بلور خاندان کی قربانیاں اور ولی باغ کی خاندانی جائیداد


ہارون بلور کے بیٹے دانیال بلور کا خیال تھا پارٹی میں سیکرٹری اطلاعات کی سیٹ پر وہ بلامقابلہ جیت جائیں گے۔ انہیں پورا یقین تھا کہ پارٹی کے مرکزی راہنما جو ان کے والد کی خود کش حملے میں شہادت پر دکھی تھے اور بہت روئے تھے ان کی کامیابی کے لئے کردار ادا کریں گے۔ دانیال بلور سوچتا تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی اور پختونوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے پہلے اس کے دادا نے جان قربان کی، پھر والد نے جان دی، اس لئے پارٹی کی مرکزی قیادت دست شفقت رکھے گی۔

لیکن دانیال بلور یہ نہیں جانتا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں، صرف دماغ ہوتا ہے۔ دماغ سوچتا ہے کہ اس نوجوان کے ورثہ میں خون کا اثاثہ ہے، کہیں ہماری جگہ نہ لے لے۔ دماغ تو ہمیشہ عقل کی بات سمجھاتا ہے۔ جب ہر روز بم دھماکے ہوتے تھے دماغ نے کہا ملک چھوڑ دو اور اے این پی کے سربراہ نے ملک چھوڑ دیا۔ لیکن حاجی بشیر بلور اور حاجی غلام احمد بلور تو ملک سے نہیں بھاگے۔ جہاں بم دھماکہ ہوتا، بلور برادران وہاں پہنچتے اور پھر پہلے ایک بلور مارا گیا۔ پھر دوسرا بلور مار دیا۔ پھر تیسرا بلور کفن باندھ کر آ گیا۔ آؤ اب مجھے مارو۔ میں بھی اپنے باپ دادا کے نقش قدم پر چلنے والا ہوں۔

دانیال بلور کے مقابلہ میں عوامی نیشنل پارٹی کا ایک اور امیدوار بھی کھڑا ہو گیا ہے۔ مسئلہ امیدوار کھڑا ہونے میں نہیں، سب ارکان کو انتخاب لڑنے کا حق ہے۔ کسی کو نہیں روکا جا سکتا کہ تم ہمارے خاندان کی قربانیوں کو یاد رکھو اور دست بردار ہو جاو۔ مسئلہ یہ ہے ولی باغ کی قیادت نے دانیال بلور کے مقابلہ میں اپنا امیدوار کھڑا کر دیا ہے اور اس کی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔ غلام احمد بلور کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ حیران تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے شہید بھائی کے خاندان کو پارٹی کے اندر رسوا کیا جا رہا ہے۔ اس کے سفید بالوں کی لاج نہیں رکھی جا رہی۔

منظور پشتین نے پختونوں کے حقوق کی ملکیت تو پہلے ہی چھین لی ہے۔ اب بجائے اس کے کہ پارٹی کو مستحکم کرتے اور منظور پشتین کیلئے میدان کھلا نہ چھوڑتے، یہاں تو سیکرٹری اطلاعات کی سیٹ نہیں چھوڑ رہے اور پختونوں کے حقوق کی جنگ کا ٹھیکہ منظور پشتین کو دینے کیلئے تیار ہیں۔ اجمل خٹک کا وقت اور تھا۔ بیگم نسیم ولی خان اور فرید طوفان کو جب پارٹی سے نکالا، وقت دوسرا تھا ،اب وقت تبدیل ہو چکا ہے۔ غفار خان اور ولی خان کا ورثہ نہیں سنبھالا اور جن کے ذریعے جن کی قربانیوں اور طاقت سے غفار خان اور ولی خان کا ورثہ سنبھالا جا سکتا ہے، انہیں پارٹی میں اپنا حریف سمجھ لیا ہے۔

سیاسی جماعتیں اس طرح نہیں چلتیں جس طرح عوامی نیشنل پارٹی چلائی جا رہی ہے۔ بلور خاندان نے اگر پارٹی چھوڑ دی تو سیکرٹری اطلاعات کی سیٹ محفوظ ہو جائے گی لیکن عوام اسے اچھا نہیں سمجھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).