کہاں سے لاؤں انھیں


اردو ادب میں، عام طور پر یادنگاری کے دو طریقے رائج ہیں۔ ایک انداز سوانح عمری لکھنے کا ہے جب کہ دوسری طرز خاکہ نگاری کی ہے۔ دونوں عوامل میں تحدید اور اختیار کے اپنے اپنے ضابطے ہیں۔ ان آسائشات اور مشکلات کے اعتبار سے سوانح نویسی اور خاکہ نگاری کا مطالعہ کیا جائے تو خاکہ لکھنا، سوانح عمری لکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ سوانح عمری لکھنے میں ایک سہولت لکھنے والے کے پاس ہوتی ہے کہ وہ جس شخصیت کے بارے میں لکھ رہا ہے اس کی زندگی سے متعلق جملہ مصروفیات و مشاغل کو درج کرتا ہے۔ اس اندراج سے سوانح نویس رد و قبول کی صعوبت سے بچ جاتا ہے۔

اس کے برعکس خاکہ نگاری، یادنگاری کی مشکل صورت ہے۔ اس میں خاکہ نگار کے پاس وہ سہولیات نہیں ہوتیں جو سوانح نویس کو میسر ہوتی ہیں۔ خاکہ نگار کے لیے پہلی مشکل تو یہ ہوتی ہے کہ اس کے پاس بات کہنے کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔ سوانح نویس کے پاس بات کرنے کے لیے دو سو سے تین سو صفحات ہوتے ہیں (یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے ) جس میں رہ کر وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ جب کہ خاکہ نگار کے پاس سوانح نویس کی بہ نسبت چند صفحات ہوتے ہیں جن کی حدود میں رہ کر وہ اپنے ممدوح کے اوصاف پر روشنی ڈالتا ہے۔ خاکہ نگار کو اپنے ممدوح کے تعارف کے لیے کڑے انتخاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ آخر وہ کس وصف کو چھوڑے اور کسے بیان کرے۔ اگر وہ رد و قبول کی منزل سے نہیں گزرتا تو خاکہ طوالت اختیار کر جاتا ہے۔ یہ طوالت تحریر کو غیرمتوازن کر دیتی ہے۔ جس سے خاکہ لکھنے سے زیادہ خاکہ اڑنے کے مواقع زیادہ پیدا ہو جاتے ہیں۔

اس تمام تفصیل کا مقصد مظہرمحمود شیرانی کی کتاب ”کہاں سے لاؤں انھیں“ کا تعارف مقصود ہے۔ جس میں یادنگاری کے اعتبار سے پُروقار اور متوازن انداز اختیار کیا گیا ہے۔ اردو زبان و ادب میں شیرانی خاندان کا ورودِ مسعود کسی معجزے سے کم نہیں۔ یہ خاندان تین نسلوں سے اردو زبان و ادب کی ثروت مندی میں اضافہ کرتا آ رہا ہے۔ حافظ محمود شیرانی، اخترشیرانی، مظہرمحمود شیرانی ایسے اسما ہیں جنھیں تاریخِ ادبِ اردو کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ ”کہاں سے لاؤں انھیں“ شیرانی خاندان کی علمی وراثت کے امانت دار مظہرمحمود شیرانی کی کتاب ہے جسے ریڈنگز، لاہور سے اشاعتی ادارے القا پبلی کیشنز نے چھاپا ہے۔

 ”کہاں سے لاؤں انھیں“ میں بارہ شخصیات کو مرکزِ گفتگو بنایا گیا ہے۔ ایک سطح پر یہ بارہ لوگوں پر لکھے جانے والے شخصی خاکے ہیں جب کہ دوسری سطح پر یہ خاکے بیسویں صدی کی ادبی، سیاسی، تعلیمی روداد ہیں جس کی مدد سے مظہرمحمود شیرانی نے آئندگاں کے لیے روشنی اور بصیرت کا اہتمام کیا ہے۔ آج کے اس زرپرست معاشرے میں جس میں لوگ مادیت کے پیچھے دوڑیں لگا رہے ہیں، مظہرمحمود شیرانی اس عالم میں اپنے اُن لوگوں کو تلاش کر رہے ہیں۔

 ان کے نزدیک مادیت پرستی سے بچنے کا طریقہ شاید یہی زندگی نامے ہیں۔ علمِ نفس کی رو سے کسی بھی شخص کی باطنی دنیا میں جھانکنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ اس انسان کی پسند نا پسند سے واقفیت حاصل کریں۔ جو، جس قبیل سے متعلق ہو گا وہ اسی قبیل کے لوگوں کا ذکر کرے گا۔ ”کہاں سے لاؤں انھیں“ کے مندرجات پر اس کلیے کا اطلاق کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مظہرمحمود شیرانی کی زندگی بھلے مانس لوگوں میں گزری ہے۔

 ان لوگوں سے جتنا خیر شیرانی صاحب نے سمیٹا ہے، اسے لٹانے میں کمی نہیں کی۔ خیر کی اس داستان میں مظہر محمود شیرانی کسی ایک کڑی کو بلاجواز پیش نہیں کرتے۔ ان کے خاکوں میں علت اور معلول کا گہرا تعلق دیکھنے میں آتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ رائج خاکہ نویسی کے انداز میں، علم نجوم کی مدد سے، صاحبِ خاکہ کے ساتھ اپنی بے تکلفی ثابت کرنے کے لیے گھڑے ہوئے، بناوٹی واقعات کا انبار لگا دیں جس سے یہ امتیاز ختم ہو جائے کہ خاکہ کس کا ہے۔ (خاکہ نویس کا ذاتی خاکہ یا دوسری شخصیت کا زندگی نامہ)

مظہرشیرانی ایسا نہیں کرتے۔ وہ ٹھوس انداز میں باہمی خط و کتابت کے حوالے دیتے ہیں۔ جس سے قاری کسی الجھاؤ میں پڑے بغیر سچے لوگوں کی سچی دنیا میں داخل ہوتے ہوئے اطمینان محسوس کرتا ہے۔ یادنگاری میں تحقیق کا یہ انداز شیرانی صاحب کا امتیازی وصف ہے۔ ایک اور خوبی ان کے ہاں اعتراف کی ہے۔ زندگی میں جس شخصیت نے، شیرانی صاحب کی جتنی خیرخواہی کی انھوں نے اس کا کھل کر اعتراف کیا ہے۔ اس کے برعکس آج کل کی معاشرت میں لوگ دوسرے دن بھول جاتے ہیں لیکن چراغ صفت لوگ ایسا نہیں کرتے۔

 ”کہاں سے لاؤں انھیں“ کے مندرجات میں شیرانی صاحب نے پروفیسر حمید احمد خاں، سید وزیر الحسن عابدی، ڈاکٹر غلام مصطفی خان، احمد ندیم قاسمی کی عنایات کا کھل کر اعتراف کیا ہے۔ مظہر محمود شیرانی کی یاد نگاری کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ وہ جس شخصیت کو موضوع بناتے ہیں، اس کے روشن پہلوؤں کا انتخاب کرتے ہیں۔ عام خاکہ نگاروں کی طرح صاحب خاکہ کی شخصیت میں عیب کی تلاش کو خزانے کی تلاش سمجھ کر بغلیں نہیں بجاتے کہ جس سے صاحبِ خاکہ منہ چھپاتا پھرے۔ شیرانی صاحب اس سے ہٹ کر، چن چن کر صاحبِ خاکہ کے اوصاف کو بیان کرتے ہیں۔ نتیجتاً روشن پہلو شخصیت کے تاریک پہلوؤں کی طرف دھیان ہی نہیں جانے دیتے (اگر کوئی عیب موجود بھی ہو تو)۔

اوصاف کی یہ تلاش شیرانی کی ذات کے ساتھ اچھائی تک محدود نہیں بلکہ جس شخصیت نے بھی کسی دوسرے انسان کے ساتھ بھلائی کی ہو اسے شیرانی صاحب بے کم و کاست بیان کر دیتے ہیں۔ شیرانی صاحب جزئیات نگاری میں خاکہ اعتدال سے کام لیتے ہیں۔ ایسا نہیں کرتے کہ ان کے بیان سے، ان کے ممدوح کی دل آزاری ہو، یا اس کی ذات میں ضم کا کوئی پہلو نکلے۔ شیرانی صاحب بیان میں اپنی ذات اور اپنے ممدوح کے مقام و مرتبے کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں۔ ان کے خاکے ان کے ممدوحین کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی ذاتی کے بھی عکاس ہیں۔ احترام، شرافت اور ملن ساری ان کی شخصیت کی پہچان ہے۔ اس اعتبار سے دو واقعات قارئین کی دلچسپی اور شیرانی صاحب کے مزاج کی آگاہی کے لیے درج کرتے ہیں۔

 ”تیسرے واقعے کا تعلق میرے جذبات سے ہے۔ خاں صاحب کی کلاس اس کمرے میں ہوتی تھی جو اسلامیہ کالج (سول لائنز) کے دو میں سے مشرقی جانب واقع گیٹ میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ والے بلاک کے کونے پر ہے۔ موسمِ سرما کی ایک صبح کو جب وہ کلاس پڑھا رہے تھے تو روشن دان میں سے آنے والی دھوپ ان کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ وہ پڑھاتے ہوئے کبھی آنکھوں پر ہاتھ اوٹ کرتے اور کبھی سر کو دائیں بائیں جنبش دیتے۔ میرا کیسا کیسا جی چاہا کہ چپکے سے نکلوں اور سیڑھیاں چڑھ کر روشن دان پر اپنا کوٹ اتار کر ڈال آؤں۔ اس میں قباحت یہ تھی کہ میرا کلاس سے اٹھ کر جانا اور واپس آنا بھی بے ادبی کے ذیل میں آتا تھا۔ یوں بھی میں ایک خاموش اور شرمیلا طالب علم تھا لہٰذا یہ جرأت نہ کر سکا لیکن اس کی کسک آج بھی دل میں محسوس کرتا ہوں۔ “

