں کا قیام عمل میں آیا ہے، دیگر سماجی اور عمرانی علوم سے بھی قوم کے با صلاحیت نوجوانوں کو منسلک کرنے کی کوشش کریں۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah