تسطیر، سب نیلا ہے۔کتاب پر تبصره


سہ ماہی تسطیر کا شمارہ موصول ہوا۔

خوبصورت سرورق کی مصورہ عینہ عارف راجہ کا تعارف، حمدیہ و نعتیہ اشعار کے بعد ”سب نیلا ہے“ نصیر احمد ناصر کی ادارتی تحریر نے بچپن کی نیلی چڑیا۔ نیلی پری۔ نیلے بال پوائنٹ کی یاد دلا دی، ہم کزنز نے ایک ننھی سی بلیو برڈ پکڑی تھی، جو ہمارے دادا کے گھر کے لان میں چہچہاتی تھی، اور جب ہم نے بہت جتن سے اس کو پکڑا تو وہ خوف سے خاموش ہو گئی تھی اس کی نیلی خوبصورتی کا جائزہ لینے کے بعد ہم نے احتیاط سے اس کو ٹہنی پر بٹھا دیا تھا، بہت سارے نیلے محاورے اور اصطلاحات پڑھنے کے بعد نیلو نیل ہوتے ہوئے آگے بڑھے تو ”منو بھائ“ کا انٹرویو پڑھا جو ان کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر عظمی سلیم نے لیا تھا، منو بھائی سے گفتگو کے بعد دہلی کے ڈاکٹر زبیر رضوی سے صابر صاحب کی ملاقات کا احوال پڑھ کر معلوم ہوا کہ دہلی میں ابھی بھی مشکیزہ بردار پانی سے بھرے ہوئے مشکیزے لئے گھومتے ہیں اور راہ گیروں کو پانی پلاتے ہیں۔

دانیال طریر کی غیر مطبوعہ نظموں سے جھلکتی دل آویز یاسیت سے بہ مشکل نکلتے ہوتے علم و ادب کی تاریخ ساز شخصیت جناب شمس الرحمن فاروقی سے صابر صاحب کا مصاحبہ پڑھا اور جانا کہ اردو نے اپنی پرانی شان حاصل کر لی ہے۔

انورسن رائے اور عمر فرحت کی نثری نظم کے حوالے سے کی گئی سیر حاصل گفتگو بہت خوب رہی۔

سلمی اعوان کے قلم سے میڈرڈ کی سیر کا احوال پڑھ کر لطف آیا، سلمی اعوان اتنی سادگی و بے ساختگی سے سفر کا احوال بیان کرتی ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ سفر کرنا بالکل مشکل نہیں بس بیگ اٹھا کر گھر سے نکلنا ہے۔ سو اسپین کے میڈرڈ کی سیر کے بعد ہم دوبارہ اپنے بستر پر تسطیر تھامے آرام سے گر گئے۔

ملائشیا کے شہر سکوں کوالالمپور کی یادیں ”جیا شاہ“ نے پا کستان اور ملائشیا کے تقابل کے ساتھ رقم کیں ہیں اور ملائشیینز کو ”بیبے لوگ“ بتایا ہے، جیا شاہ کی گواہی کو مان لیا۔

ظفر سپل کی تحریر ”کانٹ“ اور اس کے فسلفے کی بابت پڑھ کر معلوم ہوا کہ فلسفی بننا ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے۔

نقد و نظر میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کا مضمون ”فیض صاحب :قبول خاطر و لطف سخن“ پڑھ کر فیض کی شخصیت و شاعری کی نئی جہت سے ہم طالب علموں کو شناسائی ہوئی۔

ڈاکٹر اقبال آفاقی صاحب نے ناول ”امراؤ جان ادا“ پر، ڈاکٹر ناصر عباس نئیر نے غالب پر اور شاعر علی شاعر نے اردو ناول پر سیر حاصل تجزیاتی مضامین قلم بند کیے ہیں۔

مستنصر حسین تارڑ کے نئے ناول منطق الطیر پر ڈاکٹر غافر شہزاد کا تفصیلی تبصرہ و تجزیہ ”، نئے سچ کی تلاش“ قاری کے ذہن میں فکری سوچ اجاگر کرتا ہے۔

سریندر پرکاش کے افسانوں پر عمر فرحت کا تجزیہ، اور جدید شاعری کی بوطیقا پر محمد عاطف سلیم کا تجزیہ دلچسپ ہے۔

سفینہ بیگم کا بانو قدسیہ کے ناول ”شہر لازوال، آباد ویرانے“ پر جاندار تجزیہ ناول کے سماجی و تہذیبی اور تنوعی موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔

تنویر قاضی اور عمار اقبال کی طویل نظمیں۔ گلزار کی نظمموں میں سے ”روز جگالی کرنا سب اخباروں کی“ بہت دلچسپ ہے، ملاخطہ فرمایئے

روز جگالی کرنا سب اخباروں کی

کالے کالے کیڑے چگنا

کنکر مٹی بھر کے منہ میں

پھر سارا دن

دانشور لوگوں میں بیٹھ کے تھوکتے رہنا،

مدعے۔ مقصد اور سیاست

دونوں وقت یہی کھاتا ہوں

میری تندرستی کا سارا راز یہی ہے!

اسکے علاوہ تبسم کاشمیری، جلیل عالی، سعادت سعید، جمیل الرحمن، سلیم شہزاد کی نظم ”نیلا ہٹ کی نظم“ بہت اثر ہے، آخری بند پڑھیے

ہمیں قابو میں رکھو

کہ قلم کی بریدگی

ہمارے ساتھ پڑی

نیلا ہٹ کی

نظم لکھ رہی ہے۔

کرامت بخاری۔ ابرار عمر۔ سلطان ناصر۔ فہیم شناس کاظمی۔ کے بی فراق، اُفضل مراد، فرحان مشتاق۔ ناصر کریم، صابر، حسن علوی، گل جہان، عرفان شہود، نصیر سومرو حفیظ تبسم۔ فیصل ریحان کی نظموں سے سجا تسطیر بلاشبہ قاری کے ذہن کو تراوٹ بخشتا ہے،

نظم کے خصوصی تانیثی مطالعے میں پروین طاہر، تبسم فاطمہ، رفعت ناہید، ثروت زہرہ، عارفہ شہزاد، عالیہ مرزا، قندیل بدر، نائلہ رفیق، فاطمہ مہرو، سدرہ افضل، ثنا فاطمہ، نیلم ملک اور صبا غوری کی نثری نظمیں ذاتی طور پر بے حد پسند آئیں، صبا غوری کی ”ادھوری نظم“ بہت خوب ہے،

نیلم ملک کی مصلوب قابل توجہ ہے۔

صبا پرویز کیانی کی ”ایک قدم کی دوری پر“ اور عظمی طور کی

”انگوٹھے کی ناخن جتنی عورت“

انگوٹھے کے ناخن پر

سیاہ لیپ کر کے تم

اپنی انا کے زور سے

اپنی اکڑ کے چھو منتر سے

اپنی جھوٹی خودداری کا جادو کر کے

ناخن جتنی عورت کو

اپنے قابو میں کر لیتے ہو

ناخن جتنی عورت

تمھارے انگوٹھے کے ناخن جتنی عورت پھر

کٹھ پتلی بن جاتی ہے

اشاروں پر تمھارے ناچتی ہے

کھیل تماشا ہو جاتی ہے

سماج کی مخصوص سوچ کی عکاسی کرتی ہے اس لیے ذاتی طور پر پسند آئی۔

افسانوں میں مشرف عالم ذوقی کا افسانہ ”اندھیرا اور کراس ورڈس، امجد شیخ کا“ قاتل ”محمد جمیل اختر کا“ پندرہویں سواری ”اعجاز روشن کا سریلا آدمی۔ نعیم بیگ اور فاطمہ عثمان کے افسانچے قابل داد ہیں۔

شاہین کاظمی کا ”گوئم کے کوے“۔ آسناتھ کنول کا افسانہ ”بی بی پیرنی“۔ ہما فلک کا ”سیپ“

ابصار فاطمہ کا ”اونچی ذات والیاں“ اور فارحہ ارشد صاحبہ کا راجپوتانی بیگم ”ارم ہاشمی کا“ بن بیاہی ”کمال افسانے ہیں۔

مختلف شعراء کے کلام کا اردو ترجمہ اور بہت ساری غزلیات سے مزین تسطیر دل کو بہت بھایا،

عزیز فیصل کی مزاحیہ غزل پر لطف رہی۔

سر سنجوگ میں گلوکار و موسیقار۔ ہیمنت کمار کے بارے میں پڑھ کر زندگی اور فن کے بارے میں جان کر اچھا لگا۔

تسطیر ادبی تقاضوں کے معیار پر پورا اترتا ہوا شمارہ ہے، جدید و قدیم اور عالمی ادب کے رنگوں سے سجا یہ کتابی سلسلہ ادب کے قارئین کے لئے ایک بہترین تحفہ ہے۔ دعا ہے کہ تسطیر مزید عروج پائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).