یہ واقعہ پروفیسر حمید احمد خاں کی کلاس سے متعلق ہے۔ آپ اس اقتباس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ شیرانی صاحب کے اس احساسِ ملال میں کتنی دل بستگی ہے۔ کاش آج کل کے استاد اور شاگرد میں اس نوعیت کا قلبی احترام پھر سے جاگ جائے۔ دوسرا واقعہ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب سے ملاقات سے متعلق ہے۔ اس اقتباس سے ہم شیرانی صاحب کی باطنی صداقت سے روشناس ہوتے ہیں۔

 ”ممکن ہے اگر ہم بیعت کی درخواست کرتے تو ڈاکٹر صاحب اپنی شفقت کی بنا پر منظور فرما لیتے لیکن ذرا دیر پہلے جب ملاقات ہی غیر یقینی تھی تو میں دو بار کہہ چکا تھا کہ ہم بیعت کرنے نہیں آئے۔ اب یہ درخواست کرنے میں شرم دامن گیر تھی۔ “

اللہ اکبر، قارئین شیرانی صاحب کی صداقت اور مزاج میں احتیاط اور دیانت کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ زندگی میں اپنے اعمال کو سرانجام دینے میں کتنی دانائی سے کام لیتے ہیں۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ انسان کی شخصیت کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے چھوٹے چھوٹے کاموں کی انجام دہی کے دوران دیکھو کیوں کہ وہ بڑے بڑے کام باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت سرانجام دیتا ہے۔ مظہرمحمود شیرانی کے خاکے عالمانہ نثر کے عمدہ مرقعے ہیں۔ ان کے لہجے میں ابتذال اور رقاقت نام کو بھی نہیں۔ اگر کہیں کسی کجی کا بیان ناگزیر ہو تو بھی تہذیب اور شائستگی دامن گیر رہتی ہے۔ وزیر الحسن عابدی صاحب کے خاکے میں، عابدی صاحب کے معاندین سے متعلق ایک روایت کو کس سبھاؤ سے بیان کیا ہے۔

 ”اللہ مجھے معاف کرے۔ منقولہ بالا سطور کا آخری فقرہ پڑھتے ہی مجھے عابدی صاحب یاد آئے تھے۔ اتنا ضرور ہے کہ عابدی صاحب کے معاملے یہ مراق ان کا اپنا کم اور زیادہ تر ان کے مہربانوں کا عطا کردہ تھا۔ مجھے ایک سقہ شخص نے بتایا کہ جب پنجاب یونیورسٹی مطبع میں عابدی صاحب کی مدونہ کتابیں چھپ رہی ہوتی تھیں تو ان کے معاونین ان کتابوں کے بیچ میں سے فرمے کھنچوا کر ضائع کروا دیتے تھے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون، بھلا اس ماحول میں وہ کیا علم کی خدمت کرتے اور کیا کارنامے انجام دیتے۔ “

 ”کہاں سے لاؤں انھیں“ میں شامل خاکوں کے عنوان، مصنف کی ذات سے متعلق گہرے مشاہدے کے عکاس ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ خاکے کے عنوان میں صاحب خاکہ کی پوری پوری شخصی تصویر کھینچ دی گئی ہے جیسے شعلہ مستعجل اختر شیرانی، یادگارِ اسلاف مولانا سید محمد یعقوب حسنی، جامع علم و اخلاق پروفیسر حمید احمد خاں، حرم میں برہمن وطن میں غریب سید وزیر الحسن عابدی، نباض الملک حکیم نیر واسطی، صاحبِ اکرام اکرام حسن خاں، ضیائے علم الدین ڈاکٹر ضیاء الدین دیسائی، بن ٹھن کے کہاں چلے؟ مشفق خواجہ، نذیر خویش نہ بگزاشتند و بگزاشتند ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، کون گلی گیوں ”خاں“ رشید حسن خاں، سانجھ پئی چوں دیس احمد ندیم قاسمی، کیا عمارت ”قضا“ نے ڈھائی ہے پروفسیر عبدالوحید قریشی۔

 ”کہاں سے لاؤں انھیں“ میں شامل تمام خاکوں میں شیرانی صاحب نے اپنے ممدوحین کے ساتھ قلبی لگاوٹ کا ثبوت دیا ہے تاہم پروفیسر حمید احمد خاں، سید وزیر الحسن عابدی، ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، احمد ندیم قاسمی کے خاکے ایسے قلمی معجزے ہیں جن کی قوتِ جاذبہ دیر تک اور دور تک محسوس کی جائے گی۔ ان خاکوں کے بیان میں شیرانی صاحب کا جادو سر چڑھ کر بولا ہے۔ پتا نہیں اتنی شائستہ اردو لکھنے والے لوگ کہاں چلے گئے ہیں۔ ”اے اہلِ زمانہ قدر کرو نایاب نہیں کمیاب ہیں ہم۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).